Express News:
2025-12-01@22:06:04 GMT

عبدالکریم کے جوتے اورآئین

اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT

پشتو کی ایک بڑی مشہوراورکثیرالاستعمال کہاوت ہے کہ بیٹی’’کہتی‘‘ تم سے ہوں لیکن ’’سناتی‘‘ بہو کو ہوں۔

اسی سے ملتی جلتی بلکہ ایک جڑواں کہاوت اورہے کہ میں جو کہہ رہاہوں وہ مت سنو بلکہ وہ سنو جو میں نہیں کہہ رہا ہوں ۔

فیض احمد فیض نے بھی اس مضمون کو یوں باندھا ہے کہ ؎

وہ بات سارے فسانے میں جس کاذکر نہ تھا

 وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

 ایک زمانے میں جب ہم ریڈیو، ٹی وی کے لیے لکھتے تھے تو ہمارے بارے میں بھی یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ ہم جو لکھتے ہیں وہ خطرناک نہیں ہوتا بلکہ اس لکھے کے اندر جو ان لکھا ہوتا ہے وہی خطرناک ہوتا ہے چنانچہ ہمارے لکھے کو وہ لوگ طرح طرح کے چشمے بدل کر ایسی باتیں بھی ڈھونڈ لیتے تھے جن کے بارے میں ہمیں بھی پتہ نہیں ہوتا تھا ،یہ کچھ… جاؤ مت بیٹھو ۔ آؤ مت جاؤ … کھاؤ مت چھوڑو،کا معاملہ ہوتا تھا ۔

اوراب بھی ہمارے کالم پڑھنے والے ہم پر یہی شک کرتے ہیں حالانکہ ہم ایک سیدھے سادے کالم نگار ہیں اورسیدھا سادہ بلکہ غیر دانشورانہ اورجاہلانہ سا کالم لکھتے ہیں ۔خیر یہ ساری تمہید ہم نے ایک ایسی شخصیت کا ذکرکرنے کے لیے باندھی ہے جو اس فن کے استاد تھے یعنی کڑوی دوا کے اوپر شکر چڑھاتے تھے ۔

 نام تو ان کا محمد امیر یا امیر محمد تھا لیکن مشہور ’’مولانا بجلی گھر‘‘ کے نام سے تھے کیوں کہ پہلے وہ بجلی گھر کی مسجد میں امامت کرتے تھے ، بعد میں مولانا بجلی گھر سے بھی صرف بجلی گھر ہوگئے ، بجلی گھر نے یہ کہا ہے بجلی گھر کاکہنا ہے وہ بجلی گھر کی بات کہ ۔

وہ اپنی تقریر میں وہ وہ کرنٹ مارتے تھے اور وہ وہ شاک دیتے تھے کہ سننے والے سن ہوکر دنگ رہ جاتے تھے بلکہ ان کی اکثر باتیں۔

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

 میں نے یہ جانا کہ یہ بھی میرے دل میں ہے

 ان کا اکثر نشانہ اپنا ہی ملاؤں کاطبقہ ہوتا تھا جمعے کو اپنی مسجد میں جو تقریر کرتے تھے وہ لوگ ریکارڈ کرکے کیسٹ بنادیتے تھے جو بیسٹ سیلر ہوتی تھیں اورہرجگہ بڑے شوق سے سنی جاتی تھیں۔ جن دنوں بے نظیر کی حکومت میں مولانا فضل الرحمان کو خارجہ کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تو انھوں نے اس پر پھبتی کسی تھی حالانکہ وہ خود بھی ان کی پارٹی میں تھے لیکن اپنے لیڈرکو بھی نہیں چھوڑا تھا بلکہ وہ خود کو بھی نہیں چھوڑتے تھے ۔

