Express News:
2025-10-18@22:29:38 GMT

بچوں کے اقبال

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

پروفیسر خیال آفاقی کی کتاب ’’ بچوں کے اقبال ‘‘ نہ صرف اقبال شناسی کا ایک دل کش باب ہے بلکہ بچوں کی تعلیمی و اخلاقی تربیت کے حوالے سے ایک سنجیدہ اور پُر اثرکاوش بھی ہے۔

کتاب کا مقصد نئی نسل کو علامہ اقبال کی حیات، فکر اور اخلاقی تعلیمات سے اس انداز میں روشناس کرانا ہے کہ وہ اُن کے افکار کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ اُن پر عمل بھی کرسکیں۔

 مصنف نے بچوں کے فہم کے مطابق علامہ اقبال کی چند مشہور نظموں مثلاً مکڑا اور مکھی، بچہ اور بلبل، پرندے کی فریاد، وغیرہ کو نہایت سادہ، دل چسپ اور سبق آموز انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

ہر نظم کے بعد خیال آفاقی بچوں کو اس نظم کا اخلاقی سبق اور زندگی کا پیغام عام فہم الفاظ میں سمجھاتے ہیں۔ اس طرح کتاب نہ صرف ادبی لذت فراہم کرتی ہے بلکہ تربیتی حیثیت بھی رکھتی ہے۔

کتاب کا بنیادی موضوع فکرِ اقبال کا بچوں کے ذہن و کردارکی تعمیر میں کردار ہے۔ پروفیسر خیال آفاقی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اپنی نظموں کے ذریعے بچوں میں خود اعتمادی، ایمان، عزم، حوصلہ، اخلاق اور عقلِ سلیم کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

کتاب کا ایک مرکزی پیغام یہ ہے کہ لالچ، مکاری، جھوٹ اور دھوکے سے بچنا چاہیے اور سچائی، بہادری، علم اور دیانت داری اپنانا چاہیے۔

مصنف نے اقبال کے اشعارکو کہانیوں کے پیرائے میں ڈھال کر بچوں کو عملی زندگی کی سچائیاں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

’’بچوں کے اقبال‘‘ کی ساخت روایتی نصابی کتابوں سے مختلف مگر سلیس اور پرکشش ہے۔ کتاب کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ابتدا میں اقبال کی مختصر سوانح عمری دی گئی ہے تاکہ بچے اُن کی شخصیت کو پہچان سکیں۔

اس کے بعد اقبال کی منتخب نظموں کو پیش کیا گیا ہے اور ہر نظم کے بعد خیال آفاقی اُس نظم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اخلاقی سبق اور عملی زندگی سے تعلق کو واضح کرتے ہیں۔

ہیئت کے اعتبار سے کتاب کہانی اور نصیحت کا حسین امتزاج ہے۔ بچوں کے دلچسپ ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے مصنف نے شعری مواد کو قصوں اورکہانیوں کی صورت میں بیان کیا ہے تاکہ وہ پڑھنے والے کے ذہن پر دیرپا اثر چھوڑے۔

پروفیسر آفاقی کی نثر میں بچوں کے ادب کے تمام فنی عناصر شامل ہیں جن میں سادگی اور روانی سر فہرست ہیں۔ زبان نہایت سادہ، سہل اور با محاورہ ہے تاکہ کم عمر قاری مفہوم کو آسانی سے سمجھ سکے۔

کتاب کی دوسری خونی کہانی سنانے کا نیا اسلوب ہے۔ نظموں کی تشریح میں مصنف نے قصے کا انداز اختیارکیا ہے جو بچوں کو تجسس اور دلچسپی میں مبتلا رکھتا ہے۔

تیسری خوبی تمثیل اور مکالمہ ہے۔ ’’ مکڑا اور مکھی‘‘ جیسی نظموں کی تشریح میں مکالماتی انداز بچوں کو براہِ راست منظر میں لے آتا ہے۔ ہر نظم یا کہانی کے اختتام پر ایک اخلاقی سبق بیان کیا گیا ہے جو کتاب کی تربیتی روح کو واضح کرتا ہے۔

پروفیسر خیال آفاقی نے اقبال کی علامتی شاعری کو بچوں کی فہم کے مطابق کھولنے میں فنی مہارت دکھائی ہے، یوں یہ کتاب محض تشریح ہی نہیں بلکہ ادب اطفال کے جدید بیانیہ اسلوب کی نمایندہ بھی ہے۔

