اسلام آباد خودکش حملے کی تحقیقات میں اہم پیشرفت، سہولت کار کے ہوشربا انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
اسلام آباد میں 11 نومبر کے خودکش حملے کی ساری کہانی اب منظر عام پر آ گئی ہے، جب حکومت نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ محض ایک واردات نہیں بلکہ سرحد پار بیٹھے منظم دہشت گرد نیٹ ورک کا حصہ تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق حملہ آور کو خودکش جیکٹ پشاور کے قبرستان سے لے کر گڑ کی بوری میں چھپا کر اسلام آباد تک پہنچایا گیا، جبکہ اس پورے آپریشن کی منصوبہ بندی اور نگرانی افغانستان میں ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کر رہی تھی۔ اس انکشاف نے پاکستان میں دہشتگردی کے پس پردہ جال اور بین الاقوامی تعلقات کے خطرناک پہلوؤں کو بے نقاب کر دیا ہے۔
اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پر 11 نومبر کو ہونے والے خودکش حملے کے مبینہ سہولت کار ساجد اللہ عرف شینا نے بتایا کہ خودکش جیکٹ پشاور کے اخوند بابا قبرستان کے قریب سے حاصل کی گئی اور اسے گڑ کی بوری میں چھپا کر وفاقی دارالحکومت لایا گیا۔ وہاں سے نالے کے ذریعے حملہ آور تک پہنچائی گئی۔
منظم نیٹ ورک کے تحت حملہوفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ یہ حملہ محض ایک واردات نہیں بلکہ سرحد پار بیٹھے دہشتگردوں کے منظم نیٹ ورک کا حصہ تھا۔ انٹیلی جنس بیورو اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے مشترکہ کارروائی کے دوران ٹی ٹی پی سے وابستہ چار افراد کو گرفتار کیا ہے۔
افغانستان سے ہدایاتاعترافی بیان میں ساجد اللہ نے بتایا کہ وہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کمانڈر داد اللہ کے رابطے میں تھا، جس نے ٹیلی گرام کے ذریعے اسلام آباد میں حملے کی ہدایت دی۔ داد اللہ نے خودکش بمبار عثمان عرف ’قاری‘ کی تصاویر بھی بھیجی تاکہ وہ اسے پاکستان میں وصول کرے۔
حملے کی منصوبہ بندی اور نگرانیابتدائی تفتیش کے مطابق حملہ پاکستان میں موجود ایک آپریشنل سیل کے ذریعے کیا گیا، مگر منصوبہ بندی اور نگرانی افغانستان میں ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کرتی رہی۔ مرکزی کمانڈر سعید الرحمان عرف داد اللہ نے ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے ہدایات جاری کیں۔
حملے کے محرکات اور گرفتاریوں کے نتائجعطا تارڑ نے بتایا کہ سہولت کار اور رابطہ کاروں کی گرفتاری سے نہ صرف مزید دہشتگرد کارروائیوں کو روکا گیا بلکہ مستقبل میں ایسے حملے روکنے کے لیے اہم معلومات بھی حاصل ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق میں پورے نیٹ ورک کی ساخت اور طریقہ کار بے نقاب ہوا۔
ساجد اللہ کی پس منظر کہانیوفاقی وزیر کے مطابق ساجد اللہ 2015 میں تحریک طالبان افغانستان میں شامل ہوا، افغانستان کے مختلف تربیتی کیمپس میں تربیت حاصل کی، اور 2023 میں داد اللہ سے متعارف کرایا گیا۔
عطا تارڑ نے کہا کہ یہ حملہ کسی ایک مقام تک محدود نہیں تھا اور دہشتگرد پہلے بھی ایک بڑی کارروائی کی کوشش کر چکے تھے جو ناکام ہوئی۔
حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں اور مزید انکشافات اور گرفتاریوں کے امکانات موجود ہیں، تاکہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی کڑی نگرانی کی جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان میں پاکستان میں اسلام آباد ساجد اللہ عطا تارڑ کے ذریعے داد اللہ ٹی ٹی پی حملے کی نیٹ ورک
پڑھیں:
ایف سی ہیڈکوارٹر پر خودکش حملے کی تحقیقات میں پیش رفت، مزید انکشافات
پشاور:فیڈرل کانسٹیبلری (ایف سی) ہیڈکوارٹر پر خودکش حملے کی تحقیقات میں پیش رفت سامنے آئی ہے، جس میں دہشت گردی کی اس کارروائی سے متعلق مزید انکشافات ہوئے ہیں۔
سی ٹی ڈی کے مطابق فیڈرل کانسٹبلری ہیڈکوارٹر میں خودکش دھماکوں کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور اس سلسلے میں ہلاک ہونے والے دہشتگردوں کے جسمانی اعضا حاصل کر لیے گئے ہیں، جنہیں ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے لیبارٹری بھجوایا گیا ہے۔
دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے سی ٹی ڈی کے مطابق تینوں حملہ آور ایک ہی موٹر سائیکل پر آئے تھے۔ دہشت گرد کوہاٹ روڈ اور سول کوارٹر سے ہوتے ہوئے جائے وقوع پر پہنچے، جہاں حملہ آوروں نے ایف سی ہیڈکوارٹر سے کچھ فاصلے پر موٹر سائیکل کھڑی کی۔
سی ٹی ڈی کے مطابق دہشتگردوں کے پاس کلاشنکوف اور 8 سے زائد دستی بم موجود تھے۔ پولیس نے دہشتگردی میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکل بھی تحویل میں لے لی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ایف سی ہیڈ کوارٹر پشاور پر 3 دہشت گردوں نے حملے کی کوشش کی تھی اور دہشت گردی کی اس کارروائی میں 3 جوان شہید اور 11 زخمی ہوئے تھے جب کہ جوابی کارروائی میں تینوں دہشتگرد ہلاک ہوگئے تھے ۔