Juraat:
2025-12-02@05:58:17 GMT

مسٹر ٹیفلون۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT

مسٹر ٹیفلون۔۔۔

بے لگام / ستار چوہدری

اسّی کی دہائی کا وہ سورج جیسے رونالڈ ریگن کے کندھوں پربیٹھا ہوا تھا، جب وہ وائٹ ہاؤس کے لان میں کھڑے ہو کر مسکراتے تو لگتا کہ امریکہ خود مسکرا رہا ہے ، معیشت ڈگمگا رہی تھی، ایران کونٹراجیسے گہرے سیاہ دھبے ابھررہے تھے ، کانگریس چیخ رہی تھی، میڈیا روز نئے الزامات کی بوچھاڑ کررہا تھا، مگروہ الزامات ریگن کے کوٹ پر لگتے ہی پگھل کر گر جاتے ۔ نہ دھبہ، نہ سلوٹ، نہ کوئی نشان۔صحافیوں نے پہلے حیرت سے ، پھر حسرت سے لکھا کہ یہ آدمی کسی عجیب کیمیاسے بنا ہے ۔ تنقید اس پراترتی تو تھی، مگر ٹھہرتی نہیں تھی، جیسے کوئی گرم tefalپین پر پانی کی بوندیں ڈالتے جاؤ، چھناک سے آواز کے ساتھ اچھلتی ہیں اور غائب ،بھاپ بن کر اڑ جاتی ہیں ،ایک دن نیویارک ٹائمز کی ایک کالم نگار، پیگی نونن نے لکھا”۔۔ He is the Teflon President۔۔” بس یہی جملہ پکڑ لیا گیا۔ریگن کچھ دنوں میں ”۔۔۔ Teflon-coated Ronnie۔۔۔”پورے ملک کی زبان پرچڑھ گیا،ریگن خود اس پر ہنستے ، کندھے اچکاتے اورکہتے
”۔۔ know what that stuff is, but it sure works t’I don۔۔”مگراصل جادو Tefal کی کوٹنگ میں نہیں، ان کی سادگی میں تھا۔ وہ جب کیمرے کے سامنے آتے تو لگتا کوئی بوڑھا ہالی ووڈ اداکار نہیں، کوئی پڑوسی چچا بول رہا ہے جو کل ہی گھاس کاٹ کر آیا ہو۔ جب وہ کہتے ”۔۔well۔۔” اور رکتے ، تو لاکھوں دل رکتے ۔ جب وہ مسکراتے توتنقید کرنے والے خود شرمندہ ہوجاتے ۔ ایران،کونٹراکی سماعتوں میں بھی جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کچھ یاد ہے ؟ تو انہوں نے سرجھکایا، معصوم سی مسکراہٹ دی اور بولے ”۔۔My heart tells me one thing, my memory tells me another۔۔”بس اتنا کافی تھا۔ قوم نے معاف کر دیا۔ کیونکہ وہ ”ہم میں سے ایک ” لگتے تھے ، اورہم میں سے کوئی بھی غلطی کرسکتا ہے ،یوں وہ پہلے اورآخری امریکی صدر بنے جن پرتاریخ کا سب سے زیادہ کیچڑ اچھالا گیا۔۔۔ان پرپہلا بم 1981میں ہی پھٹا، Bitburg Cemeteryتنازع ،ریگن نے مغربی جرمنی کے دورے پر نازی فوجیوں کی قبروں پر پھول چڑھانے کا فیصلہ کیا،یہودی تنظیموں نے چیخنا شروع کر دیا، دنیا بھر میں احتجاج ہوئے ، میڈیا نے کہا یہ نازیوں سے ہمدردی ہے ،ریگن نے بس اتنا کہا”۔۔ll still go I’۔۔۔” اور گئے ،دو ہفتے بعد قوم بھول گئی ۔1983 میں بیروت میں میرین بیریکس پربم دھماکہ ہوا، 241امریکی فوجی مارے گئے ۔ کانگریس اورمیڈیا نے پوچھا، انٹیلی جنس فیل کیوں ہوئی ؟ ریگن نے ٹی وی پرآکر آنسو بہائے ، کہا ”۔۔ We made a mistake۔۔ ” اوردودن بعدعوام نے معاف کردیا۔