اقبال کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں نے ادب میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ‘ یہ نظمیں بہت پسند کی گئیں‘ یہ صرف نظمیں ہی نہیں بلکہ ان میں زندگی کا پیغام اور مقصد بھی چھپا ہوا ہے۔

پروفیسر خیال آفاقی اردو ادب میں ایک متنوع تخلیق کار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اُن کے علمی و ادبی کارناموں میں سیرت نگاری، نعتیہ و حمدیہ شاعری، افسانہ نگاری، ناول نگاری اور اقبالیات پر تحقیقی کام شامل ہیں۔

اُن کی دیگر تصانیف مثلاً شاعرِ اسلام، نشانِ اقبال، آذانِ اقبال، احد احد، عودِ سخن، یا سیدی صلی اللہ علیہ وسلم، سورج کی چھاؤں، وغیرہ اُن کی فکری گہرائی اور مذہبی وابستگی کی عکاس ہیں۔

’’بچوں کے اقبال‘‘ اُن کی اقبالیاتِ اطفال کے ضمن میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اس کتاب میں اقبال کی نظم ’’ مکڑا اور مکھی‘‘ کی تشریح خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

خیال آفاقی نے مکڑے کی مکارانہ باتوں کے پس منظر میں آج کے سماجی دھوکے بازوں، جھوٹی اسکیموں اور لالچ کی فضا کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ اُن کا مقصد محض نظم کی تشریح نہیں بلکہ معاصر معاشرتی مسائل کو اخلاقی اور اقبالی نقطہ نظر سے اجاگرکرنا ہے۔

 مصنف کے نزدیک اقبال کی نظموں میں بچوں کے لیے نصیحت، بصیرت اور شعور کی تربیت کے ایسے پہلو موجود ہیں، جو ہر زمانے کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔

وہ بچوں کو صرف نظم یاد کرانے کے قائل نہیں بلکہ اُن کے پیغام کو سمجھنے اور زندگی میں لاگو کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہی پہلو اس کتاب کو عام تشریحی کتب سے ممتاز بناتا ہے۔ خیال آفاقی کے نزدیک اقبال کا پیغام بچوں کے دلوں میں اعتماد، خودی، اور خدمتِ خلق کے جذبات پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔

’’بچوں کے اقبال‘‘ اردو ادبِ اطفال میں ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ یہ کتاب محض ایک ادبی یا نصابی تحریر ہی نہیں بلکہ فکرِ اقبال کے احیاء اور اخلاقی تربیت کا ایک ذریعہ بھی ہے۔

پروفیسر خیال آفاقی نے سادہ زبان، مختصر واقعات، اور سبق آموز تجزیے کے ذریعے بچوں کے ذہنوں میں اقبال کی محبت اور نظریہ پاکستان کے شعور کو زندہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

کتاب کی اشاعت پر میں مصنف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ راحیل پبلیکیشنز کی یہ اشاعت اپنے تعلیمی و اخلاقی مقصد کے باعث نہ صرف اسکولوں بلکہ والدین کے لیے بھی قابلِ مطالعہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بچوں کے اقبال کوشش کی ہے نہیں بلکہ کی تشریح اقبال کی کرنے کی بچوں کو کے لیے بلکہ ا

پڑھیں:

ملکہ غزل اقبال بانو

فیض احمد فیض کی نظم لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے کا ذکرکیا جائے تو ذہن فوراً اقبال بانو کی طرف جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے فیض نے یہ نظم اقبال بانو ہی کے لیے لکھی تھی۔ نظم تو بہت پہلے لکھی گئی تھی لیکن اسے لوگوں نے جانا اقبال بانو کی وجہ سے۔ بعض اوقات کسی شاعر کا کلام ،کسی گلوکار کے گانے سے زیادہ مشہور ہو جاتا ہے، جیسے عابدہ پروین نے حکیم ناصر کی غزل ’’ جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے، سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے‘‘ کو گا کر امر کر دیا اور ناصر کاظمی کی غزل کو خلیل حیدر نے گا کر اپنا حق ادا کر دیا۔

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا اب باہر جاؤں کس کے لیے

اور مہدی حسن نے احمد فراز کی غزل اس انداز میں گائی کہ لوگ برسوں نہیں بھلا سکے، جب کہ یہ غزل بھی بہت پہلے لکھی گئی تھی۔

