سیاحت کے حوالے سے جھیل کا نام آتے ہی ہماری نظر شمال کی طرف اٹھ جاتی ہے جہاں دنیا کی چند حسین ترین جھیلیں موجود ہیں۔ خیبرپختونخواہ اور گلگت بلتستان میں پاکستان کی بہت سی بڑی اور مشہور جھیلیں واقع ہیں جن میں کرومبر، ست پارہ، رش لیک، سیف الملوک، کٹورا، ماہوڈنڈ، دودی پت، آںسو، سنو لیک، خالطی، عطا آباد، شیوسر شامل ہیں۔ ریاست آزاد جموں کشمیر کی رتی گلی، زلزال، چٹا کھٹہ، بنجوسہ،سرل گٹیاں اور شاؤنٹر جھیلیں بھی سیاحت کی دنیا میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
جھیلوں کی اس کہکشاں میں میدانی علاقوں خصوصاً پنجاب کی جھیلیں کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں جن کا اپنا الگ حسن ہے۔
بہت سے لوگ بہت سے سیاح یا پھر بہت سے مسافر ایسے ہیں جن کی پنجاب پر نظر ہی نہیں پڑتی، جو پنجاب میں تین یا چار جھیلوں کے علاوہ کسی جھیل کو جانتے بھی نہیں۔ آج میں اپ کو پنجاب کی ایسی خوبصورت اور چھپی ہوئی جھیلوں کے بارے میں بتاؤں گا جو پنجاب کے میدانی پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔
سب سے پہلے جھیل کی تعریف سمجھ لیتے ہیں۔
خشکی سے گھرا، پانی کا ایسا بڑا ذخیرہ جو کسی بھی دریا یا سمندر سے الگ زمین کے نشیب میں جمع ہوتا ہے جھیل کہلاتا ہے۔ یہ ایک طاس یا آپس میں جڑے کئی طاسوں پر مشتمل ہو سکتا ہے جو تالاب سے زیادہ بڑا اور گہرا ہوتا ہے۔
کچھ جھیلوں میں پانی کی آمد و اخراج کے کئی راستے ہوتے ہیں جب کہ چند ایک ایسی بھی ہیں جن میں آمد بارش سے اور اخراج بخارات کے ذریعے ہوتا ہے۔
جھیلوں کی پھر آگے کئی اقسام ہوتی ہیں جیسے:
1) قدرتی و مصنوعی جھیلیں
2) میٹھے اور کھارے پانی کی جھیلیں
3) بڑی اور چھوٹی جھیلیں
4) پہاڑی، میدانی و صحرائی جھیلیں
5) شہابی جھیلیں (کرہ ارض سے ٹکراؤ کے نتیجے میں بننے والی جھیلیں)
6) قدیم اور نئی جھیلیں
صوبہ پنجاب میں بھی کئی جھیلیں موجود ہیں جن کی زیادہ تعداد پوٹھوہار اور کوہِ نمک میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے ہم پہلے پوٹھوہار کا رخ کریں گے۔
سب سے پہلے ہم شروع کریں گے پاکستان کے انتہائی خوب صورت ضلع چکوال سے جس کو لیک ڈسٹرکٹ آف پنجاب یعنی پنجاب میں ’’جھیلوں کا ضلع‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ چکوال پوٹھوہار کا ایک اہم ضلع ہے جہاں پر کئی ندی نالے موجود ہیں ان ندی نالوں پر مختلف جگہوں پر ڈیمز بنائے گئے ہیں اور انہی ڈیمز کے ساتھ ہی وہاں پر جھیلیں بھی معرض وجود میں آئی ہیں۔
یہاں کلرکہار، دھرابی، کھنڈوعہ، لکھوال ڈیم جھیل، سنبل، سکی لیک، اسٹون نیسٹ، ڈھوک ٹالہیاں، تھرپال ڈیم جھیل اور نیل واہن سمیت بہت سی چھوٹی بڑی جھیلیں اور تالاب بکھرے ہوئے ہیں۔ حکومت پنجاب اس ضلع میں واٹر اسپورٹس کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے تاکہ ان جھیلوں کو ایک بہترین پکنک اسپاٹ بنایا جا سکے۔
تو چلیں چکوال کی جھیلوں سے شروع کرتے ہیں۔
کلرکہار جھیل
لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے راستے میں کوہِ نمک کا خوب صورت علاقہ آتا ہے جہاں کلرکہار انٹرچینج سے اتر کے سامنے ایک جھیل نظر آتی ہے۔ یہ پنجاب کی سب سے مشہور اور آسان راستے والی جھیل کلرکہار ہے۔
کلرکہار، ایک قدیم علاقہ ہے جسے بابر نے سمرقند کا نام دیا تھا۔ یہ نام کب تک رہا کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن کھارے پانی کی جھیل کی بدولت اس علاقے کو ’’کلرکہار‘‘ کا نام دیا گیا۔
کلرکہار کی جھیل دو میل لمبی، ایک میل چوڑی اور چار فت تک گہری ہے۔ یہ نمکین پانی کی جھیل ہے جس میں بارشوں سمیت کچھ چشموں کا پانی بھی آتا ہے۔
یہاں ایک قصہ مشہور ہے کہ کسی دور میں جھیل کا پانی میٹھا ہوا کرتا تھا۔ ایک روز عورتیں جب اپنے گھڑے بھر رہی تھیں تو پاکپتن والے بابا فریدؒ یہاں پہنچے اور ان سے پینے کو پانی مانگا۔ کسی عورت نے جواب دیا کہ ’’ پانی کھارا ہے تو آپ کیسے پییں گے؟‘‘
بابا فریدؒ نے جواب دیا، ٹھیک ہے، پانی کھارا ہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلے گئے لیکن اس روز کلرکہار کے تمام گھڑوں میں پانی کھارا ہوچکا تھا۔ جھیل اس دن سے کھاری ہے۔
کلرکہار میں موجود تاریخی و مذہبی مقامات جیسے تخت بابری، مزار حضرت آہو باہو سرکار، اور عجائب گھر تک جانے کے لیے اسی جھیل کے کنارے ہوکر جانا پڑتا ہے۔ میں جب دو سال پہلے یہاں گیا تو جھیل میں لمبی لمبی جھاڑیاں اُگ چکی تھیں اور کنارے پر کافی گند جمع تھا جس سے ایک عجیب بدبو پیدا ہو رہی تھی۔ اب سنا ہے جھیل کی صفائی کردی گئی ہے۔
اسی کے سامنے ایک پہاڑی پر پنجاب ٹورازم کا ایک ریزارٹ بنایا گیا ہے جہاں رہائش سمیت کھانا پینا اور چائے دست یاب ہیں۔ وہاں سے جھیل اور اس پر آئے پرندوں کا بہترین نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
سوایک/کھنڈوعہ لیک
کلرکہار انٹرچینج سے ہی ایک چواسیدن شاہ روڈ دوسری جانب کو مڑتی ہے جس سے آگے جا کے کھنڈوعہ روڈ نکلتی ہے۔ یہاں ایک مقام پہ سڑک ختم ہوتی ہے، آپ اپنی سواری پارک کرتے ہیں اور جیپ کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد جیپ بھی آپ کو ایک جگہ اتار دیتی ہے۔
