غزہ کی شکار گاہ میں جنگ بندی کا ڈھکوسلا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
سات اکتوبر دو ہزار تئیس سے چوبیس اکتوبر پچیس تک مغربی کنارے پر اسرائیلی فوج اور مسلح یہودی آبادکار ڈھائی سو بچوں سمیت گیارہ سو فلسطینی قتل اور گیارہ ہزار کو زخمی کر چکے ہیں۔جب کہ اس عرصے میں مغربی کنارے پر اکیس ہزار سے زائد گرفتاریاں ہوئی ہیں۔
ہیروشیما شہر کے نصف رقبے کے برابر مشتمل غزہ پر پانچ سے چھ ہیروشیما سائز جوہری بموں کی طاقت کے برابردو بار برسایا جا چکا ہے۔غزہ اس وقت کم ازکم پانچ کروڑ ٹن سے زائد ملبے کا ڈھیر ہے۔ستر ہزار ہلاکتیں تو باضابطہ گنی جا چکی ہیں مگر لگ بھگ دس ہزار لاپتہ لاشیں ملبے تلے دبی پڑی ہیں اور انھیں نکالنے کے لیے جو بھاری مشینری درکار ہے اس کی درآمد پر اسرائیل نے پابندی لگا رکھی ہے۔
جو غیر ملکی ڈاکٹر غزہ یا مغربی کنارے پر زخمیوں کے علاج اور سرجری کے لیے آنا چاہتے ہیں انھیں اسرائیل ویزہ دینے سے انکاری ہے۔ دس اکتوبر کی جنگ بندی سے اب تک اسرائیل چھ سو بار سے زائد اس کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔اس جنگ بندی کے بعد سے اب تک لگ بھگ چار سو مزید فلسطینی شہید اور ایک ہزار سے اوپر زخمی ہو چکے ہیں۔
جنگ بندی سمجھوتے کے تحت روزانہ چھ سو ٹرکوں کو رسد لانے کی اجازت دی جانی تھی مگر اوسطاً ڈیڑھ سو ٹرکوں کو ہی غزہ کے اندر آنے دیا جا رہا ہے۔قحط زدگان کے لیے کھانے پینے کی اشیا کے نام پر گوشت ، ڈیری مصنوعات یا سبزی کے بجائے صرف وہ ڈبہ بند اشیا لانے کی اجازت ہے جن میں بہت کم غذائیت پائی جاتی ہے۔جب کہ ادویات ، خیموں ، گرم کپڑوں اور تعمیراتی میٹریل لانے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔
امدادی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ اس وقت خوراک کی جو مقدار لانے کی اجازت ہے وہ ایک چوتھائی سے بھی کم آبادی کی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزیں ( انرا ) کے سرحد پار گوداموں میں اتنی خوراک پڑی ہے جو غزہ کی پوری آبادی کی تین ماہ کی ضروریات پوری کر سکتی ہے مگر انرا کو اسرائیل نے دھشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔حالانکہ علامی عدالتِ انصاف نے اکتوبر میں جنگ بندی کے بعد یہ رولنگ دے رکھی ہے کہ اسرائیل کسی بھی بین الاقوامی امدادی ایجنسی بشمول انرا کا غزہ میں داخلہ نہیں روک سکتا۔عدالت نے اسرائیل کی یہ دلیل مسترد کر دی کہ انرا غیر جانبدار ادارہ نہیں ۔عدالت کا کہنا ہے کہ انرا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ امدادی ادارہ ہے۔
اگرچہ سترہ نومبر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بیس نکاتی ٹرمپ غزہ امن منصوبے کی منظوری دے دی ہے مگر دو ہفتے گذرنے کے باوجود اس منصوبے کے تحت ٹرمپ کی صدارت میں جو امن بورڈ اور غزہ کا انتظام سنبھالنے کے لیے جو بین الاقوامی عبوری انتظامیہ قائم ہونی تھی اس کا دور دور تک اتا پتہ نہیں۔یہ انتظام بھی اسرائیل کی رضامندی سے تشکیل پانا تھا تاکہ فلسطینیوں پر براہِ راست قبضے کو اسرائیلی حمائیت یافتہ بین الاقوامی قبضے کا روپ دیا جا سکے۔اس عرصے میں اگر کوئی شرپسندی مسلسل ہے تو وہ لگاتار اسرائیلی حملے ہیں جن کی مذمت امریکا سمیت کسی ایک ملک نے بھی کھل کے نہیں کی جو ٹرمپ امن پلان کے ضامن ہیں۔البتہ روائیتی افسوس اور رسمی تشویش کے مشینی بیانات جاری ہیں۔