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ جانے کے لیے آ

لیکن جہاں تک اقبال بانوکا تعلق ہے انھوں نے جو بھی گایا خوب گایا۔ خواہ فلمی ہو یا غیر فلمی، ٹھمری ہو یا دادرا ہو سب میں یکتا۔ اقبال بانو 28 دسمبر 1928 کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ چھوٹی ہی تھیں جب گانے کا شوق ہوا۔ پڑوس میں ان کی ایک سہیلی تھی جو گاتی بہت اچھا تھی۔ اقبال بانو اس کی آواز میں آواز ملا کر گایا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی سہیلی سے کہا کہ وہ اپنے والد سے کہے کہ وہ میرے ابا سے بات کریں اور مجھے بھی موسیقی کی تعلیم دلوائیں۔ اس سہیلی کے والد نے جب اقبال بانو کے والد سے بات کی تو انھوں نے اقبال بانو کا پڑوس میں جانا بند کروا دیا۔ تب پھر بھی سہیلی کے والد نے انھیں سمجھایا کہ میری بیٹی بھی گاتی ہے۔ اس کی آواز بھی بہت اچھی ہے لیکن جو نور آپ کی بیٹی کی آواز میں ہے وہ الگ ہی ہے۔ آپ کی بیٹی کی آواز قدرت کا عطیہ ہے۔ اس کو ضایع مت کریں۔ ان کے سمجھانے پر اقبال بانو کے والد راضی ہو گئے اور اقبال بانو کو استاد صابری خاں اور استاد چاند خاں کی شاگردی میں دے دیا گیا۔

استاد چاند خاں انھیں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں بچوں کے پروگرام میں لے گئے۔ استاد چاند خاں اور استاد صابری خاں کی شاگردی میں موسیقی کے اسرار و رموز سیکھنے لگیں۔ ان کے استادوں نے کہا کہ اقبال بانو کے اندر ایک بڑا فنکار چھپا ہے۔ اب وہ ایک کامیاب گلوکارہ بن چکی تھیں۔ وہ سیمی کلاسیکل اور غزل بہت اچھی گاتی تھیں انھوں نے ٹھمری اور دادرا کی تربیت بھی حاصل کی۔

اقبال بانو کے والد کو اب اپنی بیٹی پر فخر ہوتا تھا اور انھیں یہ بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ اگر وہ پڑوسی کی بات نہ مانتے تو نہ صرف خود اقبال بانو کے ساتھ زیادتی ہوتی بلکہ فن کی دنیا پر بھی ظلم ہوتا ۔ انھوں نے ’’ گنڈا بندھ‘‘ بھی بندھوایا تھا جو استاد اور شاگرد کے درمیان ایک خوبصورت رشتے کا مظہر ہوتا ہے۔ ’’ گنڈا بندھ‘‘ ایک طریقے کا گنڈا ہوتا ہے جس میں گرہیں لگی ہوتی ہیں۔

آل انڈیا ریڈیو نے ان کی غزلیں ریکارڈ کیں۔ اقبال بانوکی زندگی کا پہلا ریکارڈ آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ریکارڈ ہوا۔ 1951 میں وہ پاکستان آ گئیں اپنے خاندان کے ہمراہ اور یہاں ملتان کے ایک زمیندار خاندان میں شادی کر کے ملتان ہی میں بس گئیں۔ شادی اس شرط پر کی کہ شوہر ان کے گانے پر پابندی نہیں لگائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ان کے شوہر نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا، اس عرصے میں انھوں نے سیف الدین سیف اور قتیل شفائی کی غزلیں گائیں اور داد سمیٹی۔ ان غزلوں کو ماسٹر عنایت نے کمپوزکیا، ان کے علاوہ رشید عطرے نے بھی اقبال بانو کی غزلوں کو کمپوز کیا۔ اب وہ اسٹار بن چکی تھیں 1950 میں وہ بلندیوں تک جا پہنچیں۔ انھوں نے فلموں میں گیت بھی گائے اور ریڈیو پاکستان سے بھی ان کے نغمے نشر ہونے لگے۔ ان کے چند مشہور نغمے یہ تھے۔

(1)۔ پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے (فلم گمنام کا یہ گیت بہت مقبول ہوا)

(2)۔ الفت کی نئی منزل کو چلا (فلم قاتل، 1955)

(3)۔ چھوڑ ہمیں کس دیس سدھارے (فلم قاتل)

(4)۔ دو دلوں پہ ہوا الفت کا اثر (1950، فلم انتقام)

(5)۔ تاروں کا بھی تو مالک (فلم سرفروش1956)

(6)۔ پریشاں رات ساری ہے (فلم عشق لیلیٰ1957)

(7)۔ امبوا کی ڈالیوں میں جھولنا چلا جا (ناگن 1959)

