اِک واری فیر WhatsAppFacebookTwitter 0 19 October, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
تاریخ جب اپنے آپ کو دہراتی ہے تو ایک دردناک تسلسل کے ساتھ دہراتی ہے۔ حال ہی میں شرم الشیخ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ بظاہر ایک سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، مگر یہ معاہدہ سوالات زیادہ پیدا کرتا ہے اور جوابات کم دیتا ہے۔ دنیا کے کئی رہنماؤں، بشمول امریکی صدر کی شرکت نے اس اجلاس کو بظاہر ایک عالمی وقار عطا کیا، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی غیر موجودگی نے اس تقریب کے اصل مقصد یعنی اتحاد کے مظاہرے پر گہرا سایہ ڈال دیا۔ بین الاقوامی سفارت کاری میں اشارے اکثر الفاظ سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں، اور ایسی میز پر خالی کرسی ہزار دستخطوں سے زیادہ بولتی ہے۔
اس معاہدے کے اثرات کو سمجھنے کے لیے ماضی کے دریچوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ تاریخ میں بے شمار امن معاہدوں سے مزین ہے—کیمپ ڈیوڈ، اوسلو، وائے ریور، انیپولس—جن سب میں امید کی زبان استعمال کی گئی مگر انجام ہمیشہ بداعتمادی، تشدد اور سیاسی مفادات کے طوفان میں ہوا۔ ہر معاہدہ تالیوں اور توقعات کے شور میں شروع ہوا، مگر جلد ہی خون اور مایوسی میں ڈوب گیا۔ اس لحاظ سے شرم الشیخ کا امن معاہدہ کوئی نیا باب نہیں، بلکہ ٹوٹی ہوئی وعدوں کی ایک طویل نظم کا ایک اور بند ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ ایسے معاہدوں کی حیثیت آخر کیا ہے؟ امن معاہدہ صرف دستخطوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اعتماد کا عہد ہوتا ہے۔ اگر اس میں خلوص، احترام اور نیت کی پختگی شامل نہ ہو تو وہ کاغذ اور سیاہی سے زیادہ کچھ نہیں رہتا۔ جب تک کسی معاہدے کے نفاذ کے لیے واضح ضمانتیں اور مؤثر نظام موجود نہ ہو، دشمنی کے بوجھ تلے دبے فریقوں کے درمیان امن کی کوئی ضمانت ممکن نہیں ہوتی۔ اگر کوئی فریق خلاف ورزی کرے تو جواب دہ کون ہوگا؟ بین الاقوامی برادری اجلاس بلائے گی، بیانات جاری کرے گی، مگر دنیا جانتی ہے کہ قراردادیں کسی قوم کی خواہش یا خوف کو قابو میں نہیں رکھ سکتیں۔
طاقتور ممالک کی موجودگی یقیناً معاہدے کو سفارتی جواز بخشتی ہے، مگر اخلاقی جواز صرف انصاف اور سچائی سے حاصل ہوتا ہے۔ کوئی بھی معاہدہ پائیدار نہیں ہو سکتا اگر ایک فریق ظلم، جبر یا اشتعال انگیزی جاری رکھے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان طاقت کا عدم توازن ہمیشہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ طاقتور فریق مذاکرات کو اپنی مرضی سے موڑتا ہے، جبکہ کمزور فریق ضرورت کے تحت بات چیت کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں امن شراکت نہیں بلکہ رعایت بن جاتا ہے۔ جب تک نیتوں میں برابری اور دکھوں کی باہمی پہچان نہ ہو، امن محض ایک سراب رہتا ہے۔
نیتن یاہو کی غیر حاضری کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا یہ سیاسی حکمتِ عملی تھی تاکہ اندرونی مخالفت سے بچا جا سکے، یا یہ اسرائیل کی اس ہچکچاہٹ کی علامت ہے جو ہمیشہ حقیقی مصالحت کے راستے میں حائل رہی ہے؟ اصل امن صرف دستخط کرنے سے نہیں بلکہ طاقت کے کچھ اختیارات ترک کرنے سے، قبضے کے ڈھانچے کو توڑنے سے، اور انسانیت کا ہاتھ بڑھانے سے حاصل ہوتا ہے، چاہے بیاعتمادی باقی کیوں نہ ہو۔
تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ انصاف کے بغیر امن محض وقفہ ہوتا ہے، انجام نہیں۔ فلسطینی مسئلہ صرف سرحدوں کا نہیں، بلکہ وقار، ریاستی حیثیت اور بقا کا مسئلہ ہے۔ کوئی بھی معاہدہ جو ان بنیادی نکات کو نظر انداز کرے، دراصل ایک ایسی جنگ بندی ہے جس کی مدت پہلے ہی طے شدہ ہے۔ اسی طرح اگر ایک فریق کو مکمل آزادی حاصل رہے اور دوسرا پابندیوں میں جکڑا رہے تو ایسا امن زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ ماضی کا سبق واضح ہے؛ جب امن مسلط کیا جاتا ہے، پروان نہیں چڑھتا، تو وہ اندر سے بگڑ جاتا ہے۔
فلسفیانہ اعتبار سے امن کوئی واقعہ نہیں بلکہ تبدیلی کا ایک عمل ہے۔ یہ محض سیاسی دستخط نہیں بلکہ اخلاقی بیداری کا تقاضا کرتا ہے۔ قوموں کو فتح و شکست کے تصور سے اوپر اٹھ کر بقائے باہمی کو اپنانا ہوگا۔ اگر شرم الشیخ کا امن معاہدہ واقعی کوئی معنی رکھتا ہے تو وہ تب ہی ممکن ہے جب وہ دلوں کو بھی بدلے، صرف پالیسیوں کو نہیں۔ غزہ اور تل ابیب کے بچے اپنے والدین کی تلخی نہیں بلکہ دوستی کی امید وراثت میں پائیں۔ مگر ایسی تبدیلی کسی قانون سے نہیں لائی جا سکتی؛ یہ عدل، ہمدردی اور ماضی کی غلطیوں کے اعتراف سے پروان چڑھتی ہے۔
علمی لحاظ سے اسے غیر متوازن مذاکرات اور نفاذ کے نظریے کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ جب کوئی مضبوط ضمانتی فریق یا قابلِ عمل ثالثی نظام موجود نہ ہو، تو معاہدوں کی پابندی کی تحریک وقت کے ساتھ کمزور ہو جاتی ہے۔ اگر معاہدہ دانتوں سے خالی ہے تو خلاف ورزی پر کاٹ نہیں سکتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب اسرائیل آبادیاں بڑھاتا ہے یا فوجی کارروائیاں کرتا ہے، تو عالمی طاقتیں محض”گہری تشویش”کا اظہار کرتی ہیں۔ اسی طرح جب فلسطین کے اندر انتہا پسند عناصر جوابی کارروائی کرتے ہیں تو وہ بھی اسی امن کو نقصان پہنچاتے ہیں جس کی ان کے عوام آرزو رکھتے ہیں۔ یوں ناکامی صرف سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہے۔ دنیا کی خاموشی، چنیدہ غصہ اور وقتی توجہ سب نے مل کر جوابدہی کے تصور کو کمزور کیا ہے۔
اخلاقی لحاظ سے امن دونوں طرف سے قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسرائیل کو اپنی حفاظتی دیواروں سے آگے دیکھنا ہوگا، اور فلسطین کو مایوسی سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ دنیا کو بھی انصاف کو صرف تقریروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ثابت کرنا ہوگا۔ اگر بین الاقوامی برادری واقعی امن کی ضامن بننا چاہتی ہے تو اسے خلاف ورزیوں پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ضمانتیں الفاظ میں نہیں، حقیقت میں نظر آنی چاہئیں۔
اور یوں جب ایک اور معاہدے پر سیاہی خشک ہو چکی ہے، دنیا ایک بار پھر دیکھ رہی ہے—نصف امید میں، نصف شک میں۔ شرم الشیخ، جو کبھی سکون اور سفارت کا استعارہ تھا، شاید ایک بار پھر امید سے مایوسی کی طرف بڑھتے ہوئے منظر کا گواہ بنے۔ مگر شاید اسی تکرار میں بیداری کی ایک کرن پوشیدہ ہو—کہ امن دیا نہیں جا سکتا، اسے سچائی، انصاف اور انسانی حرمت کے احترام سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔
اگر اس معاہدے کے معماروں نے واقعی تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے، تو شاید اس بار امن قائم رہے—نہ اس لیے کہ اسے شان و شوکت سے دستخط کیا گیا، بلکہ اس لیے کہ اسے خلوصِ نیت سے نافذ کیا گیا۔ ورنہ یہ بھی ٹوٹے وعدوں کے انبار میں شامل ہو جائے گا، اور ایک بار پھر یاد دلائے گا کہ امن کی جستجو میں الفاظ تو بہت ہیں، مگر جرات بہت کم۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان ہماری ریڈ لائن ہے، اس کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے نہیں دیں گے، نواز شریف دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہے ننھی آوازیں، بڑے سوال: بچیوں کا دن، سماج کا امتحان موبائل ۔ علم کا دوست اور جدید دنیا یومِ یکجہتی و قربانی: 8 اکتوبر 2005 – ایک عظیم آزمائش اور عظیم اتحاد کی داستانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