یہاں سے آپ کا پیدل ٹریک شروع ہوتا ہے جو کافی آسان ہے۔ چند منٹوں میں آپ پہاڑوں کے بیچ موجود تازہ پانی کی سبزی مائل جھیل کے سامنے ہوتے ہیں جسے مقامی طور پر کھنڈوعہ جب کہ قومی سطح پر سوایک لیک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک قدرتی آبشار بھی ہے جو جھیل کے تازہ پانی کا ذریعہ ہے۔
چکوال کی یہ جھیل جتنی خوب صورت ہے اتنی ہی گہری اور خطرناک بھی۔ اس کے کناروں پر سانپ اور کیکڑے بھی دیکھے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں فیملیز اور نوجوان پکنک کے لیے یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ جھیل میں نہانے کے لیے لائف جیکٹس بھی کرائے پر دست یاب ہیں۔
دھرابی لیک
کلرکہار سے موٹروے پرسیدھا نکل جائیں تو بلکسر انٹرچینج کے دوسری جانب تھوا بہادر کے قریب ایک ذیلی سڑک آْپ کو خطہ پوٹھوہار کی ایک اور جھیل تک پہنچا دے گی۔
دھرابی جھیل، دریائے دھراب پر زرعی بند باندھ کر بنائی گئی ایک خوب صورت جھیل ہے جو دھرابی نامی قصبے کے پاس موٹروے کے بلکسر انٹرچینج سے صرف چار کلومیٹر دور ہے۔ دریائے دھراب، دریائے سواں کا ایک چھوٹا معاون دریا ہے جو آگے جا کر سواں کے ذریعے دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔
دھرابی ڈیم ریزروائر کو ضلع چکوال کا سب سے بڑا آبی ذخیرہ کہا جاتا ہے جو ایک ناکام منصوبہ تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ ماحولیات پر خوش گوار اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اس جھیل کے کنارے ٹی ڈی سی پی ریزارٹ بنایا گیا ہے جہاں پنجاب ٹورازم کے زیرِاہتمام مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔
اس جھیل کے قریب ہی چکوال کا مشہور سیاحتی مقام ’’چکوال کینینز‘‘ بھی موجود ہے۔ یہاں کا غروبِ آفتاب دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
سِکی، سٹون نیسٹ و سِمبل جھیل
یہ دونوں تازہ پانی کی چھوٹی جھیلیں ہیں۔ سِکی جھیل تحصیل چوآسیدن شاہ کے گاؤں آڑہ بشارت کے پاس پہاڑوں کے بیچ واقع ہے۔ آڑہ بشارت پہنچنے کے بعد چند کلومیٹر کا دشوار راستہ بائیک پر طے کیا جا سکتا ہے لیکن ایک مخصوص مقام کے بعد آپ کو ایک کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑا ہے اور پھر یہ حسین جھیل آپ کو دیدار کرواتی ہے۔
یہ جگہ قدرتی مناظر سے بھرپور ہے جہاں جھیل کا ٹھنڈا پانی، اس کے گرد سبزہ، پہاڑ اور پرسکون ماحول اسے مزید دلکش بناتے ہیں۔
سِکی جھیل سے کچھ آگے پتھروں کے بیچ، نیلے پانی کی ایک اور چھوٹی سی جھیل موجود ہے جسے چکوال سے میرے دوست فرحان راجہ نے ’’اسٹون نیسٹ جھیل‘‘ کا نام دیا ہے کیوںکہ یہ گھونسلا نما جھیل پتھروں سے گھری ہوئی ہے۔ یہاں پر بھی بائیک سے پہنچا جا سکتا ہے، جب کہ سمبل جھیل کلرکہار کے قریب سمبل گاؤں کی حدود میں واقع ہے۔ سِمبل جھیل کو اس کے نیلگوں پانی اور ساخت کی وجہ سے پَرل (موتی) جھیل بھی کہا جاتا ہے۔ اس جھیل کی گہرائی بھی زیادہ بتائی جاتی ہے، چوںکہ سمبل جھیل نجی ملکتی علاقے میں واقع ہے سو یہاں تک جانے کے لیے اجازت لینی پڑتی ہے۔
چھوٹے ڈیموں کی جھیلیں
پنجاب اور خصوصاً چکوال میں کئی اسمال ڈیم بھی ہیں جو سرکار نے علاقے کی زرعی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے بنائے تھے۔ ان میں سے کچھ ڈیم شہروں کو پینے کا پانی بھی سپلائی کرتے ہیں اور ان کی بھی خوب صورت جھیلیں ہیں۔ ان میں سے چند ایک جو سیاحتی لحاظ سے اہم ہیں درج ذیل ہیں؛
ڈھوک ٹالیاں ڈیم جھیل
یہ ڈیم چکوال کے جنوب میں ڈھوک ٹالیاں کے مقام پر واقع ہے جو 2001 میں تعمیر ہوا تھا۔ اسے دریائے بنہا پر بنایا گیا ہے جس سے فصلوں اور کھیتوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔ اس کی خوب صورت جھیل کنارے ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب کا ریزارٹ بھی واقع ہے جہاں سیاح چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔ یہاں کشتی رانی کی سہولت بھی موجود ہے۔
بَن امیر خاتون ڈیم جھیل
ڈھوک بَن امیر خاتون، چکوال کی ایک قدیم سائیٹ ہے جہاں ہونے والی محکمۂ آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے کئی قدیم سکے، برتن، مورتیاں حتیٰ کہ ڈائینوسار کا فوسل بھی ملا ہے اور ابھی اس سائیٹ کی مزید کھدائی ہونا باقی ہے۔ یہ ضلع کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ہے۔
قدرتی پہاڑیوں کے بیچ بنے اس ڈیم اور جھیل تک ایک پکی سڑک جاتی ہے۔ عمارت، بیٹھنے کی جگہ موجود ہے لیکن سٹاف نظر نہیں آتا۔ تھوڑی سی توجہ سے یہ جگہ اور زیادہ بہتر بنائی جا سکتی ہے۔
نِکہ ڈیم جھیل؛
کلرکہار کے پاس نِکہ ندی پر بنایا گیا ہے جس کی جھیل بہت زیادہ بڑی نہیں ہے۔ اسے کلرکہار ڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں تک جانے کا راستہ بہت خوب صورت ہے لیکن یہاں کار پر جانے کی بجائے بائیک پر بہ آسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں فشنگ کی سہولت موجود ہے۔
کھوکھر زیر ڈیم جھیل؛ یہ ڈیم چکوال شہر کی پانی کی ضروریات پوری کرتا ہے جو چکوال کے جنوب میں کھوکھر زیر نامی قصبے کے ساتھ دریائے اُنہا پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی خوب صورت جھیل بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
