طلاق یافتہ مسلم خاتون جہیز واپس لے سکتی ہے،انڈین عدالت عظمیٰ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی: بھارتی عدالت عظمیٰ نے کہا کہ مسلم خاتون طلاق پر تحفظ حقوق ایکٹ 1986 کے تحت طلاق یافتہ مسلم خواتین شادی کے وقت اپنے شوہر کو دی گئی نقدی، سونے کے زیورات اور دیگر اشیائ(جہیز) واپس لینے کی حقدار ہے۔
جسٹس سنجے کرول اور این کوٹیشور سنگھ پر مشتمل بنچ نے کہا کہ سنہ 1986 کے ایکٹ کا دائرہ کار اور مقصد ایک مسلم خاتون کی طلاق کے بعد اس کے وقار اور مالی تحفظ کو یقینی بنانے سے متعلق ہے۔ خواتین کو یہ حق آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت دیا گیا ہے۔
بنچ نے دو دسمبر کو سنائے گئے فیصلے میں کہا کہ “اس لیے اس ایکٹ میں مساوات، وقار اور خود مختاری کو سب سے آگے رکھنا چاہیے اور اسے خواتین کے زندہ تجربات کی روشنی میں کیا طے جانا چاہیے، جہاں خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں موروثی پدرانہ امتیازی سلوک اب بھی روز کا معمول ہے۔”
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں واضح کیا گیا کہ ایک مسلم خاتون جسے طلاق دے دی گئی ہے، شادی کے وقت اپنے والدین کی طرف سے اپنے شوہر کو دی گئی چیزوں کی وصولی کی حقدار ہے۔
بنچ نے کہا کہ 1986 کے ایکٹ کی دفعہ 3(1) مہر، جہیز اور دوسری جائیدادوں سے متعلق ہے جو کسی عورت کو اس کی شادی کے وقت دی جاتی ہے، اس ایکٹ سے عورت کو اپنے شوہر کے خلاف دعویٰ کرنے یا شوہر کی دی گئی جائیدادوں سے واپسی کا دعویٰ کرنے کا راستہ صاف ہوتا ہے۔
بنچ نے مزید کہا کہ “بھارت کا آئین سب کے لیے برابری کا تعین کرتا ہے جو کہ واضح ہے مگر یہ مقصد ابھی تک حاصل کرنا باقی ہے۔
عدالتوں کو اس مقصد کے لیے کام کرتے ہوئے اپنے استدلال کو سماجی انصاف کے حق میں رکھنا چاہیے۔
قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ایک مسلم خاتون کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس کے سابق شوہر کو ہدایت دی کہ وہ اس کے بینک اکاو ¿نٹ میں 17,67,980 روپے مہر، جہیز میں ملے 30 تولے سونے کے زیورات اور دیگر تحائف بشمول گھریلو اشیاءمثلاً فریج، ٹیلی ویژن وغیرہ کی رقم اسے واپس کرے۔
عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی کہ تعمیل کے حلف نامہ کے ساتھ چھ ہفتوں کے اندر ادائیگی کی جائے۔ بنچ نے واضح کیا کہ اگر بروقت ادائیگی نہ کی گئی تو شوہر 9 فیصد سالانہ سود ادا کرنے کا ذمہ دار ہو گا۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں کلکتہ ہائی کورٹ کے 2022 کے فیصلے کو رد کر دیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عدالت عظمی مسلم خاتون کہا کہ
پڑھیں:
جہیز سے انکار، دلہا نے ایک کروڑ کا جہیز ٹھکرا کر مثال قائم کردی
بھارت کے اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں ایک نوجوان دلہے کے غیر معمولی فیصلے نے سوشل میڈیا پر بھرپور داد سمیٹ لی ہے۔
شادی کی تقریب کے دوران دلہے نے دلہن کے اہل خانہ کی جانب سے دیا جانے والا 31 لاکھ بھارتی روپے (تقریباً ایک کروڑ پاکستانی روپے) کا جہیز لینے سے صاف انکار کرتے ہوئے محض ایک روپیہ قبول کیا، جسے صارفین جہیز کے خلاف ایک مضبوط اور باوقار پیغام قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق اودھیش رانا کی شادی 22 نومبر کو شہاب الدین پور گاؤں کی رہائشی ادیتی سنگھ سے مقامی بینکوئٹ ہال میں انجام پائی۔ تلک کی رسم کے دوران دلہن کے اہل خانہ نے روایتی طور پر 31 لاکھ بھارتی روپے بطور جہیز پیش کیے، تاہم اودھیش نے سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر یہ رقم لینے سے انکار کردیا اور جہیز کے خلاف اپنا دو ٹوک مؤقف ظاہر کیا۔
View this post on Instagramاودھیش رانا نے بتایا کہ وہ ناگوا کے رہنے والے ہیں اور ان کا خاندان ہمیشہ سے جہیز کے رواج کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہمیں 31 لاکھ روپے دیے جا رہے تھے لیکن ہم نے وہ رقم واپس کردی۔ ہمارا ماننا ہے کہ جہیز کا نظام غلط ہے اور اسے مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے۔‘‘
دلہے کا یہ بھی کہنا تھا کہ شادی جیسا پاکیزہ رشتہ کسی مالی بوجھ پر قائم نہیں ہونا چاہیے، اور نہ ہی کسی باپ کو اپنی بیٹی کی شادی کے لیے قرض لینے پر مجبور ہونا چاہیے۔ اودھیش نے مزید کہا کہ چونکہ ان کا رشتہ محض ایک روپے کی رسم پر قائم ہوا، اس سے زیادہ لینا وہ اخلاقی طور پر درست نہیں سمجھتے۔
https://www.reddit.com/r/CriticalThinkingIndia/comments/1p8k47j/up_groom_returns_31_lakh_dowry_says_he_cant_take/?seeker-session=trueاودھیش کے اس عمل نے تقریب میں موجود افراد سمیت سوشل میڈیا صارفین کو بھی بے حد متاثر کیا، اور اسے معاشرتی اصلاح کے لیے ایک جرأت مندانہ قدم قرار دیا جا رہا ہے۔