Express News:
2025-08-06@05:33:35 GMT

سفید شیر

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

صاحب‘ بالکل بھی فکر مند نہیں تھے۔ بڑے آرام سے سگار سلگا رہے تھے۔ بیس ایکڑ پر محیط فارم ہاؤس میں کافی خاموشی تھی۔ حیرانی یہ تھی کہ دو ماہ سے پاکستان میں قیام پذیر تھے۔ کم از کم مجھے معلوم نہیں تھا کہ شہر ہی میں ہیں۔ چند دن قبل ‘ ہونے والی یہ ملاقات ہرگز ہرگز معمول کا حصہ نہیں تھی۔ کبھی ایسے ہوا نہیں‘ کہ صاحب‘ لاہور ہی میں ہوں اور آتے ہی مجھ سے بات نہ ہوئی ہو۔ مگر یہ معاملہ چونکا دینے والا تھا کہ تقریباً ساٹھ دن سے یہیں پر موجود تھے اورکسی قسم کا کوئی رابطہ نہ ہو پایا تھا۔ بہر حال‘ پہلے دس منٹ کوئی گفتگو نہ ہوئی۔

صاحب‘ نے مجھ سے پوچھا کہ جو سگار میں دھواں میں اڑا رہا ہوں‘ اس کی قیمت معلوم ہے۔ اندازہ سے بتایا کہ دس بارہ لاکھ کا ہو گا۔ سنجیدگی سے کہنے لگے کہ یہ Gurkha Royal Courteson Cigarہے۔ ایک سگار کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ کوفت ہونے لگی- ایسے معلوم پڑا کہ صاحب‘ مبالغہ آرائی کر رہے ہیں۔ ایک سگار کی قیمت کروڑوں میں ہو گی؟ میرے ذہن میں سوال تھا کہ اتنی زیادہ قیمت کیسے ہو سکتی ہے۔ خیر مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں آئی۔ اگلا جملہ کافی سنجیدہ تھا۔ میںنے گزشتہ چند ہفتوں میں آپ کے ملک سے حد درجہ ڈالر کمائے ہیں۔ یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ کتنے ہیں۔ مگر یہ ضرور کہوں گا کہ عام کاروباری لوگوں کی سوچ سے بھی زیادہ ۔ مگر کیسے؟ میرے اس سوال پر قطعاً مسکرائے نہیں۔ دیکھو ڈاکٹر ‘ جہاں بھی جنگ ہوتی ہے یا جنگ کے امکانات مصمم نظر آتے ہیں۔ وہاں‘ نظام میں دفاعی معاملات‘ ہر امر پر سبقت لے جاتے ہیں۔ نظر نہ آنے والے خزانوں کے مونہہ مجبوری میں کھول دیے جاتے ہیں۔

دنیا کے معدودے چند سوداگر‘ اس نازک موڑ پر بلا تردد ‘ خرید و فروخت کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں حکومتیں‘ وطن پرستی جرأت و شجاعت اور فتح کے ایسے فقرے پڑھتی ہیں کہ عام لوگ‘ فلاح و بہبود کو نظر انداز کر کے‘ مہنگی ترین جنگ میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ اور ہاں! میں تو قریبی دشمن ممالک جو ایک دوسرے کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ سب کے حکمران طبقے سے دوستی رکھتا ہوں۔ دونوں متحارب فریقین کو ان کا من پسند اسلحہ فراہم کرتا ہوں۔ طاقتور لوگوں کی جائز اور ناجائز خواہشات کو آسودہ کرتا ہوں۔ کثیر منافع کما کر نکل جاتا ہوں۔ جنگ‘ میرے لیے ایک نعمت ہے۔بلکہ میرے لیے کیا پوری دنیا میں جنگ کے شعبے سے منسلک ہر کاروباری شخص کی بہترین خواہش ہے۔ مگر اس میں تو‘ ملک اپنے بہترین لوگ گنوا دیتا ہے؟ اس سوال پر ‘ صاحب نے مجھے غور سے دیکھا۔ کہنے لگے ‘ پوری دنیا کی افواج پر تنقیدی نظر ڈالو۔ اس میں حکمران طبقے کا کوئی فرد نہیں ملے گا۔