اقبال بانو کی گائیکی میں حسن کی ملاحت، عشق جیسی تمکنت اور محبت جیسی وارفتگی ہے۔ انھیں کوئین آف غزل یعنی ملکہ غزل کا خطاب ملا۔ اردو غزل پر ان کا احسان عظیم ہے۔ ان کی زبان کا خالص تلفظ ان کی غزل گائیکی کا طرہ امتیاز ہے۔ ان کو بریک تھرو ملا، فیض صاحب کی نظمیں اور غزلیں گانے سے۔

باقی صدیقی کی یہ غزل دلوں کو چھو لیتی ہے۔

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے

لوگ اپنے دیے جلانے لگے

فیض صاحب کی ایک نظم اقبال بانو کی وجہ سے مشہور ہوئی۔

دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں

تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سراب

اقبال بانو نے سرائیکی اور فارسی میں بھی غزلیں اورگیت گائے۔ ایران اورکابل میں ان کو جشن کابل میں شرکت کا بلاوا آتا تھا، انھیں ایران بھی بلایا جاتا تھا۔

 1980 میں ان کے شوہرکا انتقال ہوگیا جس کے بعد وہ لاہور آگئیں۔ پی ٹی وی نے ان کا ایک پروگرام ’’نکھار‘‘ ٹیلی کاسٹ کیا 1970 میں جس کو بہت پذیرائی ملی تھی۔

اقبال بانو کو سروں کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے قلی قطب شاہ کا گیت پیا باج پیالہ پیا جائے ناکو بہت خوبصورتی سے گایا۔ ان کے تین بچے ہیں، دو بیٹے، افضل اور ہمایوں اور ایک بیٹی ملیحہ۔ سرخ و سفید رنگت کی مالک اقبال بانو نے 42 فلموں کے لیے 64 گانے ریکارڈ کروائے جن میں غیرت، غلط فہمی، انتظار، عشق لیلیٰ، قرار، آنکھ کا نشہ، حمیدہ، قاتل، گمنام، ناگن اور سرفروش سرفہرست ہیں۔ انھوں نے غالب کا کلام بھی نہایت خوبی سے گایا۔

باقی صدیقی کی غزل کا یہ شعر ہجرت کے ماروں کے دل کی آواز بن گیا۔

ایک پل میں وہاں سے ہم یوں اٹھے

بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

1986 میں ضیا کی آمریت کے دوران لاہور آرٹس کونسل میں فیض صاحب کی سالگرہ منائی جا رہی تھی جہاں مشاعرہ بھی تھا اور محفل موسیقی بھی۔ رات بارہ بجے مشاعرہ ختم ہوا تو لوگ جانے لگے، اسی اثنا میں ایک آواز ایسی گونجی جس نے لوگوں کے بڑھتے قدم روک لیے۔ یہ آواز تھی ملکہ غزل اقبال بانوکی۔ وہ گا رہی تھیں فیض کا کلام، سیاہ ساڑھی میں ملبوس یہ ایک طرح کا احتجاج تھا، کیونکہ فیض صاحب کے کلام پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی تھی، وہ نظم تھی۔

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوح ازل پہ لکھا ہے

جب تاج اچھالے جائیں گے

جب تخت گرائے جائیں گے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

اقبال بانو کی آواز نے بڑھتے قدم روک لیے۔ ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے سامعین محفل موسیقی ختم ہونے تک بیٹھے رہے۔ یہ کمال تھا ایک شاعر اور ایک مغنیہ کا۔

متعلقہ مضامین

  • بھوتوں کی آوازوں سے نفسیاتی جنگ! کمبوڈیا کی تھائی لینڈ کے خلاف اقوام متحدہ میں شکایت
  • 18اکتوبر2007 شہادت، عزم اور جمہوریت کا دن
  • سابق برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے 3 مردوں کیساتھ جنسی تعلقات؛ تہلکہ خیز انکشاف
  • غربت کا خاتمہ صرف سماجی تقاضا نہیں بلکہ ہماری قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، گورنر سندھ
  • کتاب ہدایت
  • پاکستان کے ساتھ تعلقات نئے دورمیں داخل ہوچکے، ازبک سفیر
  • ملکہ غزل اقبال بانو
  • جعلی تصویر کا دعویٰ: کیا پاکستانی کپتان نے بھارتی کھلاڑی کے قدم چھوئے؟
  • سعودی عرب، جے سی ایل ٹی 12 کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل معرکے کل ہوں گے