نوید قمر کی ٹیکس ریکوری سے متعلقہ قانون کو بہتر بناکر لانے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے چیئرمین نوید قمر نے کہا ہے کہ کسی کے اپیل کے اختیار کو ختم نہیں کرسکتے، آپ قانون کو بہتر بناکر کل پیش کریں۔
اجلاس میں ٹیکس ریکوری سے متعلقہ امور پر غور کیا گیا، چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے شرکاء کو بتایا کہ قانون کے تحت ٹیکس افسرکے اسیسمنٹ آڈر پر عمل درآمد کا وقت ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی ایپلٹ ٹریبونل اور ہائی کورٹ میں ہار جائے تو اس کا ٹیکس بینک اکاونٹ سے لیں گے۔
راشد لنگڑیال نے مزید کہا کہ جو ایپلٹ ٹریبونل میں جیت جائے اور ہائیکورٹ میں ہار جائے اس کی کٹوتی نہیں کریں گے، ہم ایسے شخص کو اپیل کا حق دیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم 2 موقع دے رہے ہیں، اس کے بعد اگر سپریم کورٹ میں جیت جائے تو 2 دن میں پیسے واپس کردیں گے، ویسے ایسے کیسز کے فیصلوں میں 7 سے 10 سال لگ جاتے ہیں، اگر اچھا وکیل ہو تو 60 سال تک مقدمہ کا فیصلہ ہی نہیں ہوتا۔
اجلاس کے دوران مبین عارف نے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد سزائے موت ڈائریکٹ نہیں ہوتی، عدالت کے فیصلے کے بعد کاپی ملنے میں ہفتہ لگ جاتا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نوید قمر نے استفسار کیا کہ آپ سپریم کورٹ جانے سے کیوں روک رہے ہیں، آئینی حق کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ آپ سپریم کورٹ میں اپیل سے پہلے کیوں وصولی کرنا چاہتے ہیں؟
اس پر بلال اظہر کیانی نے کہا کہ سیشن اور ہائیکورٹ میں فیصلہ آنے یا اپیل خارج ہونے پر گرفتاری ہوتی ہے، ایک آدمی دو دفعہ ہار کر بھی ٹیکس ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔
نفیسہ شاہ نے کہا کہ یہ تو ٹیکس زبردستی وصولی کرنے والی بات ہے، اس قانون کے بعد مقدمہ بازی بڑھ جائے گی، اس کو انسانی حقوق کیخلاف ورزی کہا جائے گا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ یہ معاملہ کمیٹی سے حل نہیں ہوگا، آپ اپنی رائے دے دیں۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ اس قانون کے تحت ایف بی آر کو اختیار دیا تو لوگوں کو فیصلے کے بعد بھی پیسے نہیں ملیں گے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نے کہا کہ کورٹ میں کے بعد
پڑھیں:
سپریم کورٹ آئینی بینچ: ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ، آج ہی سنایا جائے گا
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس میں تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، مختصر فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کی۔
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل سمیٹتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں سیاسی تبادلے کیے گئے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور سینئر قانون دان منیر اے ملک نے جواب الجواب میں دلائل دیے، تمام وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ ججز ٹرانسفر کے خلاف کیس کا مختصر فیصلہ آج سنائیں گے۔
واضح رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے دیگر ہائیکورٹس سے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ کیے جانے کے بعد عدالت عالیہ کے 5 ججز نے سینیارٹی کے معاملے پر رواں سال 20 فروری کو سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سینئر وکلا منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت دائر 49 صفحات پر مشتمل درخواست میں استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہےکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے نظر ثانی شدہ سنیارٹی لسٹ میں ججز کے عہدوں کو کم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے گزشتہ فیصلوں پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، جس میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی شامل ہے جس میں تقرریوں سے تبادلوں کو الگ کیا گیا تھا۔
نجی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے سنیارٹی لسٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی تھی۔
یہ فیصلہ ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق آئینی دفعات اور عدالتی مثالوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب وزارت قانون و انصاف نے یکم فروری کو ایک نوٹی فکیشن جاری کیا جس میں 3 موجودہ ججز جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا ان کے متعلقہ ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا تھا۔