چلو امریکا‘ روس‘چین کی مثال لے لوں۔ ٹرمپ‘ پوٹن اور زی چنگ ین کا بیٹا‘ بیٹی ‘ یا داماد نظر نہیں آئے گا۔ اکثریت درمیانے یا غریب طبقہ کے لوگ ہوں گے ۔ جو اپنے بہتر مستقبل کے لیے فوج میں بھرتی ہو جاتے ہیں۔ اور پھر انھیں ‘ نعروں کی بنیاد پر بتایا جاتا ہے کہ ایک ایسی موت تمہاری منتظر ہے جس میں عظمت ہی عظمت ہے۔ کم از کم ‘ میں نے کبھی اس نظریے سے دنیا کی کسی بھی عسکری طاقت کو پرکھا نہیں تھا۔ خیر مجھے ‘ سوچ میں پڑتا دیکھ کر صاحب‘ مسکرا کر کہنے لگے۔ کہ فرانس کے صدر‘ سرکوزی کانام سنا ہوا ہے۔ اس کے حالات جانتے ہو۔ وہ ‘ دو مقدمات میں سزا یافتہ ہے۔

کہنے کو تو اس نے ایک جج کو مراعات دی تھیں۔ اور اس کے بدلے میں اپنے خلاف‘ ایک تفتیش میں مدد حاصل کی تھی۔ مگر اصلیت میں‘ سرکوزی سے چند اہم اور امیر لوگ ناراض ہو گئے تھے۔ جنھوں نے اس کی الیکشن مہم میں کافی سرمایہ فراہم کیا تھا۔ بدلے میں کافی ٹھیکے حاصل کیے تھے۔

سرکوزی نے جب ان طاقتور لوگوں سے اپنے وعدے پورے نہیں کیے تھے۔ اسی وقت سے‘ ان دیکھے نظام کی بائیں طرف آ گیا تھا۔ اوراب سالہا سال سے ذلت و رسوائی میں مبتلا ہے۔ مگر آپ کا ‘ فرانس کے سیاسی معاملات سے کیا تعلق؟ صاحب نے اس بے ساختہ سوال پر ہنسنا شروع کر دیا۔ واقعی میرا کوئی تعلق نہیں۔ مگر میں جس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس کا تو دنیا کے تمام حکمران طبقے سے مفادات کا گہراتعلق ہوتا ہے۔ خیر اس معاملہ پر آگے کوئی بات نہیں ہوئی۔

ہم دونوں ‘ اسٹڈی روم سے نکل کر باہر لان میں آ گئے۔ انگریز ملازم بڑی جانفشانی سے خدمات پر مامور تھے۔ پورے نظم وضبط کے ساتھ‘ تراشے ہوئے گھاس پر پھولدار کرسیاں رکھ رہے تھے۔ صاحب نے ‘اٹلی کے تراشے ہوئے گلاس میں ’’آتشیں سیال‘‘ انڈیلا۔ برف ڈال کر خاموشی سے چسکیاں لینے لگے۔ اتنی دیر میں ایک ملازم آیا۔ اس کے ساتھ سفید رنگ کا بہت بڑا شیر تھا۔ سفید بال اور مہیب سا جبڑا۔ اس کی سانس لینے کی آواز ایسے آ رہی تھی جیسے دھونکنی چل رہی ہے۔

میرے اندر خوف کی ایک لہر بہرحال موجود تھی۔ کیونکہ کسی بھی شیر کو اتنے قریب سے دیکھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ شیر‘ صاحب کے قدموں میں ایسے بیٹھ گیا جیسے ایک پالتو بلی ہو۔ ڈاکٹر ‘ یہ شیروں کی نایاب نسل ہے۔ جو دراصل Albinoہیں۔ سفید رنگ کے یہ جانور بہت قیمتی ہیں۔ اور میں نے ان کی افزائش نسل کے لیے‘ اس فارم ہاؤس میں الگ نرسری قائم کی ہے۔ اب تقریباً تیس کے لگ بھگ شیر اور شیرنیاں موجود ہیں۔