لَکھوال ڈیم جھیل
چکوال شہر کے شمال مغرب میں نیلہ روڈ پر بیس کلومیٹر دور۔ لکھوال کے مقام پر واقع اس ڈیم کی اپنی آبشار بھی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ آبشار چوںکہ موسمی ہے اور ڈیم کے اوور فلو ہو جانے کے بعد دیکھی جا سکتی ہے سو برسات کے دن یہاں جانے کے بہترین دن ہیں لیکن اس کا نظارہ دور سے ہی کریں تو بہتر ہے وگرنہ پاؤں پھسلنے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس کے آس پاس پہاڑ موجود نہیں ہیں جبکہ جھیل میں پانی کی آمد چند نالوں سے ہوتی ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر کا مقصد تو اردگرد کے دیہات کو پانی فراہم کرنا تھا لیکن یہ ناکام منصوبہ ثابت ہوا اور آج تک یہ زرعی زمین کو پانی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ یہ جھیل اب سیاحتی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
چکوال میں اس کے علاوہ کوٹ راجہ جھیل، کھائی ڈیم جھیل، ماٹن جھیل شامل ہیں۔ یقیناً یہاں ایسی بھی کچھ جھیلیں ہوں گی جو اب تک منظرِعام پر نہیں آئی ہوں گی۔
جہاں کلرکہار کے ایک طرف چوآسیدن شاہ روڈ پر میں سویک جھیل، کٹاس کا تاریخی مندر اور کھیوڑہ نمک کی کانیں دیکھی جا سکتی ہیں وہیں اس کے دوسری جانب خوشاب روڈ اور نوشہرہ جابہ روڈ پر تین اور قدرتی جھیلیں بھی موجود ہیں جن تک جانے والا راستہ انتہائی صبرآزما اور چولیں ہلا دینے والا ہے۔
یہ جھیلیں کلرکہار جھیل کی نسبت زیادہ بڑی اور خوب صورت ہیں اور ضلع خوشاب میں واقع ہیں۔
کھبیکی جھیل
وادء سون کی دوسری بڑی جھیل، کھبیکی نام کے گاؤں کے پاس نوشہرہ-جابہ روڈ کے بالکل کنارے پر واقع ہے۔ دو کلومیٹر چوڑی اور ایک کلومیٹر لمبی اس جھیل میں پہلے نمکین پانی ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ قدرے میٹھے پانی کی جھیل ہے۔
یہ جھیل بھی باقی جھیلوں کی طرح ’’اوچھالی ویٹ لینڈ‘‘ کا حصہ ہے جسے رامسر کنوینشن کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
یہ سائیبیریا سے آنے والے ہجرتی پرندوں کا بہت بڑا مسکن ہے۔
جھیل کے پسِ منظر میں کوہِ نمک کے خوب صورت پہاڑ دل کو چھو لینے والا منظر پیش کرتے ہیں۔ جھیل کے ایک کنارے پر ’’ٹوارزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب‘‘ کا ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے جہاں تمام بنیادی ضروریات سمیت سائیکلنگ کی سہولت بھی میسر ہے۔ ریسٹ ہاؤس کے سامنے ایک خوب صورت ’’واچ ٹاور‘‘ بھی بنایا گیا ہے جہاں سے سیاح جھیل اور اس پر آنے والے مہمان پرندوں کا دل کش نظارہ آنکھوں میں قید کرنے کے ساتھ ساتھ کیمرے میں بھی محفوظ کرسکتے ہیں۔
کچھ سال قبل جھیل کے کناروں اور اس تک جانے والے راستے کو پکا کر کے اس کے ایک طرف خوب صورت سائیکلنگ ٹریک بنایا گیا ہے جس پر روشنیوں کی ایک قطار اور بینچ بھی لگائے گئے ہیں جس سے یہ جگہ اب بہت بہتر تفریحی مقام بن چکی ہے۔
اْوچھالی جھیل
ہجرتی پرندوں، دھند سے ڈھکے پانیوں اور سحرانگیز تصاویر کا کہیں ذکر آئے تو میرے ذہن میں اوچھالی کا نام خودبخود آ جاتا ہے۔
اوچھالی جھیل وادیٔ سون میں انگہ اور نوشہرہ کے پاس واقع ہے جس کا نام اس کے کنارے آباد ’’اچھالی‘‘ نام کے قصبے پر رکھا گیا ہے۔ اچھالی جھیل تک ٹوٹی پھوٹی سہی لیکن پختہ سڑک موجود ہے جو اچھالی سے نیم پختہ دو راستوں میں تبدیل ہوجاتی ہے، ایک راستہ امب شریف اور دوسرا سکیسر پہاڑ کی جانب جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کوہِ نمک پاکستان میں نمکین پانی کی جھیل ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں پانی کی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے یہ جھیل وجود میں آئی تھی۔ پانی نمکین ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی جان دار نہیں پایا جاتا لیکن پھر بھی یہ جھیل اپنے اندر بلا کی کشش رکھتی ہے۔ پوٹھوہار کا سب سے اونچا پہاڑ ’’سکیسر‘‘ اسی جھیل کے قریب واقع ہے جس کی اونچائی 1522 میٹر ہے۔
اس جھیل کے کناروں پر پانی سبزی مائل ہے جہاں اس میں کئی اقسام کی خودرو جھاڑیاں، پودے اور الجی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس جھیل کی خوب صورتی اس کے اندر جاتی سڑک سے ہے جو اسے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے آگے جا کر یہ پکی سڑک بھی پانی میں غائب ہوجاتی ہے۔ اچھالی بھی یہاں کی باقی جھیلوں کی طرح سائیبیریا سے آنے والے ہجرتی پرندوں کی مہمان نوازی کرتی ہے۔ پرندوں کے شوقین اور فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ ایک بہترین جگہ ہے۔
یہاں شکار پر مکمل پابندی عائد ہے۔ جھیل کی حالت زار بے توجہی کے باعث دگرگوں ہے البتہ مقامی طور پر یہاں کشتی رانی کی سہولت میسر ہے۔
جھالر لیک
وادی سون کے تمام مقامات میں سب سے دور اور ایک کونے میں واقع یہ جھیل تقریباً 148 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے جس کے تیزابی پانی میں کپڑے بغیر صابن کے دھوئے جا سکتے ہیں۔ اوچھالی کے جنوب میں مرکزی سڑک سے دور ہونے کی وجہ سے یہاں بہت کم لوگ آتے ہیں اس لیے یہاں آپ کو ماحول صاف اور پُرسکون ملے گا۔
