منشیات کا پھیلاؤ ’’فساد فی الارض‘‘ ہے !
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روس اور افغانستان کی جنگ 24/ دسمبر 1979 کو شروع ہوئی اور 10، سال بعد 15/ فروری 1989کو بند ہوگئی۔ اس جنگ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچاہے،ان دو ممالک کی جنگ کے دوران پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی، حکومت نے مذہبی رواداری اور انسانیت کے ناطے مظلوم افغان بھائی بہنوں کے لیے اپنی سرحدوں کو فراخ دلی سے کھول دیا انہیں رہائش کے ساتھ ساتھ کاروبار کی آزادی بھی حاصل ہوگئی۔ افغان پاک سرحد 2500، کلومیٹر طویل ہے، ہماری مہمان نوازی کی وجہ سے 70، لاکھ افغان مہاجرین ، پاکستان کے اہم حصوں میں رہائش پذیر ہوگئے اور اپنی مضبوط بستیاں قائم کرلیں۔ حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے مظلوم افغانیوں کے ساتھ بہت بڑی تعداد منشیات فروشوں کی کلاشنکوف کے ساتھ داخل ہوگئ اور دیکھتے ہی دیکھتے منشیات اور ناجائز اسلحہ پورے ملک میں پھیل گیا،1980 میں ہیروئین کا ایک بھی عادی فرد نہیں تھا لیکن آج پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ افراد اربوں روپوں کانشہ کر رہے ہیں، بے تحاشہ جدید اسلحہ حشرات الارض کی طرح قاتلوں کے پاس پہنچ گیا، ظلم تو یہ ہوا کہ طلباء میں منشیات کی رسائی کے ساتھ، افسوس در افسوس ان کو کلاشنکوف بھی تھما دی گئیں! منشیات کی پیداوار ، اسمگلنگ اور سپلائی کرنے والے ممالک میں ، افغانستان،ایران اور پاکستان پہلا ’’گولڈن کریسنٹ‘‘بن گئے ہیں۔ افغانستان سے منشیات کی ترسیل ،’’طور خم‘‘، ’’چمن‘‘ اور پاکستان کے سرحدی علاقوں سے منظم طریقوں سے ہوتی ہے۔ اس وقت افغانستان میں پوست کی کاشت 32، ہزار ایکڑ پر محیط ہے، امارات اسلامیہ افغانستان کو چاہیے کہ وہ اس کاشت کو مکمل طور پر تلف کر دے۔ تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کا مرکز افغانستان میں ہے، ٹی ٹی پی کسی بھی صورت میں پاکستان میں امن اور خاتمہ منشیات نہیں چاہتی اس سلسلے میں اس نے ہمارے دشمن انڈیا سے بھی ہاتھ ملا لیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق “طالبان حکومت ہر ماہ فتنہ الخوارج کے امیر نور علی محسود کو 50، ہزار 5،سو ڈالر دے رہی ہے۔”
ڈرگ مافیا اور افغانستان سے بڑے پیمانے پر خیبر پختون خواہ میں منشیات فروشوں کو ہمارے مقامی سیاسی لوگوں کی سہولت کاریاں اور سرپرستی حاصل ہے ۔ وادی تیراہ میں “فوجی آپریشن” کی مخالفت بھی یہ ہی لوگ کرتے ہیں، اس وجہ سے پورے ملک میں جرائم، لاقانونیت اور منشیات کے پھیلاؤ سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں، منشیات فروشوں کی محفوظ پناہ گاہیں افغان بستیاں بن چکی ہیں وہ یہاں سے نکل کر منشیات فروشی اور بڑے سے بڑا جرم کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں، ان جرائم پیشہ عناصر نے صرف کراچی شہر میں گزشتہ سال موبائل فون اور موٹر سائیکل چھیننے کی مزاحمت پر 110، اور رواں سال میں 76، معصوم شہریوں کی جانیں لی جا چکی ہیں۔ ملک بھر میں ان کے اربوں روپے کے ڈمپرز بغیر ٹیکس اور کاغذات کے چل رہے ہیں، ان ڈمپرز نے صرف کراچی میں رواں سال 217، معصوم لوگوں کی جان لی ہے، ان لوگوں کی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ قانون کی گرفت میں نہیں آپا تے ہیں۔ ،پاکستان کے بڑے شہروں کے چائے کے ہوٹل کی سر پر ستی بھی انہیں حاصل ہے، عوام الناس کو ملاوٹ والی نشی چائے پلا رہے ہیں، یہ ہوٹل دن رات کھلے رہنے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کی مستقل بیٹھک بن گئی ہے۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق منشیات فروش ٹی ٹی پی کے ذریعے وادی تیراہ اور سرحدی علاقوں میں 12، ہزار ایکڑ زمین پر پوست کی کاشت کر رہے ہیں،یہ ہمارے اینٹی نارکوٹکس فورس اور فرنیٹر گروپز کے جوانوں کو شہید کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں، ان لوگوں نے ہمارے 582، فوجی جوان و افسران اور 356، بے گناہ شہریوں کو بھی شہید کر دیا ہے۔ افغان حکومت جھوٹا پروپیگینڈا کرتی ہے کہ “پاکستان نے امریکہ کو اپنی سر زمین افغانستان پر حملوں کے لیے دے رکھی ہے، اسے جواز بنا کر افغانستان اب پاکستان پر وقتاً فوقتاً حملے کر رہا ہے۔افغان حکومت یاد رکھے کہ پاک فوج کے ساتھ 25، کروڑ عوام سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔
اگر ہم منشیات سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں تو جلد از جلد بقیہ 60، لاکھ افغانیوں کو 50، سال مہمان نوازی کے بعد اچھے طریقے سے رخصت کرنا ہوگا ، آپ دیکھیں گے کہ چند سالوں میں یقیناً وطنِ عزیز سے منشیات اور دیگر جرائم میں حیرت انگیز کمی واقع ہو جائے گی، ان کے جانے سے ہماری سلامتی محفوظ اور دنیا میں عزت کے مقام کے ساتھ ساتھ ہمارے لاکھوں معصوم لوگ منشیات کی عفریت سے بچ جائیں گے۔ ان شاءاللہ ۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: منشیات کی کی وجہ سے کے ساتھ رہے ہیں
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا : واشنگٹن پوسٹ
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور افغانستان فوجی تصادم کی نئی لہر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق بھارت کے طالبان کے ساتھ بڑھتے رابطوں نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ امریکا، یوکرین جنگ اور افریقہ کی خبروں کے ساتھ ساتھ ایشیا سے موصول ہونے والی تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت کی طالبان کے ساتھ بڑھتی ہوئی سفارتی اور سیاسی رابطہ کاری نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک ایک نئی فوجی محاذ آرائی کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں، اس صورتحال کے پس منظر میں منگل کے روز مشرقی افغانستان میں ہونے والے ایک فضائی حملے میں 9 بچوں سمیت کئی افراد کے جاں بحق ہونے کا واقعہ شامل ہے،جہاں سوگوار خاندان اپنے پیاروں کی قبروں پر مٹی ڈالتے دکھائی دیے۔ خطے میں تیزی سے بدلتی صورتحال نے ناصرف سرحدی سکیورٹی کو پیچیدہ بنا دیا ہے بلکہ علاقائی طاقتوں کے درمیان اثر و رسوخ کی نئی جنگ بھی نمایاں ہو رہی ہے۔