صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت اسپتال مختلف نامکمل طبی سہولتوں کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے ضلعی اسپتال مختلف مسائل اور نامکمل طبی سہولتوں کا شکار ہیں، 70 سال گزرنے کے باوجود سندھ میں پرائمری اور سیکنڈری اسپتالوں کا بنیادی ڈھانچہ بھی مکمل نہیں کیا جاسکا اور کراچی کی ضلعی اسپتالوں میں مختلف حادثات میں رپورٹ ہونے والے زخمیوں کے علاج کے لیے ٹراما سینٹر بھی نہیں بنائے جاسکے۔
سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اور سعود آباد اسپتال میں ٹراما سینٹر بنائے جانے تھے لیکن آج تک ان دونوں اسپتالوں میں ٹراما سینٹر نہیں بنایا جاسکا۔ کراچی کے ضلعی اسپتالوں سیکڑوں اسامیاں آج بھی خالی پڑی ہیں۔ نصف صدی سے زائد گزرنے کے باوجود بھی ضلعی اسپتالوں میں بہتری نہیں لائی جاسکی۔
2000 میں سندھ کے سابقہ نگراں وزیر صحت پروفیسر ایس ایم رب نے کراچی کے 4 ضلعی اسپتالوں کو ڈاؤ میڈیکل کالج سے الحاق کرکے ان ضلعی اسپتالوں کو ٹیچنگ اسپتالوں کا درجہ دینے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس نوٹیفکیشن پر آج تک عمل درآمد نہیں کیا جاسکا، جس میں کہا گیا تھا کہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی فیکلٹی ضلعی اسپتالوں میں جاکر مریضوں کو طبی سروس فراہم کرے گی۔
ان ضلعی اسپتالوں کو ٹیچنگ اسپتالوں کا درجہ دینے سے سینئر پروفیسر حضرات کی مریضوں کو طبی سروسز میسر آتی لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا جس کی وجہ سے آج بھی ان ضلعی اسپتالوں میں معمولی روٹین ٹیسٹ اور ابتدائی علاج کیا جارہا ہے جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے انہیں ادویات کا سالانہ بجٹ بھی فراہم کیا جاتا ہے لیکن ان ضلعی اسپتالوں میں ایم آر آئی۔ سی ٹی اسکین، پیڈ سی ٹی، کلر ڈوپلر سمیت مختلف پروسیجر ٹیسٹوں کی سہولتیں ناپید ہیں، یہی وجہ ہے کہ مریض اپنے مرض کی تشخیص اور علاج کے لیے سول اور جناح کا رخ کرتے ہیں جہاں پہلے ہی سے صوبے بھر کے مریضوں کا دباؤ موجود ہوتا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سول اسپتال کی او پی ڈی میں یومیہ 5 سے 6 ہزار مریض جبکہ جناح اسپتال میں بھی مریضوں کی یہی تعداد یومیہ اپنے چیک اپ اور مرض کی تشخیص کے لیے رپورٹ ہوتی ہے۔
اس وقت کراچی میں ضلعی اسپتالوں میں سندھ گورنمنٹ نیوکراچی اسپتال، سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال، سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال، سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال، سندھ گورنمنٹ ابراھیم حیدری اسپتال شامل ہیں جبکہ کراچی کے دیگر ضلعوں میں قائم صحت کے مراکز و میٹرنٹی ہومز اور کراچی کے دیہی علاقوں میں قائم صحت کے مراکز میں یہ تمام سہولتیں میسر نہیں ہیں۔
ان ضلعی اسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکزوں میں یہ کمی نہ صرف مریضوں کی بروقت تشخیص میں رکاوٹ بن رہی ہے بلکہ بڑے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے شدید دباؤ کا سبب بنتی ہے۔ ان ضلعی اسپتالوں میں ریڈیولوجی کی مناسب سہولیات کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ ٹیکنیشن کی سہولت بھی ناپید ہے۔
نیو کراچی کے رہائشی محمد اسلم نے بتایا کہ وہ سندھ گورنمنٹ نیوکراچی اسپتال اپنے ریڑھ کی ہڈی کے تکلیف کا چیک اپ کرانے گیا۔ وہاں موجود ڈاکٹر نے معائنے کے بعد ایم آر آئی تجویز گیا لیکن اسپتال میں ایم آر آئی کی سہولت میسر نہیں تھی۔نجی ادارے سے ایم آر آئی کے لیے رجوع کیا جس کی قیمت 20 ہزار روپے بتائی گئی، جناح اسپتال میں جب ایم آر آئی کرانے پہنچا تو اسپتال انتظامیہ نے مجھے ایک ماہ بعد کی تاریخ دی۔ کمر کے تکلیف شدت اختیار کررہی تھی جس کے بعد میں نے ادھار پیسے لے کر اپنا ایم آر آئی کرایا تو معلوم ہوا کہ کمر کے مہروں کی وجہ سے ٹانگوں میں آنے والی خون کی شریانوں پر شدید دباؤ ہے جس کی وجہ سے میری ٹانگیں سن رہتی ہیں اور کمر میں درد رہتا ہے۔
محمد اسلم نے بتایا کہ کراچی کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں اسپائنل کارڈ کی سرجری نہیں ہوتی کیونکہ ان اسپتالوں میں اسپائنل کارڈ کے سرجن موجود نہیں۔
ملیر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون عالیہ نے بتایا کہ میری بڑی بہن کو یوٹیرس کینسر کا مرض لاحق ہے جس کی وجہ سے میں اسے سندھ گورنمنٹ سعودآباد اسپتال ملیر لے کر گئی، لیڈی ڈاکٹر کے معائنے کے بعد ایم آر آئی کرانے کی ہدایت کی۔ کورنگی اسپتال میں ایم آر آئی کی سہولت موجود نہیں تھی جبکہ انہوں نے کینسر کی تشخیص کے لیے بائیپوسی ٹیسٹ کا بھی کہا تھا، اسپتال میں بائیپوسی کی بھی سہولت موجود نہیں تھی، نجی اسپتال سے معلوم کیا تو اس مرض کی تشخیص ہماری دسترس سے باہر تھی۔ مجبوراً مخیر ادارے سے رابطہ کیا جس پر انہوں نے میری بہن کے طبی ٹیسٹ کرائے۔
عالیہ نے بتایا کہ جب حکومت سندھ غریبوں کے علاج کے نام پر ان اسپتالوں کو کڑوروں روپے کا بجٹ فراہم کرتی ہے لیکن سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اسپتالوں کا کیا فائدہ جہاں پر غریب مریضوں کا علاج ہی نہ ہوسکے۔
سندھ گورنمنٹ سعودآباد ملیراسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر آغا عامر کے مطابق اسپتال میں 180 بستر موجود ہیں، 16 کروڑ سے زائد روپے ادویات کا بجٹ ہے۔ اسپتال میں ایم آئی آئی او سی ٹی اسکین کی کوئی سہولت نہیں کیونکہ یہ سیکنڈری اسپتال ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعود آباد اسپتال میں ٹراما سینٹر اور سائیکٹری یونٹ بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ 4 سال پہلے ٹراما سینٹر چلانے کے لیے کروڑوں روپے مالیت کی مشینری اور دیگر سامان بھی خریدا گیا تھا جو ابھی تک استعمال نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ضلع ملیر کی آبادی 24 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایم آئی آئی او سی ٹی اسکین مریضوں کو جناح یا سول اسپتال ریفر کیا جاتا ہے۔
سندھ گورنمنٹ نیوکراچی اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر علی مرتضی نے بتایا کہ اسپتال میں مریضوں کے لیے 200 بستر مختص ہیں لیکن اسپتال کی سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ محکمہ صحت اسپتال ادویات کی مد میں 12 کروڑ روپے سے زائد اسپتال کو فراہم کرتا ہے، اسپتال میں آنے والے مریضوں کی ہر مکمن سہولت فراہم کی جاتی ہے جبکہ پیچیدہ امراض کے مریضوں اور سول اور جناح اسپتال ریفر کیا جاتا ہے۔
سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر عتیق قریشی نے بتایا کہ اسپتال کی سی ٹی اسکین مشین گزشتہ 5 سال سے خراب ہے۔ اس حوالے سے محکمہ صحت کو متعد بار آگاہ کیا گیا لیکن ابھی تک سی ٹی اسکین مشین خراب ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2023 میں نگراں وزیر اعلی سندھ مقبول باقر نے اسپتال کو دورہ کیا تھا۔ انہوں نے بھی سی ٹی اسکین مشین کے حوالے سے معلومات حاصل کی تھی۔ ان کو بتایا گیا کہ مشین خراب پڑی ہے جس پر انہوں نے مشین کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم اس پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا۔
ڈاکٹر عتیق نے بتایا کہ سابق وزیر شعیب بخاری نے 2004 میں لیاقت آباد اسپتال میں ایڈوانس ایمرجنسی ٹراما سینٹر کی عمارت کا افتتاح کیا تھا لیکن اس سینٹر کو چلانے کے لیے SNE منظور نہیں کی جاسکی تھی اور آج بھی اس کی SNE منظور نہیں کی جاسکی۔ ایڈوانس ایمرجنسی ٹراما سینٹر کو چلانے کے لیے ماہرین کا اسٹاف درکار ہوتا ہے جو ہمیں محکمہ صحت سے نہیں ملا جس کی وجہ سے ٹراما سینٹر کی عمارت میں پرامیڈک اور نرسنگ اسکول قائم ہوگئے جبکہ لیاقت آباد اسپتال میں ٹراما سینٹر کی شدید ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیاقت اسپتال 200 بستروں پر موجود ہے اور ہمیں ادویات کی مد میں سالانہ ساڑے 6 کروڑ روپے فراہم کیے جاتے ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔
واضع رہے کہ سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال میں سی ٹی اسکین مشین مہینے میں 20 دن خراب رہتی ہے جس کی وجہ سے کورنگی کی مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک مریض جاوید نے بتایا کہ سی ٹی اسکین کرنے کی ضرورت پڑی جب کورنگی اسپتال گیا تو معلوم چلا کہ مشین خراب ہے، ایک ہفتے بعد دوبارہ اسپتال پہنچا تب بھی مشین خراب تھی۔ بعدازاں سی ٹی اسکین کرانے جناح اسپتال گیا تو ایک ماہ بعد کی تاریخ ملی۔
جاوید نے محکمہ صحت سے مطالبہ کیا کہ ضلعی اسپتالوں سی ٹی اسکین مشین کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لیاقت آباد اسپتال ضلعی اسپتالوں میں ان ضلعی اسپتالوں سی ٹی اسکین مشین آباد اسپتال میں انہوں نے کہا کہ کورنگی اسپتال سندھ گورنمنٹ جناح اسپتال اسپتالوں کا جس کی وجہ سے اسپتالوں کو نے بتایا کہ موجود نہیں ایم آر آئی مریضوں کو کی سہولت کی تشخیص کراچی کے میں ایم نہیں کی صحت کے کے لیے
پڑھیں:
کراچی کو یا تو وفاق کے ماتحت کیا جائے ورنہ کراچی کو الگ صوبہ بنایا جائے، فاروق ستار
جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سینئر مرکزی رہنما نے کہا کہ ہم وفاق سے کراچی اور پاکستان والوں کی دہلیز پر انکے مسائل حل کرنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں اور اگر یہ کوشش کام نہیں آئی تو ہم سڑکوں پر نکل کر اپنی طاقت سے مسائل حل کروانا جانتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ 1940ء سے لے کر آج تک ہماری ماؤں بہنوں نے لاکھوں جانوں کی قربانی دیکر اس ملک کو بنایا اور آج پاکستان بنانے والوں کی اولادیں آج ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خاتمے کیلئے صرف ایم کیو ایم پاکستان کو دیکھتی ہیں، کراچی سمیت پورے ملک کے عوام ہم سے امید لگائے ہوئے ہیں، آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم سر اٹھا کر چلیں گے یا ہمیں سر جھکا کر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رہنا ہے، ظالم کے آگے حق کی آواز بلند نہ کرنا بھی ایک ظلم ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے مزید کہا کہ آج ہم ملیر کے عوام کیلئے کچھ ریلیف فراہم کرنے کا آغاز کر رہے ہیں، ہم انکی دہلیز پر موجود مسائل کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم انکے ساتھ تعلیمی میدان میں ہونے والی ناانصافییوں کو بھی ختم کرینگے، ہم آج کچھ ارب روپے کراچی کے عوام کے مسائل حل کیلئے لائے ہیں لیکن سب کو سوچنا چاہیئے کہ ہزاروں ارب روپے وفاق کو دینے والے کراچی کو 50 ارب دیکر کوئی احسان نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کو پینے کے پانی سمیت تمام مسائل حل کرنے کیلئے ہم وفاق میں جدوجہد کر رہے ہیں اور بہت جلد ہم ان تمام مسائل کو حل کرکے دکھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے حصے کے جو 20 ہزار ارب سندھ حکومت اور 5 ہزار کے ایم سی کو جو ملے ہیں اس کا حساب چاہیئے، ہم 140-A کو مزید بہتر بنانے کے لئے مزید آئینی ترامیم کرنے پر زور دے رہے ہیں، یہ تمام پیسے خرچ کرنے کا اختیارات میئر کو دیں، ہم وفاق سے کراچی اور پاکستان والوں کی دہلیز پر انکے مسائل حل کرنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں اور اگر یہ کوشش کام نہیں آئی تو ہم سڑکوں پر نکل کر اپنی طاقت سے مسائل حل کروانا جانتے ہیں، ریڈ لائن، کے فور سمیت ہزاروں پروجیکٹ کو اب تک مقررہ وقت پر کیوں اس متعصب پیپلز پارٹی نے پورا نہیں کیا، میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں اگر کراچی کو اسکا حق نہیں دیا جائیگا تو کراچی کو یا تو وفاق کے ماتحت کیا جائے ورنہ کراچی کو الگ صوبہ بنایا جائے اور سندھ کے تمام اضلاع کو الگ انتظامی یونٹ میں تبدیل کیا جائے۔