جھالر، مختلف چھوٹے چھوٹے چشموں اور بارش سے سیراب ہونے والی وادیٔ سون کی سب سے چھوٹی جھیل ہے۔ مگر یہ اپنے حجم سے زیادہ مہمان پرندوں کی مہمان نوازی کرتی ہے۔ سردیوں میں یہاں دور دور سے پرندے آتے ہیں جو گرمیوں تک یہیں بسیرا کرتے ہیں۔ ورلڈ وائلڈ فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں صرف رینگنے والے جانوروں کی 35 اقسام موجود تھیں جو آبادی بڑھنے اور جھیل میں کیمیائی مادوں کی افراط کے ساتھ ساتھ گھٹتی چلی گئیں۔ یہاں اچھالی اور کھبی کی جھیل جیسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے شاید حکومت نے بھی اسے سوتیلا سمجھ رکھا ہے ؟
نوشہرہ سے براستہ سُرکی آپ یہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔
نمل جھیل
اوچھالی جھیل کے شمال مغرب میں، وادیٔ نمل کے پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ جھیل نمل ڈیم کی وجہ سے معرضِ وجود میں آئی جو ضلع میانوالی کا ایک اہم ڈیم ہے۔ اس جھیل کو 1913 میں برطانوی انجنیئروں نے ’’سالٹ لیک ویٹ لینڈ کمپلیکس‘‘ کے اہم حصے کے طور پر بنایا تھا جس کا بنیادی مقصد میانوالی میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنا تھا۔ بارہ سو ایکڑ پر مشتمل نمل جھیل کی گہرائی لگ بھگ بیس فٹ ہے جسے کوہِ نمک کے برساتی نالوں اور چشموں کا پانی سیراب کرتا ہے۔
وادیٔ نمل ایک قدیم وادی ہے جو صدیوں سے آباد ہے جس کا ایک ثبوت جھیل کنارے پرانا قبرستان ہے۔ نمل یونیورسٹی کے قیام کے بعد اس علاقے کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس جھیل میں مچھلی سمیت مرغابیوں کا شکار بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پوٹھوہار کی دیگر جھیلوں کی طرح نمل بھی سائیبیرین ہجرتی پرندوں کی بڑی آماج گاہ ہے۔
چشمہ بیراج جھیل
نمل کے جنوب مغرب میں کندیاں شہر کے پاس واقع یہ جھیل میانوالی اور پنجاب کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے جو دراصل دریائے سندھ پر واقع چشمہ بیراج کی جھیل ہے۔ 1971 میں تعمیر کیا جانے والا چشمہ بیراج، بجلی پیدا کرنے اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس بیراج کی جھیل پاکستان میں تربیلا اور منگلا کے بعد پانی کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہے۔ اس جھیل کے کنارے واپڈا ریسٹ ہاؤس، چشمہ ریسٹ ہاؤس اور کئی ہوٹل موجود ہیں جہاں جھیل کی تازہ فرائی مچھلی دست یاب ہے۔ چشمہ جھیل اس علاقے کا بڑا پکنک اسپاٹ ہے جہاں دریائے سندھ کے اُس پار خیبر پختونخواہ سے بھی لوگ گھومنے آتے ہیں۔
شاہ پور ڈیم جھیل
ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ میں واقع شاہ پور ڈیم 1986 میں دریائے نندنہ پر بنایا گیا تھا۔ اس کا مقصد تو زرعی ضروریات کے لیے پانی محفوظ کرنا تھا لیکن اس کی خوب صورتی اور نزدیک واقع پہاڑیوں کی بدولت اب یہ بہت بڑا پکنک اسپاٹ بن چکا ہے جس کی جھیل کنارے کئی خاندان پکنک مناتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
موسم اچھا ہو تو یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔
سِملی ڈیم جھیل
سملی ڈیم راول پنڈی میں دریائے سواں پر بنایا گیا ہے جس کی جھیل کا کچھ حصہ اسلام آباد کی حدود میں بھی واقع ہے۔ یہ اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
اگرچہ سملی ڈیم میں پانی کی آمد بارشوں سے مشروط ہے، لیکن سملی جھیل میں کئی نزدیکی علاقوں کے چھوٹے بڑے نالوں کا پانی بھی گرتا ہے۔
سملی ڈیم کی جھیل 265 فٹ گہری ہے اور اس میں 25لاکھ 80ہزار کیوبک گز پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ جھیل میں گنجائش سے زیادہ پانی آجانے کی صورت میں اس کے اخراج کے لیے اسپل وے بھی بنایا گیا۔ یہ جھیل بھی ایک بہترین سیاحتی مقام ہے کیوںکہ اس کے پاس خوب صورت آبشاریں (بِسہ اور سملی) واقع ہیں۔
گیمن جھیل
وزیرآباد کے شمال میں واقع پنجاب کی واحد جھیل جو جی ٹی روڈ سے بھی نظر آتی ہے۔ ’’چناب کریک‘‘ اور ’’پلکھو سپِل‘‘ کے نام سے مشہور یہ جھیل چناب اور نالہ پلکھو کے بیچ واقع ہے۔ اس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ شدید سیلاب کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی تھی جس کا نام گیمن کمپنی کے نام پر رکھا گیا۔ گیمن انڈیا لمیٹڈ، ہندوستان میں سول انجنیئرنگ کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنیوں میں سے ایک تھی جسے 1922 میں قائم کیا گیا تھا۔ اسی کمپنی نے اس جگہ ریلوے کا پُل تعمیر کیا تھا جس کی بدولت یہی نام جھیل کو دیا گیا۔
اس جھیل کے بارے کئی کہانیاں مشہور ہیں جیسے اس کی گہرائی کا تعین آج تک نہیں ہوسکا، یہ زیرزمین شگاف پڑنے کی وجہ سے بنی تھی وغیرہ۔ کئی لوگ تو اسے جھیل ہی نہیں مانتے بلکہ نالہ پلکھو کی ہی بچھڑی ہوئی بہن سمجھتے ہیں۔ بارش کے پانی کے علاوہ یہاں صاف پانی کی آمد کا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح سطح سمندر کے برابر ہونے کی بدولت، اخراج کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔
اس جھیل پر دو پل موجود ہیں ایک ریلوے کا قدیم تاریخی پل، جب کہ دوسرا جرنیلی سڑک کا پُل ہے۔
