پروفیسر خیال آفاقی کی کتاب ’’ بچوں کے اقبال ‘‘ نہ صرف اقبال شناسی کا ایک دل کش باب ہے بلکہ بچوں کی تعلیمی و اخلاقی تربیت کے حوالے سے ایک سنجیدہ اور پُر اثرکاوش بھی ہے۔
کتاب کا مقصد نئی نسل کو علامہ اقبال کی حیات، فکر اور اخلاقی تعلیمات سے اس انداز میں روشناس کرانا ہے کہ وہ اُن کے افکار کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ اُن پر عمل بھی کرسکیں۔
مصنف نے بچوں کے فہم کے مطابق علامہ اقبال کی چند مشہور نظموں مثلاً مکڑا اور مکھی، بچہ اور بلبل، پرندے کی فریاد، وغیرہ کو نہایت سادہ، دل چسپ اور سبق آموز انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہر نظم کے بعد خیال آفاقی بچوں کو اس نظم کا اخلاقی سبق اور زندگی کا پیغام عام فہم الفاظ میں سمجھاتے ہیں۔ اس طرح کتاب نہ صرف ادبی لذت فراہم کرتی ہے بلکہ تربیتی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
کتاب کا بنیادی موضوع فکرِ اقبال کا بچوں کے ذہن و کردارکی تعمیر میں کردار ہے۔ پروفیسر خیال آفاقی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اپنی نظموں کے ذریعے بچوں میں خود اعتمادی، ایمان، عزم، حوصلہ، اخلاق اور عقلِ سلیم کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کا ایک مرکزی پیغام یہ ہے کہ لالچ، مکاری، جھوٹ اور دھوکے سے بچنا چاہیے اور سچائی، بہادری، علم اور دیانت داری اپنانا چاہیے۔
مصنف نے اقبال کے اشعارکو کہانیوں کے پیرائے میں ڈھال کر بچوں کو عملی زندگی کی سچائیاں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
’’بچوں کے اقبال‘‘ کی ساخت روایتی نصابی کتابوں سے مختلف مگر سلیس اور پرکشش ہے۔ کتاب کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ابتدا میں اقبال کی مختصر سوانح عمری دی گئی ہے تاکہ بچے اُن کی شخصیت کو پہچان سکیں۔
اس کے بعد اقبال کی منتخب نظموں کو پیش کیا گیا ہے اور ہر نظم کے بعد خیال آفاقی اُس نظم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اخلاقی سبق اور عملی زندگی سے تعلق کو واضح کرتے ہیں۔
ہیئت کے اعتبار سے کتاب کہانی اور نصیحت کا حسین امتزاج ہے۔ بچوں کے دلچسپ ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے مصنف نے شعری مواد کو قصوں اورکہانیوں کی صورت میں بیان کیا ہے تاکہ وہ پڑھنے والے کے ذہن پر دیرپا اثر چھوڑے۔
پروفیسر آفاقی کی نثر میں بچوں کے ادب کے تمام فنی عناصر شامل ہیں جن میں سادگی اور روانی سر فہرست ہیں۔ زبان نہایت سادہ، سہل اور با محاورہ ہے تاکہ کم عمر قاری مفہوم کو آسانی سے سمجھ سکے۔
کتاب کی دوسری خونی کہانی سنانے کا نیا اسلوب ہے۔ نظموں کی تشریح میں مصنف نے قصے کا انداز اختیارکیا ہے جو بچوں کو تجسس اور دلچسپی میں مبتلا رکھتا ہے۔
تیسری خوبی تمثیل اور مکالمہ ہے۔ ’’ مکڑا اور مکھی‘‘ جیسی نظموں کی تشریح میں مکالماتی انداز بچوں کو براہِ راست منظر میں لے آتا ہے۔ ہر نظم یا کہانی کے اختتام پر ایک اخلاقی سبق بیان کیا گیا ہے جو کتاب کی تربیتی روح کو واضح کرتا ہے۔
پروفیسر خیال آفاقی نے اقبال کی علامتی شاعری کو بچوں کی فہم کے مطابق کھولنے میں فنی مہارت دکھائی ہے، یوں یہ کتاب محض تشریح ہی نہیں بلکہ ادب اطفال کے جدید بیانیہ اسلوب کی نمایندہ بھی ہے۔
اقبال کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں نے ادب میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ‘ یہ نظمیں بہت پسند کی گئیں‘ یہ صرف نظمیں ہی نہیں بلکہ ان میں زندگی کا پیغام اور مقصد بھی چھپا ہوا ہے۔
پروفیسر خیال آفاقی اردو ادب میں ایک متنوع تخلیق کار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اُن کے علمی و ادبی کارناموں میں سیرت نگاری، نعتیہ و حمدیہ شاعری، افسانہ نگاری، ناول نگاری اور اقبالیات پر تحقیقی کام شامل ہیں۔
اُن کی دیگر تصانیف مثلاً شاعرِ اسلام، نشانِ اقبال، آذانِ اقبال، احد احد، عودِ سخن، یا سیدی صلی اللہ علیہ وسلم، سورج کی چھاؤں، وغیرہ اُن کی فکری گہرائی اور مذہبی وابستگی کی عکاس ہیں۔
’’بچوں کے اقبال‘‘ اُن کی اقبالیاتِ اطفال کے ضمن میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اس کتاب میں اقبال کی نظم ’’ مکڑا اور مکھی‘‘ کی تشریح خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔
خیال آفاقی نے مکڑے کی مکارانہ باتوں کے پس منظر میں آج کے سماجی دھوکے بازوں، جھوٹی اسکیموں اور لالچ کی فضا کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ اُن کا مقصد محض نظم کی تشریح نہیں بلکہ معاصر معاشرتی مسائل کو اخلاقی اور اقبالی نقطہ نظر سے اجاگرکرنا ہے۔
مصنف کے نزدیک اقبال کی نظموں میں بچوں کے لیے نصیحت، بصیرت اور شعور کی تربیت کے ایسے پہلو موجود ہیں، جو ہر زمانے کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔
وہ بچوں کو صرف نظم یاد کرانے کے قائل نہیں بلکہ اُن کے پیغام کو سمجھنے اور زندگی میں لاگو کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہی پہلو اس کتاب کو عام تشریحی کتب سے ممتاز بناتا ہے۔ خیال آفاقی کے نزدیک اقبال کا پیغام بچوں کے دلوں میں اعتماد، خودی، اور خدمتِ خلق کے جذبات پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔
’’بچوں کے اقبال‘‘ اردو ادبِ اطفال میں ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ یہ کتاب محض ایک ادبی یا نصابی تحریر ہی نہیں بلکہ فکرِ اقبال کے احیاء اور اخلاقی تربیت کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
پروفیسر خیال آفاقی نے سادہ زبان، مختصر واقعات، اور سبق آموز تجزیے کے ذریعے بچوں کے ذہنوں میں اقبال کی محبت اور نظریہ پاکستان کے شعور کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
کتاب کی اشاعت پر میں مصنف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ راحیل پبلیکیشنز کی یہ اشاعت اپنے تعلیمی و اخلاقی مقصد کے باعث نہ صرف اسکولوں بلکہ والدین کے لیے بھی قابلِ مطالعہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بچوں کے اقبال کوشش کی ہے نہیں بلکہ کی تشریح اقبال کی کرنے کی بچوں کو کے لیے بلکہ ا
پڑھیں:
پاکستان میں اشرافیہ اصلاحات اور معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ
کراچی:ترقی پذیر ممالک میں ایلیٹ کی گرفت کوئی انوکھی بات نہیں مگر پاکستان میں یہ رجحان کہیں زیادہ گہرا، وسیع اور مالیاتی طور پر نقصان دہ صورت اختیار کر چکاہے۔
آئی ایم ایف کے تازہ سیاسی معیشت کے تجزیے کے مطابق پاکستان میں اقتدار اورفوائد پرقبضہ کسی ایک طبقے کانہیں بلکہ مختلف طاقتور گروہوں،عسکری اداروں، سیاسی خانوادوں، بڑے زمینداروں، تحفظ یافتہ صنعتی لابیوں اور شہری تجارتی مراکزکے درمیان بٹ چکاہے.
یہ گروہ ایک متحدہ اشرافیہ کی طرح نہیں بلکہ مسابقتی مفاداتی بلاکس کی شکل میں کام کرتے ہیں جو ریاستی فیصلوں کوکمزور اورمعاشی پالیسیوں کوغیر مربوط بناتے ہیں۔ نتیجتاً اصلاحات بار بار رک جاتی ہیں، ٹیکس کادائرہ نہیں بڑھ پاتا اور ریاست مسلسل مالیاتی بحران کاشکاررہتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹیکس چھوٹ،مراعاتی ٹیرف، پسندیدہ صنعتوں کیلیے سبسڈیز اور بڑے غیر رسمی کاروباری طبقات کی حفاظت نے قومی آمدنی کوشدیدنقصان پہنچایاہے۔ جہاں دیگر ممالک بحرانوں کے بعدٹیکس اصلاحات پر زوردیتے ہیں، پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب جوں کا توں یا بدتر ہوجاتاہے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں ایلیٹ کی گرفت صرف معاشی نہیں، بلکہ گہرے سیاسی و ادارہ جاتی ڈھانچے میں پیوست ہے۔ سول و عسکری عدم توازن،سیاسی انتشار اور بیوروکریسی کی جمودی سوچ اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
تجزیے میں سفارش کی گئی ہے کہ پاکستان کو روایتی اصلاحاتی نسخے نہیں،بلکہ ایک ایسے فریم ورک کی ضرورت ہے،جو سیاسی حقیقتوں کے مطابق ہو،جیسے ٹیکس نظام کی ڈیجیٹل اصلاح،مراعات کے بجائے کارکردگی پر مبنی سہولیات،سنگاپور ماڈل کے مطابق ایس او ایز کی غیر سیاسی نگرانی،شفاف معاشی فیصلہ سازی کے فورمز اور سب سے بڑھ کر پائیدارسیاسی استحکام ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کی مشکل محض ایلیٹ کی گرفت نہیں بلکہ ’’ ایلیٹ ان ٹینگلمنٹ‘‘ ہے جس میں طاقت تقسیم تو ہے مگر تبدیلی کے خلاف متحد ہے، تاہم محتاط،مرحلہ وار اور سیاسی طور پر ہم آہنگ اصلاحات کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنایاجاسکتاہے۔