1985-86 میں ایران۔۔کونٹرا اسکینڈل پھٹا۔ ثابت ہوا کہ ریگن انتظامیہ نے ایران کو خفیہ طور پرہتھیار بیچے ، پیسے نکال کر نکاراگوا کے باغیوں کو دیے ، یہ دونوں کام کانگریس کی منظوری کے بغیر ہوئے ،یہ صدارتی تاریخ کا سب سے بڑا آئینی جرم تھا۔ ریگن ٹی وی پر آئے اور کہا ۔۔۔ ” My heart tells me we didn’t trade arms for hostages, but the facts say otherwise۔۔۔” قوم نے سن کو کندھے اچکائے آور آگے بڑھ گئی۔ اسی دوران ای پی اے اسکینڈل، HUDفراڈ، ڈیفنس کنٹریکٹرز کی کرپشن، Savings & Loanبحران جس نے امریکی ٹیکس دہائی کے آخر تک اربوں ڈالرڈبو دیے ،ہرجگہ ریگن کے قریبی لوگ ملوث نکلے ،مگرریگن خود ہربار ” ۔۔ I was not aware۔۔” کہہ کر نکل جاتے ۔ پھر 1987میں بورس اسٹاک مارکیٹ کریش، Black Monday، ایک دن میں 22فیصد گراوٹ۔ سب نے کہا ریگن کی معاشی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ ریگن نے بس مسکرا کر کہا ”۔۔ Stay the cours۔۔” اوردوماہ بعد لوگ بھول گئے ۔ آخری برسوں میں الزائمر کی افواہیں چلیں، لوگ کہنے لگے صدرتو ذہنی طور پرفٹ نہیں،ریگن نے آخری پریس کانفرنس میں مذاق اڑایا”۔۔
m not going to exploit, for political purposes, my opponents’youth’ I۔۔”
and inexperience
سب ہنس پڑے اوربات ختم ۔۔۔یہ تمام کیچڑ، یہ تمام ثبوت، یہ تمام گواہیاں؛ سب اچھالے گئے ، سب ریگن پرگرے ، اورسب پگھل کر بہہ گئے ، کوئی دھبہ نہ لگا،اسی لیے وہ واقعی ”۔۔ Teflon President۔۔” تھے ، تاریخ کے وہ واحد امریکی صدر،جس پرگندگی پھینکی تو گئی، مگر لگی ہی نہیں، جب وہ عہدہ چھوڑ کرکیلیفورنیا واپس گئے توان کا کوٹ اتنا ہی چمک رہا تھا جتنا 1981میں واشنگٹن آتے وقت تھا۔ یہ نظام قدرت ہے ،اللہ تعالیٰ سب کچھ انسانوں کے حوالے نہیں کرتا،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا ،اے میرے رب !! کیا آپ بھی ہنستے ہیں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا !! اے موسیٰ ( علیہ السلام) میں دو بارہنستا ہوں،ایک باراس وقت،جب میں کسی کو کچھ دینا چاہتا ہوں، پوری دنیا مخالفت میں اتر آتی ہے تو میری ہنسی نکل جاتی ہے ،دوسری باراس وقت،جب میں کسی سے کچھ چھیننا چاہتا ہوں،پوری دنیا اس کی حمایت میں اتر آتی ہے ،تو میری ہنسی نکل جاتی ہے ۔9مئی کے بعد اداروں،حکومت اوران کے حواریوں،ہمدردوں،کارکنوں نے وہ کونسا الزام ہے جوعمران خان،ان کی اہلیہ،ان کی بہنوں کے خلاف نہیں لگایا ۔۔؟ لیکن کوئی فرق پڑا۔۔ ؟ یاجوج ماجوج کی طرح صبح اٹھتے ہیں”دیوار چاٹنے ” لگتے ہیں،شام کو سمجھتے ہیں دیوارختم کرلی،سوجاتے ہیں،پھراگلی صبح اٹھ کر دیکھتے ہیں،دیوار تو ویسے کی ویسے سلامت ہے ، پھر ”چاٹنا ” شروع کردیتے ہیں، تین سال سے یہی کام ”چاٹنے ” والا ہورہا ہے ، ” دیوارہویا بوٹ ” بے روزگاری،مہنگائی ،غربت تاریخی سطح پرپہنچ چکی،مینوفیکچرنگ صفرہوگئی،انڈسٹری بند ہورہی،ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک سے بھاگ رہیں،کسان رو رہے ،زراعت کا بھی بیڑاغرق کر دیا، ٹیکس پرٹیکس لگائے جارہے اور ساتھ دعویٰ کررہے ہیں،ملک ترقی کے راستے پر چل نکلا ہے ، وہ بڑے میاں صاحب،تین سال بعد بولنے کی اجازت ملی،پرچی دیکربٹھایا گیا،عمران سے شروع ،عمران پرختم،ضیاء الحق کو اس ” تحفے ” پرکبھی معافی نہیں مل سکتی، ”چنتخب ” حکمرانو!! ملک اور قوم کا کچھ سوچ لو،کپتان ”۔۔ Mr.

