عروہ حنین آکسفورڈ یونین کی پہلی فلسطینی صدر منتخب
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
فلسفہ، سیاست اور معاشیات کی طالبہ عروہ حنین الرئیس کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبہ کے زیر انتظام آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب کرلیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی افواج کے ہاتھوں ماری جانے والی 10 سالہ راشا کی وصیت پر من و عن عمل کیوں نہ ہوسکا؟
عروہ ٹرِنٹی ٹرم 2026 (اپریل سے جون) کے دوران اس عہدے پر فائز رہیں گی۔ یہ سنہ 1823 میں قائم ہونے والی آکسفورڈ یونین کی 202 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی فلسطینی طالبہ نے یہ اعزاز حاصل کیا ہو۔
ان کے والد، محمد الرییس نے اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ان کی بیٹی پہلی عرب خاتون، فلسطینی اور الجزائری ہیں جو اس عہدے پر منتخب ہوئی ہیں۔
انتخابی مقابلہ اور ووٹوں کی تفصیلاتانتخابی مقابلہ سخت تھا اور عروہ نے 757 ووٹ حاصل کیے جو رنراپ لیزا بارکوا سے 155 ووٹ زیادہ تھے۔
آکسفورڈ یونین کی اہمیتآکسفورڈ یونین دنیا کی معروف طلبہ زیر انتظام مباحثہ سوسائٹیز میں سے ایک ہے۔ یہ عالمی اہمیت کے معاملات پر اعلیٰ سطح کے مباحثے کے انعقاد کے لیے مشہور ہے جیسے حال ہی میں بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر مباحثے میں بھارتی وفد کے اچانک انخلا کے بعد پاکستانی ٹیم کی جیت۔
صدر کے منشور اور ترجیحاتعروہ نے صدر بننے کے لیے اس پلیٹ فارم پر انتخاب لڑا کہ یونین کی اندرونی سیاست کو مباحثوں سے الگ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ ٹرم میں گورننس کے مسائل یونین کے اصل مباحثوں پر حاوی ہو گئے ہیں۔
انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ یونین ایک نہایت خاص جگہ ہے جو مشکل وقت سے گزر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں شفاف گورننس، مالی ذمے داری اور آزادی اظہار کے آخری قلعے کے طور پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے ایک نیا آغاز کرنا ہوگا۔
عروہ کی حریف بارکوا نے کہا کہ یونین کو خصوصاً مباحثوں سے اسپیکرز کے اچانک انخلا کے مسائل کے پیش نظر اپنی ساکھ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
سماجی و سیاسی سرگرمیاںعروہ نے یونین کے کام کے علاوہ ڈاکومنٹری ’ہارٹ آف اے پروٹیسٹ‘ میں بھی حصہ لیا تھا جو برطانیہ میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کی اندرونی جھلک پیش کرتی ہے۔
یونین میں داخلی سیاست کی کشیدگی، پاکستانی صدر کے ساتھ مسائلآکسفورڈ یونین میں داخلی سیاست بھی کشیدہ رہی ہے جہاں سابق صدور جارج آباراونیے اور موسیٰ حراج کو عدم اعتماد کے ووٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
موسیٰ حراج، جو پاکستانی ہیں، سنہ 2024 میں منتخب ہونے والے اسرار خان کے بعد ایک سال کے اندر دوسرے پاکستانی طالب علم صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
پاکستانی نمائندگی برقرارپاکستان کی نمائندگی یونین کے اعلیٰ عہدوں میں جاری ہے جس میں ایچیسن کالج کے فارغ التحصیل شاہمیر عزیز سیکریٹری کمیٹی کے رکن ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آکسفورڈ یونین کی پہلی فلسطینی صدر عروہ آکسفورڈ یونین کی پہلی فلسطینی صدر عروہ حنین الرئیس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: عروہ حنین الرئیس ا کسفورڈ یونین کی آکسفورڈ یونین کے لیے
پڑھیں:
غزہ صرف فلسطینیوں کا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251201-03-4
میر بابر مشتاق