ایک مرتبہ بولے کہ میں ایک جگہ امام مسجد تھا ، ایک دن ایک ایسا مقتدی میرے پاس آیا جس کی بیوی بدکردار تھی، بولا استاد جی میں نے سنا ہے کہ آپ مجھے صف سے نکالنے والے ہیں ، صف سے نکالنے کی یہ سزا اس زمانے میں بہت بڑی سزا ہوتی تھی ۔ہوتا یوں تھا کہ جب ایسا کوئی آدمی نماز کے لیے آتا تھا جو بداعمال ہو، تو امام نماز کھڑی ہوتے وقت پیچھے پلٹ کر کہتا ۔۔اے فلاں میری صف سے نکل جاؤ، یہ بڑی بدنامی کی بات ہوتی تھی اوراس شخص کا لوگ حقہ پانی بند کردیتے تھے۔ مولانا نے کچھ ایسا ہی کہا۔ جب اس شخص نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہا استاد استاد چھوڑو ، جیب میں کچھ ہے ؟ اس نے سو روپے کا ایک نوٹ نکال کرکہا یہ ہے۔ میں نے کہا،ادھر دو، اس سے نوٹ لے کر جیب میں ڈالنے کے بعد کہا جا۔ میرے پیچھے صفوں میں تم جیسے جہاں چودہ اور ہیں تو، تو پندرھواں ہوجا۔

آج کل یہ جو آئینی ترامیم کاسلسلہ چلا ہے، ایسا سلسلہ ضیاء الحق کے زمانے میں بھی چلا تھا ۔ اس پر مولانا بجلی گھر نے کہا تھا کہ آئین میں ترامیم شوق سے کرو لیکن خیال رکھو کہ آئین عبدالکریم کے جوتے نہ بن جائے، پھر اس نے بغداد کے عبدالکریم نام کے ایک شخص کا قصہ سنایا کہ وہ بڑا کنجوس آدمی تھا چنانچہ جب بھی اس کے جوتے پھٹ جاتے تھے، وہ اس میں پیوند لگوا دیتا تھا ۔ چنانچہ اس پیوند پر پیوند سے جوتے اتنے بھاری ہوگئے تھے کہ گھسیٹنا مشکل ہوگیا بلکہ وہ پیوند لگا لگا کر گھسیٹے جارہا تھا اورگھسیٹ گھسیٹ کر پیوند لگوائے جارہا تھا ، جوتوں کی اصل شکل نیچے کہیں دوررہ گئی تھی اوراوپر پیوند پیوند تھے ۔کسی خدا ترس نے نئے جوتے خرید کر اسے دیے کہ لے اسے پہن اوران پرانے جوتوں کو پھینک۔

عبدالکریم نے گھر جاکر نئے جوتے پہنے اورپرانے جوتے گھر سے باہراچھال دیے جو ایک نالے میں پڑگئے اورسیدھے جاکر ایک حمام کے نالے میں اٹک گئے، حمام میں پانی بھرگیا اورجب اس خرابی کاباعث عبدالکریم کے جوتے نکلے تو حمام والا جب گھرآرہا تھا تو اس نے جوتے ایک کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیے ، ایک امیر کاکتا جب ان جوتوں کو ادھیڑنے لگا تو کتے کے دانت ٹوٹ گے ، عبدالکریم کو اس کا بھی ہرجانہ بھرنا پڑا ، پھر اسے ایک تدبیر سوجھی ، رات کے اندھیرے میں جاکر اس نے جوتوں کو زمین میں گاڑھ دیا ، کچھ نوجوانوں نے اسے دیکھا کہ کنجوس آدمی نے ضرور یہاں اپنا خزانہ دفن کیا ہے ،کھودا تو عبدالکریم کے مشہور ومعروف اورجانے پہچانے جوتے نکلے ، نوجوان جوتے لے کر اس کے گھر پہنچے اورباہرسے جوتے اس کے گھر میں پھینک دیے جویکے بعد دیگرے اس کی بیوی کو لگے اوروہ مرگئی، گویا جوتوں نے اسے رنڈوا بھی کرڈالا ۔

عبدالکریم کے جوتوں بلکہ پیوندی جوتوں کی یہ کہانی بہت لمبی ہے جس میں جوتوں کے طرح طرح کے کارنامے بیان کیے جاتے ہیں ۔

مولانا بجلی گھر نے کہا مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمارا آئین عبدالکریم کے جوتے نہ بن جائے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مولانا بجلی گھر نے کہا

پڑھیں:

پاکستان میں اشرافیہ اصلاحات اور معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ

کراچی:

ترقی پذیر ممالک میں ایلیٹ کی گرفت کوئی انوکھی بات نہیں مگر پاکستان میں یہ رجحان کہیں زیادہ گہرا، وسیع اور مالیاتی طور پر نقصان دہ صورت اختیار کر چکاہے۔

آئی ایم ایف کے تازہ سیاسی معیشت کے تجزیے کے مطابق پاکستان میں اقتدار اورفوائد پرقبضہ کسی ایک طبقے کانہیں بلکہ مختلف طاقتور گروہوں،عسکری اداروں، سیاسی خانوادوں، بڑے زمینداروں، تحفظ یافتہ صنعتی لابیوں اور شہری تجارتی مراکزکے درمیان بٹ چکاہے.

یہ گروہ ایک متحدہ اشرافیہ کی طرح نہیں بلکہ مسابقتی مفاداتی بلاکس کی شکل میں کام کرتے ہیں جو ریاستی فیصلوں کوکمزور اورمعاشی پالیسیوں کوغیر مربوط بناتے ہیں۔ نتیجتاً اصلاحات بار بار رک جاتی ہیں، ٹیکس کادائرہ نہیں بڑھ پاتا اور ریاست مسلسل مالیاتی بحران کاشکاررہتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹیکس چھوٹ،مراعاتی ٹیرف، پسندیدہ صنعتوں کیلیے سبسڈیز اور بڑے غیر رسمی کاروباری طبقات کی حفاظت نے قومی آمدنی کوشدیدنقصان پہنچایاہے۔ جہاں دیگر ممالک بحرانوں کے بعدٹیکس اصلاحات پر زوردیتے ہیں، پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب جوں کا توں یا بدتر ہوجاتاہے۔

آئی ایم ایف نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں ایلیٹ کی گرفت صرف معاشی نہیں، بلکہ گہرے سیاسی و ادارہ جاتی ڈھانچے میں پیوست ہے۔ سول و عسکری عدم توازن،سیاسی انتشار اور بیوروکریسی کی جمودی سوچ اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

 تجزیے میں سفارش کی گئی ہے کہ پاکستان کو روایتی اصلاحاتی نسخے نہیں،بلکہ ایک ایسے فریم ورک کی ضرورت ہے،جو سیاسی حقیقتوں کے مطابق ہو،جیسے ٹیکس نظام کی ڈیجیٹل اصلاح،مراعات کے بجائے کارکردگی پر مبنی سہولیات،سنگاپور ماڈل کے مطابق ایس او ایز کی غیر سیاسی نگرانی،شفاف معاشی فیصلہ سازی کے فورمز اور سب سے بڑھ کر پائیدارسیاسی استحکام ضروری ہے۔

 ماہرین کے مطابق پاکستان کی مشکل محض ایلیٹ کی گرفت نہیں بلکہ ’’ ایلیٹ ان ٹینگلمنٹ‘‘ ہے جس میں طاقت تقسیم تو ہے مگر تبدیلی کے خلاف متحد ہے، تاہم محتاط،مرحلہ وار اور سیاسی طور پر ہم آہنگ اصلاحات کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنایاجاسکتاہے۔

متعلقہ مضامین

  • غلطیوں کا اعتراف اور انہیں نہ بھولنا آج اتنا اہم کیوں ہے؟
  • ڈیرہ غازی خان میں پولیس اور واپڈا کے درمیان انوکھا فلمی تصادم، پورا علاقہ پریشان
  • آگرہ واقعہ ہندوتوا کا عروج اقلیتوں کی بے بسی خوف عدم تحفظ
  • پاکستان میں اشرافیہ اصلاحات اور معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ
  • افغان حکومت، خطے کے امن کی دشمن
  • ایران میں خشک سالی شدت اختیار کرگئی، پانی کی کمی کے باعث کارخہ ڈیم میں بجلی کی پیداوار بند
  • عبدالقادر حسن کی یاد میں
  • جنگ کا بینیفشری نہیں، بلکہ متاثرہ فریق ہوں، سرفراز بگٹی
  • بھارتی وزیر دفاع کا اشتعال انگیز بیان؛ امن کے لیے خطرہ