Teflon۔۔” ہیں۔۔ آپ ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتے ،آپ کے الزامات کا عوام پر کوئی اثرنہیں ہورہا،یہ آپ کے بس کی بات نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کی ان حرکتوں پرضرورہنستا ہوگا۔
٭٭٭

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اللہ تعالی ریگن نے

پڑھیں:

غزہ کی بابت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251201-03-5
(2)
مفتی منیب الرحمن
(8) اس قرارداد کے ذریعے مجلس ِ امن اور بین الاقوامی سول اور سلامتی کے اداروں کی بااختیار موجودگی 31 دسمبر 2027ء تک رہے گی، نیز مصر، اسرائیل اور رکن ممالک کے تعاون اور کونسل کی منظوری سے بین الاقوامی استحکام فورس کی مدت میں توسیع کی جا سکے گی۔ (9) یہ قرارداد تمام رکن ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ مجلس ِ امن کے ساتھ مل کر کام کریں اور اس امر کا تعیّن کریں کہ بین الاقوامی استحکام فورس اور دیگر تنظیموں کو اپنے فرائض کی بجا آوری کے لیے افرادی قوت، سازو سامان، تمام ذرائع اور مالی وسائل دستیاب ہوں اور انہیں فنی ماہرین کی اعانت بھی حاصل ہو، نیز ان کی دستاویزات کو مکمل منظوری حاصل ہو۔ (10) یہ قرارداد مجلس ِ امن سے درخواست کرتی ہے کہ ہر چھے ماہ بعد مندرجہ بالا امور پر پیش رفت کی رپورٹ سلامتی کونسل میں جمع کرتی رہے۔ (11) یہ قرارداد مندرجہ بالا امور کو باضابطہ کنٹرول کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔

یہ قرارداد امریکا کی پیش کردہ ہے اور اسرائیل کے حق میں ہے، اس میں اسرائیل کے مفادات کا پورا تحفظ کیا گیا ہے۔ پندرہ میں سے پاکستان سمیت تیرہ ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا، چین اور روس نے اس کی مخالفت کی اور نہ اس کا حصہ بنے۔ اگر وہ مخالفت کرتے تو قرارداد ویٹو ہو جاتی۔ اقوام متحدہ میں روس کے سفیر نے وضاحت کی: ’’یہ قراداد واشنگٹن کے وعدوں کی بنیاد پر امریکی اقدام کی توثیق ہے اور غزہ پر مجلس ِ امن کو مکمل کنٹرول دیتی ہے، جبکہ اس کی ساخت، اراکین اور شرائط کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، یہ دو ریاستی حل سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس میں فلسطینی انتظامیہ کو غزہ کا کنٹرول منتقل کرنے اور اسرائیلی افواج کے انخلا کے لیے واضح طور پر کسی وقت کا تعین نہیں ہے، اسے مبہم رکھا گیا ہے‘‘۔ چین نے بھی جنگ بندی کی حمایت کی، لیکن قرارداد کی یکطرفہ نوعیت پر تنقید کی، چین کے سفیر نے اس قراداد کو فلسطین کی خودمختاری اور ملکیت سے خالی قرار دیا اور کہا کہ اس میں فلسطینی آواز بہت کم سنائی دیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل امریکا کے ہاتھوں یرغمال ہے، اس کی مرضی کے بغیر کوئی قرارداد منظور نہیں ہو سکتی حتیٰ کہ ماضی قریب میں امریکا جنگ بندی کی چھے قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔ جن ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا، انہوں نے یہی سوچا ہو گا کہ کم از کم فلسطینیوں کی نسل کشی تو رک جائے گی، حالانکہ اس کے حملے تو وقتاً فوقتاً اب بھی جاری ہیں۔ اس قرارداد میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی، صرف قرارداد کی شق نمبر 2 میں فلسطینی ریاست کے لیے کمزور ترین الفاظ میں ایک لالی پاپ تھما دیا گیا ہے۔ وہ الفاظ یہ ہیں: ’’آخر کار فلسطینی خودمختاری اور ریاست کے قیام کے لیے حالات بااعتماد طریقے سے سازگار ہو جائیں گے‘‘۔ اس میں آزاد فلسطینی ریاست کی کوئی صریح ضمانت ہے اور نہ اس کے لیے کسی مدت کا تعین ہے۔ اس میں پاکستان کا ذکر نہیں ہے، بلکہ امریکا، قطر، سعودی عرب، مصر اور ترکیے کا ذکر ہے اور اس میں بڑا کردار اسرائیل اور مصر کو دیا گیا ہے، جبکہ مصر سمیت پڑوسی ممالک حماس کو ناپسند کرتے ہیں۔

اس قضیے کا اصل فریق حماس ہے، لیکن اُسے ادنیٰ درجے میں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا، بلکہ اُسے اشارتاً دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور اُسے غیر مسلّح کرنے کی شرط بھی اس قرارداد میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ حماس نے اس قرارداد کو ردّ کیا ہے۔ مزید یہ کہ اُسے بین الاقوامی استحکام فورس کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہوں گے اور یہ بہت بڑی قربانیوں کے باوجود حماس کی اہانت کے مترادف ہے۔ اس قرارداد کی شق 3 کی ذیلی شق 1 میں کہا گیا ہے: ’’عبوری حکومتی انتظامیہ کا قیام، جسے غزہ پٹی میں رہنے والے فلسطینی فنی ماہرین اور فلسطینیوں کی غیر سیاسی معاون اور نگراں باصلاحیت کمیٹی کا تعاون حاصل ہو، نیز اسے عرب لیگ کی بھی حمایت حاصل ہو، یہ غزہ کے روز مرہ انتظامی معاملات، سول سروس اور انتظامیہ کے امور کی نگرانی کرے گی‘‘۔ اس کی رو سے عبوری حکومتی انتظامیہ میں فلسطینی فنی ماہرین اور فلسطینیوں کی غیر سیاسی معاون اور قابل ِ اعتماد نگراں کمیٹی کا تعاون حاصل کرنے کی بات تو کی ہے، لیکن انہیں بھی مجلس ِ امن اور بین الاقوامی استحکام فورس کے تابع رہنا ہوگا۔ نیز اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ ISF میں کون سے ممالک شامل ہوں گے اور ان افواج کی قیادت کس کے پاس ہو گی، بلکہ شق 7 سے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ISF مصر اور اسرائیل کی مرضی سے کام کر سکے گی۔ اگرچہ اس قرارداد میں صراحتاً تو شامل نہیں ہے، لیکن ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ مجوّزہ مجلس ِ امن کے سربراہ ہوں گے۔ اس قرارداد میں آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کو اختیارات کی منتقلی کا کوئی معیّن وقت نہیں دیا گیا بلکہ سلامتی کونسل کی منظوری سے مجلس ِ امن کے کنٹرول میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

اسرائیل کا اس قرارداد کو تسلیم کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اس کے مفاد میں ہے اور وہ اس کی دفعات کی من پسند تشریح کرتا رہے گا۔ اس نے آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے تصور کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا، نیز کسی مرحلے پر فلسطینیوں کو اقتدار کی منتقلی کی مبہم سی بات توکی گئی ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ فلسطینیوں کی وہ مقتدرہ کس طرح وجود میں آئے گی جسے اقتدار منتقل کیا جا سکے گا، کیونکہ اس منصوبے میں بین الاقوامی نگرانی میں آزادانہ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ جس میں حماس کو بھی برابر کی سطح پر حصہ لینے کا حق حاصل ہو۔ اسی طرح وقف فنڈ کی بات تو کی گئی ہے اور امریکا نے اُس کی سربراہی کا حق اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، لیکن بحالی کے فنڈ میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوئی بات کی ہے اور نہ عطیہ دہندگان کا کوئی اقرار نامہ شامل ہے۔ ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو متوجہ کرنے کی بات کی ہے، لیکن یہ عالمی مالیاتی ادارے آسان شرائط پر قرض فراہم کرتے ہیں اور اس کے لیے اس پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ ان کے قرض کی واپسی کی ضمانت کیا ہو گی۔ اس قرارداد میں ایسی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ بین الاقوامی فلاحی ادارے آزادانہ طور پر غزہ کی پٹی میں اپنا نیٹ ورک قائم کر کے اپنی نگرانی میں بحالی کا کام کر سکیں گے۔ اس سے پہلے بعض مسلم ممالک نے غزہ کی تعمیر میں حصہ لیا تھا اور وہاں پر اسپتال اور تعلیمی ادارے بنائے تھے اور دیگر شعبوں میں مدد فراہم کی تھی، اب بھی مسلم ممالک اور فلاحی تنظیمیں مدد فراہم کرنا چاہیں گے، لیکن ان ابہامات کے ہوتے ہوئے مسلم ممالک یا آزاد فلاحی تنظیمیں کھل کر مدد نہیں کر سکیں گے، کیونکہ کوئی بھی ملک یا فلاحی ادارہ اسرائیل کی شرائط پر اپنی امداد ان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے فراہم نہیں کرے گا۔

اسرائیل نے غزہ کے سارے ڈھانچے کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسرائیل پر کم ازکم وقت میں اس کی بحالی کے مصارف ڈالے جاتے، کیونکہ ساری تباہی اسی کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ مزید ستم یہ ہے کہ تمام تر تباہی کا ذمے دار ہونے اور جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے باوجود اس قرارداد میں اشارتاً بھی اس کو مجرم نہیں گردانا گیا، بلکہ اس کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ پچھتر ہزار شہدا اور ڈھائی لاکھ زخمیوں کی قربانی دینے والے فریق (حماس) کو اشارتاً دہشت گرد اور امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ امر غنیمت ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے معاہدۂ ابراہیمی میں شامل ہونے کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام کو لازمی شرط قرار دیا ہے، لہٰذا وقتی طور پر انہوں نے اپنا دامن بچا لیا ہے۔ سعودی ولی عہد کے امریکا میں ہونے والے استقبال سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکا نے اپنے بہت سے مفادات ان سے وابستہ کر رکھے ہیں۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • کراچی کے مسائل کے ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہیں مسلط کیا گیا ہے: منعم ظفر
  • کے پی میں گورنر راج ؟، ایک جائزہ
  • دھمکیوں سے معاملات کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا، رانا ثنا
  • ’چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں‘
  • جیل میں عمران خان کی صحت سے متعلق بیٹے قاسم خان اہم  بیان سامنے آگیا
  • ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کردیا
  • غزہ کی بابت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کے خیالات
  • بانی سے ملاقات کی درخواست، پی ٹی آئی کا کوئی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا