کراچی: نیپا چورنگی پر مین ہول میں گرنیوالے 3سالہ بچے کی لاش 14 گھنٹے بعد مل گئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251202-01-20
کراچی(اسٹاف رپورٹر)گلشن اقبال کے علاقے میں نیپا پل کے قریب مین ہول میں گر کر لاپتا ہونے و الے بچے کی لاش نصف کلو میٹر فاصلے سے 15 گھنٹے بعد مل گئی۔ تفصیلات کے مطابق مین ہول میں گرنے والے 3 سالہ ابراہیم کی لاش جائے حادثہ سے کچھ سو میٹر دوری سے ملی ہے، جسے اس کے دادا کے حوالے کردیا گیا ہے۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق بچے کی لاش کے ایم سی کی ٹیم کو ملی، جو جائے حادثہ سے تقریباً آدھا کلومیٹر تک لائن میں بہتی ہوئی ایک مقام سے ملی۔عینی شاہدین اور حکام کے مطابق بچے کی لاش جائے حادثہ سے تقریباً آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر جاکر پھنس گئی تھی، جو تلاش کے دوران مل گئی۔واضح رہے کہ گلشن اقبال نیپا چورنگی کے قریب اتوار کی رات کھلے مین ہول میں گرنے والے کمسن بچے کی لاش کو 15 گھنٹے تک تلاش کیا جاتا رہا، اس دوران شہریوں کی جانب سے انتظامیہ کی غفلت اور ریسکیو کے عمل میں تاخیر پر شدید احتجاج بھی کیا گیا۔نیپا چورنگی کے قریب کھلے مین ہول مین گرنے والے بچے کی تلاش کا سلسلہ رات بھر جاری رہا۔ ریسکیو عملے نے ابتدا میں بہت کوشش کی تاہم مناسب مشینری نہ ہونے کے باعث آپریشن روکنا پڑا۔ریسکیو حکام کے مطابق ان کے پاس کھدائی کے لیے ضروری مشینری دستیاب نہیں تھی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کی جانب سے کوئی معاونت فراہم کی گئی۔ بعد ازاں علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہیوی مشینری منگوائی اور کھدائی کا کام شروع کیا۔مین ہول میں گرنے والے 3 سالہ بچے کی شناخت ابراہیم ولد نبیل کے نام سے ہوئی جو اہل خانہ کے ساتھ قریبی ڈپارٹمنٹل اسٹور میں خریداری کے لیے آیا تھا۔ شاپنگ کے بعد باہر نکلتے ہی بچہ ہاتھ چھڑا کر بھاگا اور بغیر ڈھکن والے گٹر میں گر گیا۔بچے کے والد نے بتایا کہ وہ موٹر سائیکل پارک کر رہے تھے کہ اسی دوران ابراہیم اچانک پیچھے آیا اور مین ہول میں جا گرا، جس پر ڈھکن موجود نہیں تھا۔ بچے کے دادا نے بھی واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ابراہیم والدین کا اکلوتا بیٹا ہے جو انتظامیہ کی غفلت کا شکار ہوگیا۔افسوسناک واقعے کے بعد بچے کی والدہ صدمے سے نڈھال ہے جبکہ علاقے میں غم و غصے کی لہر ہے۔ شہریوں نے نیپا چورنگی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ٹائر جلا کر سڑک بلاک کردی۔ مشتعل افراد نے حسن اسکوائر اور جامعہ کراچی جانے والے راستوں کو بھی بند کر دیا جبکہ احتجاج کے دوران ایک میڈیا وین پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔دوسری جانب سندھ حکومت نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید کے مطابق مین ہول پر ڈھکن کیوں نہیں تھا، اس کی تحقیقات کی جا رہی ہے اور ذمے داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
کراچی: نیپا سانحہ میں جاں بحق ہونے والے 3سالہ معصوم ابراہیم کی فائل فوٹو
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نیپا چورنگی مین ہول میں بچے کی لاش گرنے والے کے مطابق
پڑھیں:
کراچی: مین ہول میں گرنے والے بچے کی لاش 14 گھنٹے بعد مل گئی
کراچی(نیوز ڈیسک) کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں نیپا چورنگی کے قریب کھلے مین ہول میں گرنے والے 3 سالہ بچے کی لاش 14 گھنٹے بعد ایک کلو میٹر دور نالے سے مل گئی ہے۔
گزشتہ رات 11 بجے معروف ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے سامنے تین سالہ ابراہیم کھلے گٹر میں گر کر لاپتہ ہوگیا تھا، رات بھر ریسکیو آپریشن کے باوجود بچہ نہیں مل سکا تھا، مشینری نہ ہونے کے باعث ریسکیو آپریشن معطل کردیا گیا۔
کچھ دیر قبل سرکاری سطح پر ہیوی مشینری جائے حادثہ پر پہنچی تھی جبکہ احتجاج کے باعث بند ہونے والی یونیورسٹی روڈ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
ریسکیو آپریشن کرنے والے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ مین ہول میں پانی کا بہاؤ تیز ہونے کے باعث بچے کی تلاش کے کام میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ریسکیو اہلکاروں کے مطابق مشینری سے کھدائی کرکے بچے کو تلاش کیا گیا اور غوطہ خوروں نے بھی ڈھونڈا لیکن بچہ نہیں ملا۔
واقعے کے خلاف مشتعل افراد نے احتجاج کیا، مظاہرین نے یونیورسٹی روڈ نیپا اور حسن اسکوائر آنے اور جانے والی سڑک ٹریفک کے لیے بند کی۔
متاثرہ خاندان کا کہنا تھا کہ مشینری کا انتظام اہل خانہ نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا تھا، لیکن مشتعل افراد کے احتجاج کے باعث مشینری جائے حادثہ سے روانہ ہوگئی۔
میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ واٹر کارپوریشن کو تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، اگر کوئی افسر غفلت میں ملوث ہوا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کل رات سے اس مسئلے پر سیاست کرنے کی کوشش کی گئی جو بڑی بدقسمتی ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ بچے کے والدین کی تڑپ کا احساس ہے اور واقعہ پر افسوس بھی کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ مین ہول میں گرنے والے بچے کی تلاش جاری ہے، پانچ سو میٹر کے حصے کو کھود چکے ہیں، میں تمام انتظامیہ سے رابطے میں ہوں۔ اہلخانہ کی ہر ممکن مدد کریں گے۔
حادثے کے بعد سے تاحال میئر کراچی، ڈپٹی کمشنر ایسٹ اور منتخب نمائندوں میں سے بھی کوئی مدد کے لیے موقع پر نہیں پہنچا جبکہ بی آر ٹی پروجیکٹ کی مشینری بھی قریب ہونے کے باوجود مدد کے لیے نہیں آئی۔
ڈپٹی میئر کراچی سلمان مراد کا کہنا ہے کہ بچہ مین ہول میں گرنے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ چکی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں نے غلط بیانی کی، مشینری اور انتظامییہ موجود پر تھی، کچھ شرپسند عناصر نے سیاسی مقاصد کیلئے احتجاج کیا اور گاڑیوں کے شیشے توڑے۔
بچے کے والد نبیل کا کہنا ہے کہ ہم شاہ فیصل کے رہائشی ہیں اور میں اپنی بیوی اور بیٹے کے ہمراہ نیپا شاپنگ مال آیا تھا جب ہم نے شاپنگ کی تو باہر نکلے اور باہر آکر میرا بیٹا ہاتھ چھڑا کر بھاگا۔
والد کا کہنا تھا کہ میری موٹر سائیکل گٹر کے مین ہول کے قریب پارک تھی جبکہ گٹر کے مین ہول پر ڈھکنا موجود نہیں تھا، انہوں نے بتایا کہ میری آنکھوں کے سامنے گٹر میں میرا بیٹا گرا ہے۔
بچے کے والد نے بتایا کہ میرے بیٹے ابراہیم کی عمر تین سال ہے اور یہ میری اکلوتی اولاد تھی۔
بچے کے دادا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ موٹرسائیکل کی پارکنگ فیس لی جاتی ہے لیکن گٹر کا ڈھکن نہیں لگایا جاتا، گورنر سندھ، وزیر اعلیٰ سندھ، مرتضیٰ وہاب ہمارے بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر ریسکیو کا کام کرائیں۔
دوسری جانب واٹر کارپوریشن نے افسوسناک واقعے پر اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی جان سے متعلق ہر ناخوشگوار واقعہ افسوس ناک ہوتا ہے۔
ترجمان واٹر کارپوریشن نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ افسوسناک واقعہ جس مقام پر پیش آیا وہاں واٹر کارپوریشن کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جائے وقوعہ پر نہ سیوریج کی لائن موجود ہے اور نہ ہی واٹر کارپوریشن کا کوئی مین ہول ہے، برساتی نالوں کی دیکھ بحال، مرمت اور صفائی کے امور واٹر کارپوریشن کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں۔