ڈیمس جھیل
یہ جھیل ضلع ڈیرہ غازی خان کے پُرفضا پہاڑی مقام فورٹ منرو میں واقع ہے جو وسیب کا سب سے مشہور اور اکلوتا ہِل اسٹیشن ہے۔
میرے نزدیک فورٹ منرو کا سب سے خوب صورت مقام یہی ڈیمس یا دماس جھیل ہے۔
یہاں ٹوارزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن پنجاب (ٹی، ڈی، سی، پی) کے خوب صورت سے موٹیل کے عقب میں فورٹ منرو کی سب سے بڑی اور خوب صورت جھیل ’’دماس‘‘ اپنی دل کشی اور حُسن کے جلوے بکھیر رہی ہے۔
یہ قدرتی جھیل یہاں واقع تین جھیلوں میں سب سے بڑی ہے۔ نقشے پر ایک انسانی کی گردے کی سی شکل میں نظر آنے والی یہ جھیل سردیوں میں سکڑ جاتی ہے جب کہ برسات اور گرمیوں کے دنوں میں اس کا جوبن دیکھنے والا ہوتا ہے۔ یہاں موجود بقیہ دو جھیلوں کا نام تریموں اور لال خان جھیل ہے۔
گٹھ بیری جھیل
ضلع رحیم یار خان کے جنوب مغرب میں اور صادق آباد سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر چولستان کی ویرانیوں میں نمکین پانی کی کئی جھیلیں موجود ہیں، جو دراصل دفاعی نقطۂ نظر سے بنائی گئی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی جھیل گٹھ بیری کہلاتی ہے۔
یہاں ضلع بھر کا سیم کا پانی ڈالا جاتا ہے جو مختلف سیم نالے یہاں تک لاتے ہیں۔
ان کی بناوٹ اور خوب صورتی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان جھیلوں کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے اور ان کا سلسلہ شمال مشرقی سندھ تک پھیلا ہے۔ ان میں سے کچھ جھیلیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔
بی بی کرم خاتون کا مزار بھی یہیں واقع ہے۔ بہت سے لوگ یہاں برسات اور سردیوں میں پکنک منانے جاتے ہیں۔
پتیسر جھیل
ضلع بہاولپور میں واقع لال سوہانرا نیشنل پارک جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے پارکوں میں شمار ہوتا ہے جسے اقوامِ متحدہ کے ذیلی اِدارے یونیسکو نے ایک ’’حیاتی محفوظ ذخیرہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس پارک کا ایک بڑا حصہ جھیلوں اور تالابوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک پتیسر جھیل ہے۔
پارک کے بیچ موجود ’’جھیل پتیسر‘‘ پرندوں کا بہت بڑا مسکن ہے جسے 1960 کے رامسر کنونشن کے تحت صدر ایوب خان کے دور میں بنایا گیا تھا۔ اس جھیل کو بین الاقوامی ویٹ لینڈ کے طور پر نام زد کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر محکمۂ آب پاشی نے مسلسل پارک سے گزرنے والی نہر کے پانی کا کچھ حصہ جھیل کو فراہم کیا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جھیل کا حصہ کم ہوتا چلا گیا جس سے اس کا آبی ماحولیاتی نظام متاثر ہوا۔
جھیل کے سکڑنے کی بدولت یہاں سیاحوں کی آمد بھی کم ہو چکی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
پتیسر جھیل تاریخی طور پر اس خطے میں سائبیرین ہجرت کرنے والے پرندوں کے لیے ایک مستقل آرام گاہ کے طور پر کام کرتی رہی ہے لیکن اب اس کا وجود خطرے میں ہے۔ پتیسر کی بقاء کے لیے اس کا پانی بحال کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
مہتابی جھیل
یہ چھوٹی سی مصنوعی جھیل چھانگا مانگا پارک میں واقع ہے جو انسانی ہاتھوں سے لگایا گیا دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے۔ اس جھیل کو چاند کی شکل میں گول بنایا گیا ہے جس کی بدولت اسے مہتابی کہا جاتا ہے۔ یہ جھیل اور چھانگا مانگا، علاقے کا ایک بڑا تفریحی مقام ہے۔
اسی طرح کی ایک گول چھوٹی جھیل لاہور کے جلو پارک میں بھی موجود ہے۔
کِرانہ جھیل
2015 میں اسکردو سے واپسی پر جب میں نے ایک دن سرگودھا میں قیام کیا تو مقامی دوستوں سے کوئی منفرد جگہ دکھانے کی فرمائش کی۔ وہ مجھے سرگودھا کے مضافات میں ایک قدرتی اور خوب صورت جگہ لے گئے جہاں جہاں پیاری سی پہاڑیوں کے درمیان میں خوب صورت سی جھیلوں کا ایک سلسلہ تھا۔ بقول ان کے کہ یہ کرانہ کی پہاڑیاں ہیں سو اس جھیل کا نام بھی کرانہ جھیل ہی ہوا۔
یہ پہاڑیاں زیادہ بڑی نہیں تھیں لیکن وہاں کرشنگ زوروں پر تھی۔ ہوسکتا ہے یہ پانی بھی اسی وجہ سے وہاں جمع ہو کیوںکہ اس سلسلے کا کوئی قدرتی ماخذ/منبع مجھے نہیں نظر آیا۔
پہاڑیوں کہ بیچ میں واقع یہ جھیلوں کا سلسلہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا جس کے بیچ بل کھاتا راستہ اسے اور دلکش بناتا تھا۔ اس وقت ہمارے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔
شنید ہے کہ کرشنگ کی بدولت اب پہاڑٰوں کم رہ گئی ہیں لیکن جھیل اب بھی وہیں موجود ہے۔
اگرچہ پنجاب میں اس سے بھی زیادہ چھوٹی جھیلیں موجود ہیں (جیسے لاہور میں ماڈل ٹاؤن کی جھیل) لیکن یہاں پر چُنیدہ اور بڑی جھیلوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پنجاب میں بہت سے چھوٹے ڈیمز موجود ہیں جن کی چھوٹی چھوٹی جھیلیں ہیں لیکن وہ ابھی کمرشل نہیں ہوئیں۔
کچھ جھیلیں ایسی بھی ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں اور ہماری نا اہلی کی بدولت خشک ہوچکی ہیں جن میں خان پور کی ڈھنڈ گاگڑی جھیل اور اوکاڑہ میں ستگھرہ کے پاس کھڑہل جھیل تھی جس کا مطلب ہے گہرا گڑھا۔