اس دنیا میں کچھ حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں جغرافیہ بدل سکتا ہے نہ تاریخ مٹا سکتی ہے۔ ظلم کی تیز ہوائیں جب بھی چلیں، کچھ آوازیں ایسی ضرور اٹھتی ہیں جو اعلان کرتی ہیں کہ حق کبھی مر نہیں سکتا۔ غزہ انہی ابدی سچائیوں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسی سرزمین جس کا وجود، اس کی شناخت اور اس کی حاکمیت صرف اور صرف فلسطینی عوام کی ہے۔ سلامتی کونسل میں امریکا کی جانب سے پیش کی گئی غزہ امن قرارداد بظاہر امن کے نام پر پیش کی گئی ایک سفارتی چادر ہے، مگر چین اور روس نے اس چادر کا وہ کونا اٹھایا ہے جس کے نیچے طاقت کی سیاست، اسٹرٹیجک مفادات اور ’’امن‘‘ کے نام پر مسلط کیا جانے والا نیا عالمی نظام چھپا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک نے دوٹوک انداز میں کہا: ’’غزہ صرف فلسطینیوں کا ہے، کسی بیرونی قوت کا نہیں‘‘۔ امریکا نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایک ایسی قرارداد پیش کی جس میں ’’انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس‘‘ کو غزہ میں تعینات کرنے کی تجویز دی گئی۔ بظاہر یہ فورس امن، نظم و نسق اور تعمیر نو میں مدد دے گی، لیکن اس کے خدوخال، ساخت، اختیارات، مدت، نگرانی اور فلسطینی عوام کی منظوری کے بارے میں قرارداد میں ایک بھی واضح شق موجود نہیں۔ یہی وہ خامی ہے جس نے چین اور روس کو ہشیار کر دیا۔ چینی نمائندے فو کونگ نے واضح کہا: قرارداد فلسطینی حکمرانی کے اصولوں کی عکاسی نہیں کرتی۔ امریکی منصوبہ فلسطینی عوام کی مرضی کے بغیر بنایا گیا۔ اسٹیبلائزیشن فورس حقیقتاً کس کے کنٹرول میں ہو گی؟ امریکا نے کوئی وضاحت نہیں دی۔ ’’بورڈ آف پیس‘‘ کا ڈھانچہ، اختیارات اور فیصلہ سازی کا طریقہ کار مکمل طور پر مبہم ہے۔
یہ اعتراضات معمولی نہیں۔ یہ دراصل اس بڑے خدشے کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکا غزہ کے مستقبل کو ان طاقتوں کے ہاتھ دینا چاہتا ہے جو پہلے ہی خطے میں فلسطینی عوام کی مرضی کے بغیر مداخلت کرتی رہی ہیں۔ دونوں ممالک کی مشترکہ تشویش کا نچوڑ صرف اتنا نہیں کہ قرارداد غیر شفاف ہے بلکہ یہ بھی کہ کہیں غزہ کو ’’بین الاقوامی نگرانی‘‘ کے نام پر نئے سیاسی قبضے کے لیے تیار تو نہیں کیا جا رہا۔
چین کا مؤقف واضح ہے کہ کوئی بھی امن منصوبہ تب تک قابل ِ قبول نہیں جب تک: 1۔ فلسطینی عوام اس کے حقیقی شریک نہ ہوں۔ 2۔ فلسطینی سیاسی قیادت کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ 3۔ کسی بیرونی فورس کو طاقت کا مکمل اختیار نہ دیا جائے۔ روس بھی اسی زاویے سے دیکھ رہا ہے۔ ماسکو کا مؤقف ہے کہ امریکا ایک ایسا ڈھانچہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس کے ذریعے فلسطینی مزاحمت، مقامی قیادت اور سیاسی نظام کو غیر مؤثر بنا کر غزہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا جائے۔ یہ اعتراضات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی طاقتیں جانتی ہیں کہ امریکا کی ’’امن قرارداد‘‘ دراصل فلسطینیوں کی خودمختاری کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔
سلامتی کونسل کی ووٹنگ؛ حمایت زیادہ، اعتماد کم: قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے۔ بظاہر یہ ایک بڑی کامیابی تھی، لیکن مخالفت نہ ہونے کے باوجود چین اور روس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ یہ اس بات کا واضح اعلان ہے کہ: قرارداد پر مکمل اعتماد نہیں۔ اس میں بڑے سیاسی تضادات موجود ہیں۔ فلسطینی عوام کی نمائندگی غائب ہے۔ منصوبہ یک طرفہ ہے اور امریکی اثرات سے بھرپور ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکا نے فلسطینیوں کے مستقبل کا کوئی منصوبہ ان سے پوچھے بغیر بنایا ہو۔ دنیا بھر کے تجزیہ کار ایک بات پر متفق ہیں کہ غزہ کا مسئلہ فوجی یا سفارتی قوتوں کی مدد سے نہیں بلکہ فلسطینی عوام کی مرضی اور فیصلہ سازی کے ذریعے حل ہوگا۔