ایسے غیر یقینی حالات میں بین الاقوامی فورس کی تشکیل بھی مخدوش ہے جسے غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی کی ذمے داریاں سنبھالنی ہیں۔اسرائیل کی شعوری کوشش ہے کہ امن فوج کی تشکیل کی نوبت ہی نہ آئے تاکہ نسل کشی کے لیے ہاتھ کھلا رہے۔ویسے بھی ٹرمپ پلان میں نسل کشی کی روک تھام کا کوئی نکتہ شامل نہیں ۔
نام نہاد جنگ بندی سے بس اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ پہلے اگر روزانہ سو عورتیں ، بچے ، بوڑھے اور جوان شہید ہو رہے تھے اب ان کی تعداد کم ہو گئی ہے مگر غذائی اور انسانی امداد کی ترسیل پر مسلسل پابندی کے سبب نسل کشی کا عمل متبادل طریقوں سے جوں کا توں جاری ہے۔
اس نام نہاد جنگ بندی کا اسرائیل اور اس کی اتحادی حکومتوں کو سب سے بڑا فائدہ پبلک ریلیشننگ کے میدان میں ہوا ہے۔جنگ بندی کے تاثر کے سبب بڑے بڑے مذمتی مظاہرے نہیں ہو رہے۔جن حکومتوں نے علامتی طور پر اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے کا دعوی کیا تھا اب جرمنی سمیت ان ممالک نے حالات کو نارمل فرض کر کے کاغذی پابندیاں بھی ہٹا لی ہیں۔یعنی جنگ بندی نے اسرائیل کی نسل کش پالیسی کو ایک اضافی سیاسی و سفارتی نقاب فراہم کر دیا ہے جسے وہ ہر روز نوچ کر پھینکنے اور پہننے کے لیے پہلے سے زیادہ آزاد ہے۔
اسرائیل کا اس وقت غزہ کے تریپن فیصد علاقے پر مکمل فوجی قبضہ ہے۔نہ ہی ٹرمپ پلان پر پوری طرح عمل درآمد ہو گا اور نہ ہی اسرائیل سے مطالبہ ہو گا کہ وہ منصوبے کے اگلے مرحلے میں اپنی فوجیں مزید پیچھے ہٹائے۔
اسرائیل نے اپنے قبضے کی حدبندی کے لیے ایک خیالی زرد لائن بنا رکھی ہے۔چونکہ یہ خیالی ہے اس لیے روزانہ آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے۔اس کی کوئی واضح حدبندی جان بوجھ کر نہیں کی گئی۔
غزہ کے کسی باشندے کو اس تصوراتی زرد لائن کا معلوم نہیں چنانچہ وہ لاعلمی میں اسرائیلی فوج کا مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔امریکا سمیت کسی بھی اتحادی نے جنگ بندی کے بعد سے آج تک اسرائیل سے مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اس نام نہاد خطِ زرد پر واضح نشانیاں لگائے تاکہ فلسطینی اسے عبور کرنے میں احتیاط برتیں۔
اسرائیل ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اس سے روزانہ کے شکار میں کمی آ سکتی ہے۔حتمی مقصد یہ ہے کہ یا تو تنگ آ کے فلسطینی بچا کھچا علاقہ بھی خالی کر دیں یا پھر انھیں لاشوں میں تبدیل کر کے یہ علاقہ خالی کروا لیا جائے۔جنگ یا جنگ بندی۔دونوں صورتوں میں اسرائیل کا بنیادی ہدف جوں کا توں ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی جنگ بندی کے اسرائیل کی لانے کی کے لیے
پڑھیں:
غزہ اور عالمی طبی برادری کی بے حسی
عالمی ادارہِ صحت نے سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے اکتیس اکتوبر دو ہزار پچیس تک سات ہزار چھ سو مریضوں اور زخمیوں کو غزہ سے نکالا ہے۔ان میں پچھتر فیصد بچے ہیں ( ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق غزہ کی مختصر پٹی میں معذور بچوں کی تعداد رقبے کے اعتبار سے دنیا میں سب سے زیادہ ہے )۔