موجودہ جھیلوں کو بھی شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے جن سے متاثر ہوکر بیشتر جھیلیں اکثر خشک رہنے لگی ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ پنجاب سمیت ملک بھر میں مزید آبی ذخیرے تعمیر کیے جائیں اور جو پہلے سے موجود ہیں ان کے اردگرد کمرشل سرگرمیوں پر پابندی لگا کر ان کی حفاظت کی جائے تاکہ ہم اپنے آنے والی نسل کے لیے بہتر ماحول چھوڑ کے جا سکیں۔
(چکوال کی جھیلوں کی تصاویر کے لیے فرحان راجہ کا شکریہ)
جھالر لیک
وادی سون کے تمام مقامات میں سب سے دور اور ایک کونے میں واقع یہ جھیل تقریباً 148 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے جس کے تیزابی پانی میں کپڑے بغیر صابن کے دھوئے جا سکتے ہیں۔ اوچھالی کے جنوب میں مرکزی سڑک سے دور ہونے کی وجہ سے یہاں بہت کم لوگ آتے ہیں اس لیے یہاں آپ کو ماحول صاف اور پُرسکون ملے گا۔
جھالر، مختلف چھوٹے چھوٹے چشموں اور بارش سے سیراب ہونے والی وادیٔ سون کی سب سے چھوٹی جھیل ہے۔ مگر یہ اپنے حجم سے زیادہ مہمان پرندوں کی مہمان نوازی کرتی ہے۔ سردیوں میں یہاں دور دور سے پرندے آتے ہیں جو گرمیوں تک یہیں بسیرا کرتے ہیں۔ ورلڈ وائلڈ فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں صرف رینگنے والے جانوروں کی 35 اقسام موجود تھیں جو آبادی بڑھنے اور جھیل میں کیمیائی مادوں کی افراط کے ساتھ ساتھ گھٹتی چلی گئیں۔ یہاں اچھالی اور کھبی کی جھیل جیسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے شاید حکومت نے بھی اسے سوتیلا سمجھ رکھا ہے ؟
نوشہرہ سے براستہ سُرکی آپ یہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔
نمل جھیل
اوچھالی جھیل کے شمال مغرب میں، وادیٔ نمل کے پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ جھیل نمل ڈیم کی وجہ سے معرضِ وجود میں آئی جو ضلع میانوالی کا ایک اہم ڈیم ہے۔ اس جھیل کو 1913 میں برطانوی انجنیئروں نے ’’سالٹ لیک ویٹ لینڈ کمپلیکس‘‘ کے اہم حصے کے طور پر بنایا تھا جس کا بنیادی مقصد میانوالی میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنا تھا۔ بارہ سو ایکڑ پر مشتمل نمل جھیل کی گہرائی لگ بھگ بیس فٹ ہے جسے کوہِ نمک کے برساتی نالوں اور چشموں کا پانی سیراب کرتا ہے۔
وادیٔ نمل ایک قدیم وادی ہے جو صدیوں سے آباد ہے جس کا ایک ثبوت جھیل کنارے پرانا قبرستان ہے۔ نمل یونیورسٹی کے قیام کے بعد اس علاقے کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس جھیل میں مچھلی سمیت مرغابیوں کا شکار بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پوٹھوہار کی دیگر جھیلوں کی طرح نمل بھی سائیبیرین ہجرتی پرندوں کی بڑی آماج گاہ ہے۔
چشمہ بیراج جھیل
نمل کے جنوب مغرب میں کندیاں شہر کے پاس واقع یہ جھیل میانوالی اور پنجاب کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے جو دراصل دریائے سندھ پر واقع چشمہ بیراج کی جھیل ہے۔ 1971 میں تعمیر کیا جانے والا چشمہ بیراج، بجلی پیدا کرنے اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس بیراج کی جھیل پاکستان میں تربیلا اور منگلا کے بعد پانی کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہے۔ اس جھیل کے کنارے واپڈا ریسٹ ہاؤس، چشمہ ریسٹ ہاؤس اور کئی ہوٹل موجود ہیں جہاں جھیل کی تازہ فرائی مچھلی دست یاب ہے۔ چشمہ جھیل اس علاقے کا بڑا پکنک اسپاٹ ہے جہاں دریائے سندھ کے اُس پار خیبر پختونخواہ سے بھی لوگ گھومنے آتے ہیں۔
شاہ پور ڈیم جھیل
ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ میں واقع شاہ پور ڈیم 1986 میں دریائے نندنہ پر بنایا گیا تھا۔ اس کا مقصد تو زرعی ضروریات کے لیے پانی محفوظ کرنا تھا لیکن اس کی خوب صورتی اور نزدیک واقع پہاڑیوں کی بدولت اب یہ بہت بڑا پکنک اسپاٹ بن چکا ہے جس کی جھیل کنارے کئی خاندان پکنک مناتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
موسم اچھا ہو تو یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔
سِملی ڈیم جھیل
سملی ڈیم راول پنڈی میں دریائے سواں پر بنایا گیا ہے جس کی جھیل کا کچھ حصہ اسلام آباد کی حدود میں بھی واقع ہے۔ یہ اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
اگرچہ سملی ڈیم میں پانی کی آمد بارشوں سے مشروط ہے، لیکن سملی جھیل میں کئی نزدیکی علاقوں کے چھوٹے بڑے نالوں کا پانی بھی گرتا ہے۔
سملی ڈیم کی جھیل 265 فٹ گہری ہے اور اس میں 25لاکھ 80ہزار کیوبک گز پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ جھیل میں گنجائش سے زیادہ پانی آجانے کی صورت میں اس کے اخراج کے لیے اسپل وے بھی بنایا گیا۔ یہ جھیل بھی ایک بہترین سیاحتی مقام ہے کیوںکہ اس کے پاس خوب صورت آبشاریں (بِسہ اور سملی) واقع ہیں۔
گیمن جھیل
وزیرآباد کے شمال میں واقع پنجاب کی واحد جھیل جو جی ٹی روڈ سے بھی نظر آتی ہے۔ ’’چناب کریک‘‘ اور ’’پلکھو سپِل‘‘ کے نام سے مشہور یہ جھیل چناب اور نالہ پلکھو کے بیچ واقع ہے۔ اس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ شدید سیلاب کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی تھی جس کا نام گیمن کمپنی کے نام پر رکھا گیا۔ گیمن انڈیا لمیٹڈ، ہندوستان میں سول انجنیئرنگ کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنیوں میں سے ایک تھی جسے 1922 میں قائم کیا گیا تھا۔ اسی کمپنی نے اس جگہ ریلوے کا پُل تعمیر کیا تھا جس کی بدولت یہی نام جھیل کو دیا گیا۔
اس جھیل کے بارے کئی کہانیاں مشہور ہیں جیسے اس کی گہرائی کا تعین آج تک نہیں ہوسکا، یہ زیرزمین شگاف پڑنے کی وجہ سے بنی تھی وغیرہ۔ کئی لوگ تو اسے جھیل ہی نہیں مانتے بلکہ نالہ پلکھو کی ہی بچھڑی ہوئی بہن سمجھتے ہیں۔ بارش کے پانی کے علاوہ یہاں صاف پانی کی آمد کا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح سطح سمندر کے برابر ہونے کی بدولت، اخراج کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔
اس جھیل پر دو پل موجود ہیں ایک ریلوے کا قدیم تاریخی پل، جب کہ دوسرا جرنیلی سڑک کا پُل ہے۔
ڈیمس جھیل
یہ جھیل ضلع ڈیرہ غازی خان کے پُرفضا پہاڑی مقام فورٹ منرو میں واقع ہے جو وسیب کا سب سے مشہور اور اکلوتا ہِل اسٹیشن ہے۔
میرے نزدیک فورٹ منرو کا سب سے خوب صورت مقام یہی ڈیمس یا دماس جھیل ہے۔
یہاں ٹوارزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن پنجاب (ٹی، ڈی، سی، پی) کے خوب صورت سے موٹیل کے عقب میں فورٹ منرو کی سب سے بڑی اور خوب صورت جھیل ’’دماس‘‘ اپنی دل کشی اور حُسن کے جلوے بکھیر رہی ہے۔
یہ قدرتی جھیل یہاں واقع تین جھیلوں میں سب سے بڑی ہے۔ نقشے پر ایک انسانی کی گردے کی سی شکل میں نظر آنے والی یہ جھیل سردیوں میں سکڑ جاتی ہے جب کہ برسات اور گرمیوں کے دنوں میں اس کا جوبن دیکھنے والا ہوتا ہے۔ یہاں موجود بقیہ دو جھیلوں کا نام تریموں اور لال خان جھیل ہے۔
گٹھ بیری جھیل
ضلع رحیم یار خان کے جنوب مغرب میں اور صادق آباد سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر چولستان کی ویرانیوں میں نمکین پانی کی کئی جھیلیں موجود ہیں، جو دراصل دفاعی نقطۂ نظر سے بنائی گئی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی جھیل گٹھ بیری کہلاتی ہے۔
یہاں ضلع بھر کا سیم کا پانی ڈالا جاتا ہے جو مختلف سیم نالے یہاں تک لاتے ہیں۔
ان کی بناوٹ اور خوب صورتی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان جھیلوں کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے اور ان کا سلسلہ شمال مشرقی سندھ تک پھیلا ہے۔ ان میں سے کچھ جھیلیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔
بی بی کرم خاتون کا مزار بھی یہیں واقع ہے۔ بہت سے لوگ یہاں برسات اور سردیوں میں پکنک منانے جاتے ہیں۔
پتیسر جھیل
ضلع بہاولپور میں واقع لال سوہانرا نیشنل پارک جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے پارکوں میں شمار ہوتا ہے جسے اقوامِ متحدہ کے ذیلی اِدارے یونیسکو نے ایک ’’حیاتی محفوظ ذخیرہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس پارک کا ایک بڑا حصہ جھیلوں اور تالابوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک پتیسر جھیل ہے۔
پارک کے بیچ موجود ’’جھیل پتیسر‘‘ پرندوں کا بہت بڑا مسکن ہے جسے 1960 کے رامسر کنونشن کے تحت صدر ایوب خان کے دور میں بنایا گیا تھا۔ اس جھیل کو بین الاقوامی ویٹ لینڈ کے طور پر نام زد کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر محکمۂ آب پاشی نے مسلسل پارک سے گزرنے والی نہر کے پانی کا کچھ حصہ جھیل کو فراہم کیا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جھیل کا حصہ کم ہوتا چلا گیا جس سے اس کا آبی ماحولیاتی نظام متاثر ہوا۔
جھیل کے سکڑنے کی بدولت یہاں سیاحوں کی آمد بھی کم ہو چکی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
پتیسر جھیل تاریخی طور پر اس خطے میں سائبیرین ہجرت کرنے والے پرندوں کے لیے ایک مستقل آرام گاہ کے طور پر کام کرتی رہی ہے لیکن اب اس کا وجود خطرے میں ہے۔ پتیسر کی بقاء کے لیے اس کا پانی بحال کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
مہتابی جھیل
یہ چھوٹی سی مصنوعی جھیل چھانگا مانگا پارک میں واقع ہے جو انسانی ہاتھوں سے لگایا گیا دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے۔ اس جھیل کو چاند کی شکل میں گول بنایا گیا ہے جس کی بدولت اسے مہتابی کہا جاتا ہے۔ یہ جھیل اور چھانگا مانگا، علاقے کا ایک بڑا تفریحی مقام ہے۔
اسی طرح کی ایک گول چھوٹی جھیل لاہور کے جلو پارک میں بھی موجود ہے۔
کِرانہ جھیل
2015 میں اسکردو سے واپسی پر جب میں نے ایک دن سرگودھا میں قیام کیا تو مقامی دوستوں سے کوئی منفرد جگہ دکھانے کی فرمائش کی۔ وہ مجھے سرگودھا کے مضافات میں ایک قدرتی اور خوب صورت جگہ لے گئے جہاں جہاں پیاری سی پہاڑیوں کے درمیان میں خوب صورت سی جھیلوں کا ایک سلسلہ تھا۔ بقول ان کے کہ یہ کرانہ کی پہاڑیاں ہیں سو اس جھیل کا نام بھی کرانہ جھیل ہی ہوا۔
یہ پہاڑیاں زیادہ بڑی نہیں تھیں لیکن وہاں کرشنگ زوروں پر تھی۔ ہوسکتا ہے یہ پانی بھی اسی وجہ سے وہاں جمع ہو کیوںکہ اس سلسلے کا کوئی قدرتی ماخذ/منبع مجھے نہیں نظر آیا۔
پہاڑیوں کہ بیچ میں واقع یہ جھیلوں کا سلسلہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا جس کے بیچ بل کھاتا راستہ اسے اور دلکش بناتا تھا۔ اس وقت ہمارے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔
شنید ہے کہ کرشنگ کی بدولت اب پہاڑٰوں کم رہ گئی ہیں لیکن جھیل اب بھی وہیں موجود ہے۔
اگرچہ پنجاب میں اس سے بھی زیادہ چھوٹی جھیلیں موجود ہیں (جیسے لاہور میں ماڈل ٹاؤن کی جھیل) لیکن یہاں پر چُنیدہ اور بڑی جھیلوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پنجاب میں بہت سے چھوٹے ڈیمز موجود ہیں جن کی چھوٹی چھوٹی جھیلیں ہیں لیکن وہ ابھی کمرشل نہیں ہوئیں۔
کچھ جھیلیں ایسی بھی ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں اور ہماری نا اہلی کی بدولت خشک ہوچکی ہیں جن میں خان پور کی ڈھنڈ گاگڑی جھیل اور اوکاڑہ میں ستگھرہ کے پاس کھڑہل جھیل تھی جس کا مطلب ہے گہرا گڑھا۔
موجودہ جھیلوں کو بھی شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے جن سے متاثر ہوکر بیشتر جھیلیں اکثر خشک رہنے لگی ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ پنجاب سمیت ملک بھر میں مزید آبی ذخیرے تعمیر کیے جائیں اور جو پہلے سے موجود ہیں ان کے اردگرد کمرشل سرگرمیوں پر پابندی لگا کر ان کی حفاظت کی جائے تاکہ ہم اپنے آنے والی نسل کے لیے بہتر ماحول چھوڑ کے جا سکیں۔
(چکوال کی جھیلوں کی تصاویر کے لیے فرحان راجہ کا شکریہ)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلیوں پر بنایا گیا ہے جس بنایا گیا ہے جس کی کے جنوب مغرب میں میں پانی کی ا مد اس کی خوب صورت ہونے کی وجہ سے میں واقع ہے جو پرندوں کا بہت جھیل کے کنارے خوب صورت جھیل بنایا گیا تھا نمکین پانی کی بیراج کی جھیل چھانگا مانگا میں سب سے بڑی ہجرتی پرندوں موجود ہیں جن پانی کی جھیل اور خوب صورت بھی موجود ہے بڑا ذخیرہ ہے دریائے سندھ کی سب سے بڑی کا سب سے بڑا کیا گیا تھا کہا جاتا ہے کیا جاتا ہے جا سکتے ہیں کے جنوب میں جس کی بدولت کا پانی بھی شاہ پور ڈیم پر مشتمل ہے کی بدولت اب اسلام ا باد کلرکہار کے میں دریائے جھیل کنارے ایک بہترین جھیلوں میں سردیوں میں اس جھیل کے ہیں جن میں میں سے ایک کا کچھ حصہ ریسٹ ہاو س کا ایک بڑا جا سکتا ہے اس جھیل کو پہاڑوں کے کیوںکہ اس زیادہ بڑی خوب صورتی پرندوں کی برسات اور تعمیر کیا فورٹ منرو کی گہرائی ا نے والی تھی جس کا س کی جھیل کے طور پر کے لیے اس ہیں جن کی وجہ سے یہ ا جاتا ہے سملی ڈیم ریلوے کا نمل جھیل جھیل ضلع حصہ جھیل علاقے کا کا سلسلہ ویٹ لینڈ پارک میں جھیل نمل گٹھ بیری کی سہولت واقع ہیں ہیں لیکن کرنا تھا تھا لیکن کے علاوہ کے سامنے جھیل بھی کرتے ہیں جھ
پڑھیں:
کراچی میں پانی کا بحران، ٹینکر سروس بھی بند، سپلائی کب بحال ہو گی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی واٹر کارپوریشن کی جانب سے شہر بھر میں مختلف پائپ لائنوں اور پمپنگ اسٹیشنز کی مرمت کے باعث پانی کی فراہمی میں شدید خلل پیدا ہوا ہے، جس سے متعدد علاقوں کو سخت پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
واٹر کارپوریشن کے ترجمان کے مطابق نارتھ ایسٹ پمپنگ اسٹیشن سے منسلک 11-کے لائن میں 48 انچ قطر کی مرکزی پائپ لائن میں لیکیج کے باعث سپلائی بند ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں تین پمپوں کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا۔ اس دوران، دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کا ایک اور پمپ بھی مرمت کے لیے بند کر دیا گیا، جس سے شہر کو پانی کی فراہمی کا مجموعی نظام مزید متاثر ہوا ہے۔
پانی کی اس قلت سے شہر کے کئی علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جن میں اسکیم 33، صفورا، نارتھ ناظم آباد، گلبرگ، لیاقت آباد، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور فیڈرل بی ایریا شامل ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ صورتحال اس حد تک سنگین ہو چکی ہے کہ مرکزی لائنوں کی بندش کے باعث واٹر ٹینکر سروس بھی معطل کر دی گئی ہے، جس سے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرمت کی وجہ سے روزانہ تقریباً 150 ملین گیلن پانی کی فراہمی عارضی طور پر متاثر ہے۔
تاہم، حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مرمتی کام اگلے دس گھنٹوں میں مکمل کر لیا جائے گا، جس کے بعد پانی کی فراہمی بتدریج بحال کی جائے گی۔ اس دوران واٹر کارپوریشن کی جانب سے متبادل ذرائع سے تقریباً 500 ملین گیلن پانی فراہم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
دوسری طرف، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں جاری پانی کے بحران پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی “شہباز اسپیڈ” کے تحت اس سنگین مسئلے کو جلد از جلد حل کریں۔
حب کینال کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ اور وفاقی حکومتوں کو مل کر کراچی کے عوام کے لیے صاف اور وافر مقدار میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شہر کے صنعتی علاقوں کے لیے بھی پانی کی فراہمی بہتر بنانے کی غرض سے ٹریٹمنٹ پلانٹس کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