غزہ صرف فلسطینیوں کا اس لیے نہیں کہ وہ وہاں رہتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ: غزہ کی سرزمین ان کے تاریخی، مذہبی اور سیاسی وجود کا حصہ ہے۔ انہوں نے اس زمین پر قربانیوں کی ایک نسل پیش کی ہے۔ یہ سرزمین مزاحمت، وقار اور آزادی کی علامت ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت فلسطینی عوام کی شناخت، جدوجہد یا حاکمیت کو محو نہیں کر سکتی۔ امریکی قرارداد ان بنیادی سچائیوں سے چشم پوشی کرتی ہے، جس کے نتیجے میں چین اور روس نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔امریکی منصوبہ فلسطینی قیادت کو بائی پاس کرنے کی کوشش۔
قابل ِ غور بات یہ ہے کہ قرارداد میں کہیں بھی: حماس، اسلامی جہاد، منتخب فلسطینی پارلیمان، غزہ کے مقامی انتظامی نظام، فلسطینی اتھارٹی کی محدود حیثیت۔ ان سب کے سیاسی کردار کو کوئی واضح مقام نہیں دیا گیا۔ یعنی امریکا ایسا منصوبہ چاہتا ہے جس میں فلسطینی قیادت کو دیوار سے لگا کر ایک بیرونی ڈھانچہ غزہ پر حکمرانی کرے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو چین و روس کو منظور نہیں۔ چین کے سفیر نے خاص طور پر کہا: ’’اگر کسی فلسطینی زمین پر امن لانا ہے تو اس کی بنیاد فلسطینی عوام کی قیادت اور ان کی سیاسی مرضی پر ہوگی، نہ کہ بیرونی طاقتوں کی ترجیحات پر‘‘۔ امریکا کے پیش کردہ اس منصوبے کے پیچھے ایک اور حقیقت پوشیدہ ہے۔ واشنگٹن کبھی نہیں چاہتا کہ غزہ ایک مکمل آزاد، بااختیار اور سیاسی طور پر متحد خطہ بنے۔ اگر ایسا ہوا تو اسرائیل کے لیے اس کی جارحیت جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ فلسطینی مزاحمت بین الاقوامی سطح پر مضبوط ہو جائے گی۔ عرب دنیا میں اسرائیل مخالف بیانیہ دوبارہ طاقت پکڑ لے گا۔ خطے میں امریکی مفادات کمزور ہو جائیں گے، اسی لیے امریکا ’’امن‘‘ کے نام پر وہ ڈھانچہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جو غزہ کو سیاسی طور پر کمزور، فوجی طور پر غیر مؤثر اور سفارتی طور پر بیرونی طاقتوں کا محتاج بنا دے۔
چین اور روس کا مؤقف صرف فلسطین کی حمایت نہیں، بلکہ عالمی نظام میں جاری ایک بڑی تبدیلی کا حصہ ہے۔ آج دنیا ایک نئے سفارتی دوراہے پر کھڑی ہے: امریکا کا یک طرفہ ورلڈ آرڈر کمزور ہو رہا ہے۔ چین ایک متبادل اخلاقی و سیاسی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ روس مغربی بالادستی کے خلاف ایک نئی مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ عالمی جنوب (Global South) امریکا کے بیانیے سے دور ہو رہا ہے۔ غزہ کا معاملہ اس بڑی تبدیلی کی ایک نمایاں مثال ہے۔ چین اور روس نے صاف کہہ دیا کہ عالمی فیصلے اب واشنگٹن کے اشاروں پر نہیں ہوں گے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ غزہ کے لوگ نہ غلام ہیں نہ بے اختیار۔ وہ اپنی زمین کے اصل مالک ہیں، اور ان کا حق ہے کہ: وہ اپنی قیادت خود منتخب کریں۔ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت خود کریں۔ اور اپنی سیاسی حکمرانی آزادانہ قائم کریں۔ کوئی قرارداد، کوئی بیرونی فورس، کوئی طاقت کا کھیل فلسطینیوں کے اس بنیادی حق کو چھین نہیں سکتا۔ سلامتی کونسل میں چین اور روس کا مؤقف عالمی طاقتوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ غزہ کے مستقبل کے فیصلے: واشنگٹن، نیویارک، تل ابیب یا کسی عالمی بورڈکے کمروں میں نہیں ہوں گے۔ یہ فیصلے غزہ کے شہیدوں کی قبروں، مزاحمت کے مورچوں اور فلسطینی عوام کے دلوں سے نکلیں گے۔ غزہ کے لوگ اب بھی کھڑے ہیں، ملبے کے درمیان بھی ثابت قدم۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے کوئی قرارداد بدل نہیں سکتی۔ غزہ صرف فلسطینیوں کا تھا، ہے، اور رہے گا۔