Jasarat News:
2025-12-01@22:30:10 GMT

دنیا جمہوریت آمریت سے بد تر ہوتی جا رہی ہے ؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا بھر میں جمہوریت کا خاتمہ کیو ں ہے ، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عوام کو اس نظام نے کچھ دینے کے بجائے جمہوری حکومتوں نے عوام سے سب کچھ چھین لیا ہے۔ دوسری جانب اس نظام کو اس اصل روح کے مطابق چلایا نہیں جارہا ہے-
جنوبی ایشیا میں دنیا کی 8 ارب آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی اور ایشیا کی تقریباً نصف آبادی رہتی ہے، جس سے خطے کو ڈیموگرافک، سیاسی اور معاشی طور پر بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
سوائے افغانستان کے، اس خطے میں دیگر 7 ممالک میں جمہوریتیں ہیں۔ ان میں رجسٹرڈ ووٹروں کے لحاظ سے دنیا کی 10 بڑی جمہوریتوں میں سے 3 ملک یعنی انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔
ایک محدود سروے کے مطابق جن ممال میں جمہوریت چلائی جا رہی ہے وہاں بھی اس میں آمریت کی ملاوٹ کی جارہیہے۔انڈیا اور پاکستان میں جمہوریت اور اس کے معیار کا نیا درج حرارت حال ہی میں چیک کیا گیا ہے، جبکہ بنگلہ دیش چند ہفتے میں انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک نئے آئینی طریقہ کار کا اعلان کر رہا ہے۔ ایک ایسے خطے کے لیے جو اپنی منتخب جمہوری اقدار پر فخر کرتا ہے، تشخیص اچھی نہیں لگ رہی۔

جمہوریت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اکثریت کے ووٹوں کو پوری دنیا اور جنوبی ایشیا اور پاکستان میں عزت دینے کے بجائے روندا جاتا ہے ۔انڈیا نے ابھی بہار میں ریاستی انتخابات منعقد کیے ہیں، جو وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی مقبولیت اور مذہبی رنگت والے قوم پرست سیاسی ایجنڈے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ پاکستان میں وزیراعظم شہباز شریف کی پالیسیوں کی حمایت کے اسی طرح کے ٹیسٹ کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات منعقد ہوئے۔
دونوں ممالک میں مودی کی بی جے پی اور شریف کی مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکمران اتحادوں نے قومی اور علاقائی اسمبلیوں میں اپنی اکثریت کو بہتر بنایا۔ دونوں پارٹیوں نے رائے عامہ کے کچھ جائزوں کے برخلاف اپنے اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دی۔
تکنیکی طور پر ان نتائج میں قانونی لحاظ سے کچھ بھی غلط نہیں ہے، اپوزیشن عام طور پر نتائج کو قبول کرتی ہے اور فاتحین اپنے غلبے کا جشن منا رہے ہیں۔
لیکن دونوں ممالک میں آئینی جمہوری فریم ورک کے اندر منعقد ہونے والی اس انتخابی مشق کی سیاست کے بارے میں کچھ پریشان کن ہے۔
انڈیا اور پاکستان دونوں ناقابل یقین حد تک تکثیری اور متنوع ہیں، ان کے سیاسی منظرنامے اور سماجی و اقتصادی ڈیموگرافکس اور انتخابی مشق کا پورا پس منظر نہ صرف معمول کی موقع پرستی بلکہ جارحانہ اور اشتعال انگیز سیاسی داداگیری کی بھی بُو دے رہا تھا۔

جب گزشتہ سال عام انتخابات میں ان کی پارٹیاں انڈیا اور پاکستان میں اقتدار میں آئیں تو یہ عمل ہیرا پھیری پر مبنی سیاسی بیانیے کے پس منظر میں دیکھا گیا۔ انڈیا کے معاملے میں انسانی حقوق کے ایجنڈوں کے بجائے ہندوتوا کے غلبے کی ایک استثنائی مہم کے گرد اقلیت مخالف نعرے پہلے سے طے شدہ انتخابی زبان تھی۔
پاکستان کے معاملے میں انتخابی نظام نے سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا، نیز ووٹوں کی گنتی اور دستاویزات کے نظام میں مشکوک ہیرا پھیری ہوئی۔
پاک افغان مذاکرات پر انس حقانی کی غزل: انتباہ یا پیغام؟
اس مہینے کی بڑے پیمانے پر انتخابی مشقوں نے صرف اس صورت حال کو مزید بگاڑ دیا ہے جس میں دونوں ممالک میں اپوزیشن کو انتخابی، پارلیمانی اور حکمرانی کی جگہوں سے سختی سے محدود کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی حکمران جماعتیں اپنی قانونی لیکن متنازع اکثریت سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
خطے میں جمہوریت کے معیار کو ٹریک کرنے والوں کے لیے جنوبی ایشیا کی 2 بڑی جمہوریتیں اپنی جائز اپوزیشن کے لیے جگہ مزید سکڑ رہی ہیں۔
یہ رجحان سیاسی تکثیریت اور شراکتی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے کیوں کہ اکثریت پسندی طاقت کو مزید کم ہاتھوں میں مرکوز کرتی ہے، عوامی مفاد میں بامعنی اختلاف رائے اور جمہوریت کی دائمی اپیل کو کمزور کرتی ہے۔