لیکن اب بھی غزہ میں ایسے زخمیوں اور بیماروں کی تعداد سولہ ہزار سے اوپر ہے جن کا علاج صرف بیرونِ ملک ہی ممکن ہے کیونکہ غزہ میں تو زخموں پر لپیٹنے کی پٹی تک میسر نہیں۔امید تھی کہ دس اکتوبر کی جنگ بندی کے بعد ایمرجنسی انخلا میں تیزی آئے گی یا کم ازکم طبی رسد بلارکاوٹ پہنچ سکے گی۔مگر غزہ میں آمدورفت کے تمام راستے اسرائیلی فوجی کنٹرول میں ہیں۔ اسرائیل ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا زخمی باہر جا سکتا ہے اور کون نہیں۔اس پالیسی کے سبب جنگ بندی کے بعد کے چار ہفتوں میں صرف اکتالیس خوش نصیب مریضوں کو باہر جانے کی اجازت مل سکی۔
اس بارے میں محض اسرائیل ہی قصور وار نہیں۔جن ممالک کو ان مریضوں کو بغرض علاج داخلے کی اجازت دینی چاہیے وہ بھی مجرمانہ ہچکچاہٹ میں مبتلا ہیں۔چنانچہ مریضوں کو غزہ سے باہر جانے کی اجازت مل بھی جائے تو وہ کہاں جائیں ، جب تک کے انھیں کوئی لینے والا یا اسپانسر نہ ہو۔
متبادل طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہزاروں مریضوں کی باہر منتقلی کے انتظار کے بجائے غزہ میں عارضی خیمہ اسپتال قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔جہاں بیرونی ڈاکٹروں کی رضاکار ٹیمیں ان مریضوں کی فوری دیکھ بھال کر سکیں۔مگر یہ کہنا آسان ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ میں طبی سازو سامان سمیت ایسی تمام اشیا اور مٹیریل لانے پر دو ہزار آٹھ سے پابندی عائد کر رکھی ہے جس کے دوہرے استعمال ( سویلین و فوجی ) کا احتمال ہو۔
ٹینٹ نصب کرنے کے بانس ، آرتھو پیڈک آلات ( ڈرل مشین ، اسکرو ، دھاتی پلیٹیں وغیرہ ) ، آکسیجن سلنڈرز ، اوگزی میٹر ، حلق میں ڈالنے والی اور چیسٹ ٹیوبز ، الٹرا ساؤنڈ یونٹس، ڈائلسس مشینوں کی بیٹریاں ، سرنجیں ، مارفین اور کیٹامائن جیسے طاقت ور پین کلرز ، پانی صاف کرنے کا میٹریل ، فی ڈاکٹر ایک سے زائد موبائل فون اور لیپ ٹاپ نہ لانے سمیت ایک طویل ممنوعہ فہرست ہے۔ان میں سے بہت سا سامان غزہ میں لانے کے لیے خصوصی اجازت نامہ درکار ہے اور اس اجازت نامے کے لیے درخواست عالمی ادارہِ صحت کے توسط سے ہی دی جا سکتی ہے۔اب اسرائیل کی صوابدید ہے کہ وہ اس درخواست کو کب کلی یا جزوی مانتا ہے یا پھر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے۔
اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جو اشیا میں نے گنوائی ہیں ان میں سے کون کون سے طبی آلات یا مواد سے بم بھی بنایا جا سکتا ہے ؟ یہ سوال تب بھی اٹھا تھا جب امریکا نے انیس سو نوے کی دہائی میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر سواری گانٹھتے ہوئے عراق کے خلاف جو تادیبی پابندیاں لگائی تھیں ان کے تحت دوہرے استعمال کی اشیا کی فہرست میں سکے والی پنسل ، پین میں استعمال ہونے والی روشنائی اور بچوں کا خشک دودھ بھی شامل تھا۔
ڈاکٹروں کی ایسی بہت سی موثر عالمی تنظیمیں ہیں جن کی آواز سے شاید کچھ بہتری ممکن ہے۔
مگر ان دو برسوں میں ان تنظیموں کی خاموشی نے سفاکی کی مزید حوصلہ افزائی کی۔
مثلاً بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن ، امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن اور امریکن سائیکاٹرسٹس ایسوسی ایشن نے یوکرین پر روسی حملے میں ہونے والی انسانی تباہی اور سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو جنوبی اسرائیل پر حماس کی یلغار پر تو تشویش ظاہر کی تاہم غزہ کے طبی شعبے کی اسرائیل کے ہاتھوں مکمل تباہی پر ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔
برطانیہ میں ڈاکٹروں نے غزہ کی طبی تباہی کے خلاف صرف ایک بار سینٹ تھامس اسپتال لندن کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔اس کا اہتمام ہیلتھ کیر ورکرز واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کیا تھا۔
سرکردہ فرانسیسی تنظیم ایم ایس ایف ( ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز ) اگرچہ انیس سو پچاس کی دہائی میں الجزائر کی خانہ جنگی کے دوران بالکل خاموش رہی مگر نوے کی دہائی میں روانڈا کے قتلِ عام کے موقع پر ایم ایس ایف نے پہلی بار محسوس کیا کہ غیر جانبداری اور خاموشی میں فرق ہے۔چنانچہ ایم ایس ایف نے متعدد بار غزہ میں ’’ طبی قتلِ عام ‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا۔آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی محض ایک چوتھائی میڈیکل ایسوسی ایشنز نے گول مول انداز میں غزہ میں ہونے والی تباہی کو ’’ افسوس ناک ‘‘ قرار دیا۔
موقر طبی جریدوں میں برٹش میڈیکل جنرل واحد رسالہ ہے جس نے اس عرصے میں فلسطینیوں کی صحت کے بارے میں کچھ تحقیقی مضامین شایع کیا اور خود پر اسرائیل مخالف ہونے کے الزام کا ٹھپا بھی لگوایا۔
طبی دنیا کا سب سے پرانا اور موقر امریکی جریدہ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن اٹھارہ سو بارہ سے شایع ہو رہا ہے۔اس جرنل میں کسی مقالے کا شایع ہونا اعزاز سے کم نہیں۔مگر یہ جریدہ بھی انٹلکچوئل بددیانتی کے دھبے سے نہ بچ سکا جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ جرنل انیس سو تیس اور چالیس کے عشرے میں جرمن نازیوں کی ہیلتھ پالیسی اور امتیازی سلوک کے بارے میں نہ صرف خاموش رہا بلکہ اس میں شایع ہونے والے ایک مضمون میں نازی جرمنی کی صحتِ عامہ پالیسی کو سراہا بھی گیا۔
اس تنقید کو نہ صرف نیو انگلینڈ جرنل نے قبول کیا بلکہ دسمبر دو ہزار تئیس میں یہ اعترافی نوٹ بھی شایع کیا کہ میڈیکل جرنل اور بہت سی طبی ایسوسی ایشنز تاریخی طور پر رنگ ، نسل ، عقیدے کی بنیاد پر ہونے والی زیادتیوں کا یا تو دفاع کرتے رہے ہیں یا پھر خاموش رہے ہیں۔
اس معذرت کے باوجود غزہ میں طبی شعبے کی مکمل تباہی ، طبی عملے کی ہلاکتوں ، ٹارچر اور اغوا کی کبھی مذمت نہیں ہوئی۔بس ایک مضمون کی ایک سطر میں یہ لکھا گیا کہ ’’ غزہ کے طبی مراکز پر حملے افسوس ناک ہیں اور بدقسمتی سے جنگ کا زیلی نتیجہ ہیں ‘‘۔
غزہ پر نیوانگلینڈ جرنل میں گزشتہ مارچ میں صرف ایک مضمون شایع ہوا ’’ غزہ اور اعتماد کی بحالی کی راہ ‘‘۔اس مضمون کے خالق جانے کس دنیا میں رہ رہے تھے جب انھوں نے لکھا کہ غزہ اور اسرائیل کے طبی شعبے میں باہمی اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فلسطینی ڈاکٹر جدید اسرائیلی طبی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر مریضوں کا بہتر علاج کر سکیں۔یہ ’’ تحقیقی مقالہ ‘‘ چار ماہرین نے مشترکہ طور پر لکھا۔ان میں سے ایک نوم ایلون تین برس تک اسرائیلی فوج کے اسپیشل انٹیلی جینس یونٹ سے منسلک رہا اور اس کا پبلک ہیلتھ کے شعبے میں کام کا کوئی تجربہ نہیں۔
شہرہِ آفاق فرنچ فلاسفر اور ماہرِ نفسیات فرانز فینن کے بقول طبی پیشے کی روح اگرچہ انسانیت نوازی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پیشہ بھی نوآبادیاتی تسلط اور استحصالی پرزے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