ان میں سے اکثر تو بالکل جنگلی سے ہیں۔ مگر تین نر شیروں کو میرے اسٹاف نے سدھا رکھاہے۔ ان میں اور کسی پالتو جانور میں کوئی فرق نہیں۔ یہ دیکھنے میں توبہت ڈراؤنے سے معلوم پڑتے ہیں۔ مگر ان کے اندر کسی قسم کے حملے کی کوئی رمق نہیں ہوتی۔ مجھے اس سفید شیر سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ملازم ‘ کو صاحب نے اشارہ کیا۔ اور وہ بڑے اطمینان سے اس جانور کو واپس لے گیا۔ ڈاکٹر ‘ ایک بات کہوں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی اشرافیہ ‘ بالکل‘ اس پالتو شیر کی طرح ہوتی ہے۔ یہ گوشت کھاتے ہیں۔ اشرافیہ‘ پیسے اور خفیہ جائیداد پر چلتی ہے۔ جب تک دونوں کو ان کی مخصوص غذا ملتی رہے‘ پالتو ہی رہتے ہیں۔ اور یہ غذا‘ میرے جیسے لوگوں کے پاس وافر تعداد میں موجود ہوتی ہے۔

دنیا کا مالیاتی نظام‘ جائز اور ناجائز پیسے میں کوئی تفریق نہیں کرتا۔ اس کا مقصد‘ صرف اور صرف پیسہ ہوتا ہے۔ وہ کہاں سے آ رہا ہے۔ اس میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ تمام معاملہ میرے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کا کام ہے۔ بہت قلیل وقت میں جہاں بھی ڈالر بھجوانے ہوں‘ فوراً پہنچ جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان پتہ بھی نہیں چلتا۔ پوری دنیا میں حکمران طبقہ‘ پیسے کی غذا کھاتا ہے۔کوئی میرٹ کا نام لے کر‘ کوئی شفافیت کا نعرہ بلند کر کے اور کوئی ملکی ترقی کا خواب دکھا کر۔ مقصد صرف ایک ہی ہوتاہے۔ ہاں‘ عوام میں اپنا امیج بہتر رکھنے کے لیے فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں۔ اور یہ صرف اس لیے کہ حواری اپنا حصہ وصول کرتے رہیں۔

دولت‘ ہاتھ بدلتی رہے۔ اور نزدیکی حلقہ بھی مطمئن رہے۔ یہ سب کچھ ازل سے ہوتا آ رہا ہے ۔ مگر اب اس نے ایک آرٹ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ دراصل جو ایمانداری کے سب سے بلند و بانگ وعدے کرے گا‘ وہ اتنا ہی بے ایمان ہو گا۔ مسلمان ممالک کے حکمران تو خیر‘ پیسے کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مگر مجموعی طور پر پوری دنیا میں تقریباً ایک جیسا معاملہ چل رہاہے۔ بس طریقہ کار کا فرق ہے۔ اور وہ بھی معمولی سا۔

اور ہاں ‘ ڈاکٹر ایک بار ناجائز دولت کا بہاؤ اپنی طرف ہو جائے‘ تو انسان مکمل طور پر تساہل کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے مثبت کام کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ ہر وقت easy monyکے لیے‘ مستعد نظر آتا ہے۔ انسانوں کو رہنے دو۔ جانوروں میں بھی یہی حال ہے۔ خونخوار ترین درندوں کو جب آرام سے گوشت مل جاتا ہے ۔ تو وہ بھی شکار یا محنت کرنے کے عادی نہیں رہتے۔ صاحب‘ نے کہا‘ کہ آؤ ذرا سفید شیروں کی نرسری دیکھتے ہیں۔ وہاں گئے تو کافی نر اور مادہ شیر‘ بڑے بڑے پنجروں میں موجود تھے۔ ہمیں دیکھ کر ‘ انھوںنے کسی قسم کا رد عمل نہیں دیا۔ صاحب کہنے لگے کہ میرے پاس صرف تین ایسے شیر ہیں جنھیں ملازموں نے مانوس کر رکھا ہے۔

اب وہ مکمل طور پر بے ضرر چوہے بن چکے ہیں۔ دوڑ کر گوشت کھانے سے بھی قاصر ہیں۔ صاحب ان تین شیروں کے پنجرے کی طرف گئے۔ نوکر کو اشارہ کیا۔ تو ایک میمنے کو لے کر آئے۔ اسے پنجرے میں ڈال دیا۔ صاحب کہنے لگے کہ یہ میمنہ بالکل محفوظ ہے۔ میں ظالم ضرور ہوں۔ پر اتنا ظالم نہیں کہ معصوم سے بکری کے بچے کی بلی چڑھا دوں۔ شیر‘ اب اتنے آرام طلب ہو چکے ہیں۔ کہ ہل جل کر کے ‘ اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ میمنہ پنجرے میں بیٹھا رہا اور پھر آرام سے باہر آ گیا۔ صاحب نے نوکر کو اشارہ کیا۔ تو اس نے گوشت کے ٹکڑے شیروں کے سامنے ڈال دیے۔ شیر‘ مزے سے ان ٹکڑوں پر پل پڑے۔ صاحب نے غور سے مجھے دیکھا اور کہا‘ کہ تیسری دنیا کی اشرافیہ ‘ ہمارے لیے بے ضرر شیر جیسی ہے۔ مکمل طور پر پالتو!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پوری دنیا میں کہنے لگے جاتے ہیں کے لیے

پڑھیں:

آج 4 اگست ہے۔ پاپا کی سالگرہ کا دن۔۔۔

تحریر: روشین عاقب

کسی بیٹی کے لیے اپنے جان سے عزیز والد کی جدائی سہنا اور پھر اس کرب و صدمے کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنا ایک ایسا کٹھن مرحلہ ہے جسے بیان کرنے کے لیے کسی بھی  زبان میں کوئی مکمل لغت موجود نہیں۔ وہ دکھ جو روح کی گہرائیوں میں سرایت کر جائے، اسے کاغذ پر اتارنا ممکن نہیں۔

پاپا کی ذات ایک انجمن تھی۔ اتنے پہلو، اتنے رنگ کہ اگر ہر پہلو پر الگ سے لکھا جائے تو دفتر درکار ہوں۔ وہ ایک بے مثل انسان، صاحبِ طرز تخلیق کار، بہترین دوست اور بے پناہ محبت کرنے والے باپ اور شوہر تھے۔ بچپن میں ہمیں شاید اس نسبت کا احساس نہ تھا مگر جیسے جیسے شعور کی آنکھ کھلی، یہ احساس راسخ ہوتا گیا کہ ہم ایک غیرمعمولی انسان کی اولاد ہیں وہ جو انسانیت کا کامل نمونہ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’’بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے‘‘ امجد اسلام امجد حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے

اگر ان کی تخلیقات کی بات کی جائے تو نظم، نثر، کالم، ڈراما، سفرنامہ، تنقید۔ ادب کی ہر صنف میں ان کا کام  گویا  موتیوں میں تولنے لائق ہے۔ ان کی تحریریں سچائی اور بے ساختگی کا ایسا آئینہ تھیں کہ پڑھنے والا خود کو ان میں موجود پاتا۔

اور یہی سچائی اور صاف گوئی ان کی ہر تحریر میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ان کے ڈرامے اٹھائیے، کردارنگاری کا مطالعہ کیجیے، ہر کردار زمینی ہے، ہمارے آس پاس کا ۔۔۔ ہماری ہی باتیں کرتا ہے ہمارے ہی مسائل بیان کرتا ہے ہماری ہی زبان بولتا ہے ہم ان سب کرداروں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہم خود ہیں۔

شاعری میں ان کا رنگ کچھ اور ہی تھا۔ خواب، بارش، سمندر، وقت اور محبت جیسے استعارے ان کے قلم سے ایک نئی جہت پاتے۔ ان کی نظم ’محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے‘ ایک ابدی خوشبو کی طرح دل میں اترتی ہے، اور ’سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘ جیسی نظمیں تلخ حقیقتوں کو اس انداز میں بیان کرتی ہیں کہ قاری تادیر سوچتا رہ جائے۔

مگر کسی بھی شخصیت کی اصل عظمت اس کی تخلیقات سے زیادہ اس کے کردار میں ہوتی ہے۔ اور اگر یہ میزان ہو، تو پاپا اپنی مثال آپ تھے۔ میں نے ان سے بڑھ کر شفاف دل، درگزر کرنے والا اور خالص انسان کوئی نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’اپنی نیکی کبھی یاد نہیں رکھنی اور دوسرے کی کبھی بھولنی نہیں‘۔

اور یہ محض زبان سے ہی نہیں کہتے تھے بلکہ خود مجسم مثال تھے۔

مزید پڑھیے: محبتوں کے شاعر امجد اسلام امجد ہمیں چھوڑ گئے

اگر کوئی ان سے زیادتی بھی کر جاتا تو وہ  نہ صرف اسے معاف کر دیتے بلکہ معاف کرتے ہی فوراً بھول جاتے تھے۔ دوبارہ ذکر آتا تو اس شخص کی طرف سے وکیل بن کر اس کا دفاع کرتے۔ ان کے لیے سب سے مشکل کام کسی کو تکلیف میں دیکھنا  تھا۔ وہ تو دوسروں کا دکھ بانٹتے کے عادی تھے۔ کوئی بھی  دنیاوی نقصان ان کے لیے کبھی صدمہ نہ بنا۔ ان کا اپنا مصرع تھا:

’وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا‘

اور یہ فقط ایک مصرعہ نہیں بلکہ ان کی پوری زندگی کا خلاصہ تھا۔

انہوں نے زندگی بھر ہماری آسائش کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ بہن بھائیوں، رشتہ داروں، دوستوں، سب کے لیے وہ ایک سایہ دار شجر تھے۔ اگر کسی نے ان کے سامنے اپنی پریشانی ظاہر کر دی تو وہ  خود بھول جائے تو بھول جائے لیکن پاپا سکون سے نہ بیٹھتے جب تک اسے حل نہ کر لیں۔

وہ شوہر کیسے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دنیا سے جانے کے بعد میری ماما ایک برس بھی جی نہیں پائیں۔ وہ سمجھ ہی نہیں پائیں کہ ساری دنیا سے زیادہ ان سے محبت کرنے والا، ہر مشکل میں ان کی ڈھال بن جانے والا اور ان کی ایک مسکراہٹ کے صدقے ہونے والا شخص انہیں کیسے چھوڑ گیا۔ اسی بے یقینی میں وہ بھی رخصت ہو گئیں۔ میں سوچتی ہوں پاپا نے بھی یہ ایک سال ماما کے بغیر نہ جانے کیسے گزارا ہوگا تب ہی تو انہیں فوراً بلوا لیا۔۔۔

مزید پڑھیں: معروف شاعر امجد اسلام امجد مرحوم کی اہلیہ بیگم فردوس امجد چل بسیں

پاپا نے پوری زندگی کسی کو تکلیف نہیں دی۔ انہیں عادت ہی نہیں تھی کہ کوئی ان کے لیے بھی کچھ کرے۔ وہی سب کی فکر کیا کرتے تھے اسی لیے جاتے ہوئے بھی چپکے سے نیند میں چلے گئے۔

وہ صرف ہمارے والد ہی نہیں تھے بلکہ ایک ایسی  روشنی تھے جو اب بھی دل کے نہاں خانوں میں جلتی رہتی ہے اور ایک پل کے لیے بھی جدا نہیں ہوتی۔

(امجد اسلام امجد کی صاحبزادی روشین عاقب کی خصوصی تحریر جس کو ایکسپریس نے چھاپا)

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ویب ڈیسک

وی نیوز کا آفیشل ویب ڈیسک اکاؤنٹ

امجد اسلام امجد بیگم فردوس روشین عاقب

متعلقہ مضامین

  • بھارتی میڈیا کو بھارتی سرکار نے ہی جھوٹا قرار دے دیا
  • خان صاحب بات چیت کے لیے تیار ہیں؛ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر
  • سفید پائوں والی لومڑی نقصان دہ حشرات الارض اور ضرررساں جانوروں کو کھاکر فصلات کو نقصان سے محفوظ رکھتی ہے،سیکرٹری جنگلات
  • واہ کیا بات ہے!
  • کامریڈ رانا عبدالرحمان صاحب
  • کوچۂ سخن
  • آج 4 اگست ہے۔ پاپا کی سالگرہ کا دن۔۔۔
  • گورنر صاحب کی باتیں کروڑوں کی، لیکن دکان پکوڑوں کی بھی نہیں: سعدیہ جاوید
  • آسٹریلیا میں سیزن کی پہلی برفباری، ہر منظر کو سفید چادر میں لپیٹ دیا
  • چھپی ہوئی نسل پرستی