ڈی جی آئی ایس پی آر کے خیالات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251201-03-2
یہ خطہ اپنے جغرافیے، تاریخ اور سیاسی حرکیات کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے حالات کبھی یک سمت نہیں رہے۔ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ چکا ہے اور اب بھی لڑ رہا ہے۔ ان حالات میں پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی جانب سے سینئر صحافیوں کو ملکی سلامتی کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونا ایک تلخ مگر کھلی حقیقت ہے، جسے نظر انداز کرنا قومی مفاد کے منافی ہوگا، مگر اس کے پیچھے وہ کچھ بھی ہے جس کا کہیں ذکر نہیں ہے گزشتہ برسوں میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ اب کم از کم پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کم ہوں گے، لیکن عملی صورت حال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ طالبان حکومت کا یہ مؤقف کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے عناصر ان کے ’’مہمان‘‘ ہیں اور ہجرت کرکے افغانستان آئے ہیں، کسی منطق یا اصول کے تحت درست نہیں ٹھیرتا۔ اس میں کوئی دو بات نہیں کہ مہمان وہ ہوتے ہیں جو میزبان ملک کے قوانین کا احترام کریں، اس کے امن کو خطرے میں نہ ڈالیں اور ہتھیار اٹھاکر ہمسایہ ملک میں داخل نہ ہوں۔ اگر یہ لوگ پاکستانی ہیں تو پاکستان کا حق ہے کہ انہیں قانون کے مطابق اس کے حوالے کیا جائے تاکہ عوام کے خون سے کھیلنے والے عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ لیکن پاکستان کی طرف سے بھی جس قسم کی زبان استعمال کی جارہی ہے وہ ایسا لگتا ہے کوئی ایک خاص حکمت عملی کے تحت افغان قیادت کو پاکستان سے متفر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سینئر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ امریکا اور ناٹو افواج نے افغانستان سے انخلا کے وقت جو اسلحہ وہاں چھوڑا، وہ آج دہشت گرد گروہوں کے پاس ہے۔ 7 ارب 20 کروڑ ڈالر کا یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہو رہا ہے۔ اس اسلحے کے ذریعے پاکستان کے عوام اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ محض کسی ایک تنظیم یا چند عناصر تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم نیٹ ورک ہے جو افغانستان کی سرزمین سے کام کرتا ہے۔ ڈی جی کے مطابق یہاں یہ بات قابل ِ غور ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر مینجمنٹ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح مشترکہ ذمے داری ہونی چاہیے، لیکن موجودہ حالات میں طالبان حکومت اس ذمے داری سے پہلو تہی کرتی نظر آتی ہے۔ نہ صرف بارڈر پر مؤثر نگرانی کی کمی ہے بلکہ دہشت گرد عناصر کو کسی نہ کسی درجے کی سہولت کاری بھی میسر آتی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان نے متعدد بار افغان حکام کو دہشت گردوں کے مراکز، ان کی قیادت، مالیاتی ذرائع اور حملوں کے شواہد پیش کیے، جو نہ صرف اقوامِ متحدہ بلکہ عالمی ثالثی اداروں کے علم میں بھی لائے گئے۔ پاکستان نے یہ بھی کہا کہ اگر ایک قابل ِ تصدیق میکانزم تشکیل پاتا ہے اور اس میں کسی تیسرے فریق کی شمولیت ضروری ہو تو پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں، کیونکہ مقصد صرف ایک ہے اور وہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔
اس سارے منظر نامے میں اور ڈی آئی ایس پی آر کی بریفنگ میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف نہیں لڑنا چاہیے۔ مسلمانوں کو باہمی دشمنی میں مبتلا کرنا سامراجی طاقتوں کا پرانا طریقہ ہے۔ خطے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے اندرونی اختلافات کو ہوا دی، بیرونی قوتوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ پاکستان اور افغانستان دو مسلمان، ہمسایہ اور تاریخی رشتوں میں جڑے ہوئے ممالک ہیں۔ ان کے درمیان بداعتمادی بڑھانا، انہیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا، یا غلط فہمیاں پیدا کرنا بیرونی قوتوں کا مفاد ہے اور وہ اس کام میں برسوں سے لگے ہوے ہیں، اسی تناظر میں بھارت کا کردار بھی سامنے آتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بجا طور پر کہا کہ بھارت کبھی مسلمانوں کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ یہی بات افغان طالبان کے علم میں ہونا ضروری ہے کہ بھارت نہ تو افغانستان کے عوام کا دوست ہے اور نہ ہی پاکستان کے لیے کسی مثبت کردار کا خواہاں ہے۔ بھارت کا مقصد ہمیشہ خطے میں انتشار کو بڑھانا اور پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنا رہا ہے۔ اس کے لیے کبھی پروپیگنڈا، کبھی دہشت گرد عناصر کی مالی معاونت اور کبھی سفارتی محاذ پر پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افغان طالبان اگر سمجھتے ہیں کہ بھارت ان کا سچا ساتھی ہے، تو یہ ان کی تاریخ فہمی کی غلطی ہے۔ بھارت کبھی نہ افغانستان کے مزاحمتی گروہوں کا دوست رہا ہے، نہ آج ہو سکتا ہے، اور نہ مستقبل میں ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ بھارت کی خود فریبی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارتی آرمی چیف کی جانب سے بعض آپریشنز کو ’’ٹریلر‘‘ قرار دینا حقیقت سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ یہ ٹھیک کہ پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ ہماری آزادی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ ہم نے قربانیاں اس لیے نہیں دیں کہ کوئی دہشت گرد گروہ، کوئی بیرونی طاقت یا کوئی منفی نیٹ ورک ہمارے اندر انتشار پھیلائے۔ لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کا نقصان زیادہ پاکستان کو ہی ہوگا جذبات کی باتیں اپنی جگہ لیکن ایک مکار دشمن کے ساتھ دوسرا دشمن پیدا کرنا کہیں کی عقل مندی نہیں ہے، پاکستان اور افغانستان دونوں کے عوام امن چاہتے ہیں، ترقی چاہتے ہیں، خوشحالی چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل طے کریں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی ترک کریں، غلط فہمیوں کو کم کریں اور اس خطے کو مزید کسی پراکسی جنگ کا میدان نہ بننے دیں۔ یہ وقت اس بات کا ہے کہ ہمسایہ ممالک حقائق کا سامنا کریں۔ امن صرف خواہش سے نہیں بلکہ عملی اقدامات، اعتماد سازی اور مشترکہ کوششوں سے قائم ہوتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کے لیے خیر خواہی کا کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی کرے گا، لیکن کسی بھی صورت دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ خطہ اس وقت نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ فیصلہ اب ہم سب نے مل کر کرنا ہے کہ ہمیں انتشار کی طرف جانا ہے یا امن و استحکام کی طرف۔ اس وقت امن، استحکام، باہمی احترام اور مشترکہ ذمے داری۔ یہی راستہ خطے کے مستقبل کی ضمانت ہے۔