اکثریت پسندی کا دوسرا رخ آمریت اور تنزلی کا شکار احتساب ہے۔ پاکستان میں اس کا ترجمہ واحد پارٹی کی اکثریت پسندی کی طرف واپسی، ایک اہم اتحادی کو ناراض کرنے اور مرکزی اپوزیشن پارٹی کو مزید سائیڈ لائن کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہی حال انڈیا کا بھی ہے۔
بنگلہ دیش فروری 2026 میں ہونے والے آئندہ قومی انتخابات سے معزول اور جلاوطن سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی سابقہ حکمران جماعت اور موجودہ مشکلات میں گھری اپوزیشن پارٹی پر پابندی لگا کر خود کو انڈیا اور پاکستان کے رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ کر رہا ہے۔
یہ ستم ظریفی سے خالی نہیں کہ جنوبی ایشیا کی 3 سب سے بڑی جمہوریتوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات خراب ہیں جو اکثر جنگ میں تبدیل ہونے کی دھمکی دیتے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کچھ ماہ قبل ہی جنگ کی طرف گئے تھے۔ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ تکثیری جمہوریتیں تنازعات کے حل کے لیے ایک بہتر اور سستا آپشن ہیں۔

انڈین اور پاکستانی سیاست، نیز بنگلہ دیش میں عبوری نظام کو جمہوریت کو بامعنی اور شراکتی رکھنے کے لیے سیاسی تکثیریت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، کمزور کرنے کی نہیں۔ انہیں انتخابی مہم کے مالیاتی قوانین کو سختی سے نافذ کرنا چاہیے اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیے ریاستی فنڈنگ یا میڈیا تک مساوی رسائی فراہم کرنی چاہیے۔
انہیں آزاد انتخابی اداروں کی ضمانت دینے اور متنوع آوازوں کے لیے قابل نفاذ تحفظات کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اصلاحات بھی کرنی چاہئیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اپوزیشن کو ساختی طور پر پسماندہ نہ کیا جائے۔

اس سے جمہوریت کے بنیادی منافع کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی: اقتصادی توسیع کی بہت بڑی صلاحیت۔ جنوبی ایشیا عالمی سطح پر تیزی سے ترقی کرنے والے خطوں میں شامل ہے، جس کی پیش گوئی اکثر 6 فیصد سالانہ سے زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ تب ہی برقرار رہ سکتی ہے جب سیاسی طاقت سیاسی استحکام کا کام کرے۔ اس کے لیے خطے کو جمہوریت کے نام پر اکثریت پسندی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ چھوڑنی چاہیے۔
اس حقیت سے انکار نہیں ہے جمہورت بھی ایک اچھا نظام حکومت بن سکتا ہے اور اس کو کامیابی چلا کر عوام کی خدمت کی جاسکتی ہے لیکن اس پر چند خاندان اور گروپ قابض ہو کر اس کو تباہ کر رہے ۔اب تو جمہوریت آمریت سے بد تر ہوتی جا رہی ہے-

قاضی جاوید گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انڈیا اور پاکستان اپوزیشن پارٹی اکثریت پسندی پاکستان میں میں جمہوریت جنوبی ایشیا جمہوریت کے بنگلہ دیش ممالک میں کرنے کی کے لیے ہے اور رہا ہے ا مریت

پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں جمہوریت اور 1973 کے آئین کی بنیاد رکھی، بلاول بھٹو

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے 58ویں یومِ تاسیس کی تقریب سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، اسکردو، خیبر پختونخوا، پنجاب، جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے جیالوں سے ایک ہی وقت میں مخاطب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی تاریخ پاکستان کے ماضی اور مستقبل سے جڑی ہوئی ہے۔ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ملک میں جمہوریت اور 1973 کے آئین کی بنیاد رکھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلاول بھٹو پیپلز پارٹی جمہوریت زرداری یوم تاسیس

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی قربانیوں اور کارناموں کی عظیم داستان ہے، خورشید شاہ
  • اے ماہِ دسمبر! مائیں تو مائیں ہوتی ہیں
  • گورنر راج کے معاملے سے اے این پی کو باہر رکھا جائے: ایمل ولی
  • پیپلز پارٹی صرف سیاست نہیں بلکہ خون سے لکھی جدوجہد کا نام ہے، سید ناصر حسین شاہ
  • ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں جمہوریت اور 1973 کے آئین کی بنیاد رکھی، بلاول بھٹو
  • پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پر تمام جمہوریت پسندوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں،خورشید شاہ
  • پاکستان پیپلز پارٹی کے 58 ویں یومِ تاسیس پر  وزیراعلیٰ سندھ کا پیغام 
  • یوم  تاسیس آج  ، شہید  بھٹو  ، بے نطیر نے جمہوریت  کی ‘ صدر 
  • نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری