موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی غذائی سلامتی کو خطرہ ،2030 تک موافقت کےلئے ملک کو سالانہ 7 سے 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے ، ڈاکٹر سید توقیر شاہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر سید توقیر شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان موسمیاتی اعتبار سے متاثر ہونے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کی قومی غذائی سلامتی دوہرے خطرات سے دوچار ہے، ہماری ضرورت فوری اور واضح ہے جس میں پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ فطرت پر مبنی حل، سیلابی میدانوں کی بحالی، آبپاشی کے شعبہ کی ترقی اور واٹر شیڈ مینجمنٹ کے نفاذ کا امتزاج ہونا چاہئے۔ یہاں موصول ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق وہ عالمی موسمیاتی مالیاتی ادارے کے زیر اہتمام منعقدہ ’’روم واٹر ڈائیلاگ ‘‘ سے خطاب کررہے تھے۔ اس ڈائیلاگ میں سینکڑوں ممالک کے سربرہان مملکت و وزرا اور سول سوسائٹی اور ترقیاتی اداروں کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی اور پانی کی بحرانوں کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کا بحران پاکستان سمیت بہت سے ممالک کےلئے ایک وجودی چیلنج ہے ، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا پانچواں ملک ہے جسے انتہائی موسمیاتی واقعات اور دائمی وسائل کے دبائو کے دوہرے خطرات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے قومی غذائی سلامتی خطرے میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دو طرح کے حالات کا سامنا ہے جن میں تباہ کن سیلابی صورتحال جیسا 2022 میں دیکھا گیا جہاں ملک بھر میں سیلاب کی وجہ سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ، 4 ملین ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہوئی اور ایک کروڑ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہوگئے، حالیہ 2025 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کی شدت بھی اتنی ہی تباہ کن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دوسرا بڑا چیلنج پانی کی شدید کمی کا بھی ہے ، پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30 دن کی سپلائی تک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ واضح اور فوری ضرورت کے طور پر ہمیں اپنے واٹر سٹرکچر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جہاں روایتی اور زیادہ ذخیرہ کرنے والے حل کے ساتھ ساتھ فطرت پر مبنی حل ، سیلابی میدانوں کی بحالی، لچکدار آبپاشی کی تکنیکوں کی ترقی اور واٹر شیڈ مینجمنٹ کے نفاذ کے امتزاج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عالمی موسمیاتی مالیاتی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو 2030 تک صرف موافقت کےلئے سالانہ 7 سے 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے،اس کے باوجود ہم ایک ایسے عالمی مالیاتی ڈھانچے کا سامنا کر رہے ہیں جو مطلوبہ سرمایہ کاری کو ایک تضاد میں بدل دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی موسمیاتی فنڈ کی ناکامیوں کی وجہ سے پانی کی لچک میں سرمایہ کاری اور اختراع کی ہماری صلاحیت کو براہ راست متاثر کرتا ہے، قومی ضرورت کے باوجود پاکستان دستیاب عالمی موسمیاتی فنڈز سے محروم رہا ہے کیونکہ بین الاقوامی معیار اکثر انتہائی مخصوص ، تکنیکی طور پر پیچیدہ اور دیگر مطالبات کی زد میں ہے، اس میں ادارہ جاتی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ منظور شدہ فنڈز بھی سست ترسیل اور کئی سالہ قانونی عمل کے تابع ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر دستیاب موسمیاتی فنڈز قرضوں اور رعایتی قرضوں کی شکل میں ہوتے ہیں جس میں صرف ایک چھوٹا سا حصہ گرانٹس کے طور پر دستیاب ہوتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ قرض ان کمزور معیشتوں پر لادا جاتا ہے جو پہلے ہی میکرو اکنامک استحکام کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ عالمی موسمیاتی مالیات کو فنڈز کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ بیورو کریسی کی وجہ سے روکا جا رہا ہے۔ موسمیاتی مالیاتی اداروں کی اصلاح کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جی سی ایف میں بورڈ کی منظوری تک اوسط منظوری کا وقت 24 ماہ یا اس سے زیادہ ہے ، منظوری کے بعد پہلی ترسیل کا اوسط دورانیہ 9 سے 18 ماہ ہے ، خود جی سی ایف کی یونٹ آئی ای یو کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فنڈ کے اندرونی عمل پیچیدہ ، منتشر اور رکاوٹوں سے بھرپور ہیں، بڑے موسمیاتی فنڈز کو ترقیاتی ماہرین کی طرف سے سست پروسیسنگ ، ضرورت سے زیادہ بیورو کریسی اور ترسیل میں تاخیر کے لئے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے عالمی شراکت داروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پیچیدگی اور قرض کے ڈھانچے سے رفتار اور اعتماد کی طرف ایک نمونہ کے طور پر تبدیل کریں ، ہمیں مالیاتی اختراع کے جزو کی ضرورت ہے جو ملاوٹ شدہ مالیات ، گرین بانڈز ، انشورنس میکنزم اور نجی سرمایہ کاری کو کم خطرہ بنانے اور چھوٹے کسانوں کےلئے مالیات تک رسائی بڑھانے کےلئے انکیوبیشن پروگراموں پر توجہ دے ۔ 2030 کے عالمی ترقیاتی ایجنڈے کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر توقیر شاہ نے کہا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں صاف پانی اور بھوک کے خاتمے کے اہداف اس وقت تک ناقابل حصول رہیں گے جب تک ہم اس چیلنج کا سامنا براہ راست نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ پانی صرف ندیوں اور نہروں کےلئے نہیں بلکہ لوگوں ، وقار اور زندگی کےلئے ہے۔ انہوں نے علاقائی اور عالمی شراکت داروں کو پاکستان کی طرف سے مکمل تعاون کی پیشکش کی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ عالمی موسمیاتی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی وجہ سے کا سامنا
پڑھیں:
سعودی کابینہ نے مال سال 2026 کے لیے 1.313 ٹریلین ریال کے بجٹ کی منظوری دے دی
سعودی کابینہ نے مالی سال 2026 کے بجٹ کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اس کی منظوری دے دی۔
عرب میڈیا کے مطابق نئے بجٹ کے تحت آئندہ سال کی آمدنی 1.15 ٹریلین ریال (310 ارب ڈالر) جبکہ اخراجات 1.313 ٹریلین ریال (350 ارب ڈالر) مقرر کیے گئے ہیں، اور مجموعی خسارہ 165.4 ارب ریال متوقع ہے۔
کابینہ کا اجلاس دمام میں ولی عہد وزیراعظم اور کونسل آف اکنامک اینڈ ڈیولپمنٹ کے چیئرمین شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
مزید پڑھیں: امیر مدینہ منورہ کا سعودی وژن 2030 کے اہداف کے حصول کے لیے منصوبے جاری رکھنے پر زور
شہزادہ محمد بن سلمان نے وزرا اور اعلیٰ حکام کو ہدایت کی کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داری کے مطابق بجٹ میں شامل ترقیاتی، معاشی اور سماجی منصوبوں پر مکمل یکسوئی کے ساتھ عمل کریں، تاکہ وژن 2030 کے اہداف پورے ہوں اور عوامی مفادات کو ہمیشہ اولین ترجیح دی جا سکے۔
اپنے خطاب میں ولی عہد نے کہاکہ حکومت کی پہلی ترجیح عوام کی بہتری ہے اور اب تک کی تمام کامیابیاں اللہ کے فضل اور خادمِ حرمین شریفین کی رہنمائی کی بدولت ممکن ہوئی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سال 2026 میں مملکت اپنے وژن 2030 کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوگی، جس کے لیے اہداف کے حصول کی رفتار مزید تیز کرنا ضروری ہے، تاکہ 2030 کے بعد بھی پائیدار ترقی کے فوائد برقرار رہیں اور ملک کی ترقی کے ثمرات آنے والی نسلوں تک منتقل ہوں۔
انہوں نے کہاکہ وژن 2030 کے آغاز سے غیر تیل معاشی سرگرمیوں میں نمایاں بہتری آئی، افراطِ زر دنیا کے مقابلے میں کم رہا اور نجی شعبے کو ترقی کا مؤثر شريک بنایا گیا۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت اقتصادی ترقی کے فروغ اور مالی استحکام برقرار رکھنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے نتیجے میں نجی شعبے میں سعودی ملازمین کی تعداد 2.5 ملین تک پہنچ گئی ہے، جس سے بے روزگاری کی شرح مسلسل کم ہو کر وژن 2030 کے مقررہ 7 فیصد ہدف سے بھی نیچے آگئی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو بھی مختلف شعبوں میں زیادہ روزگار کے مواقع ملے، جبکہ سماجی معاونت اور فلاحی پروگرام بدستور جاری رہیں گے۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے ولی عہد نے بتایا کہ سال 2024 کے اختتام تک 65.4 فیصد سعودی خاندانوں کو ذاتی رہائش کی سہولت فراہم کر دی گئی، جو 2025 کے مقررہ ہدف 65 فیصد سے آگے ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ معاشی اصلاحات نجی شعبے کے کردار میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، جس کے نتیجے میں نجی شعبہ حقیقی جی ڈی پی کا 50.3 فیصد حصہ بن جائے گا۔
مزید پڑھیں: ’سعودی وژن 2030 اور دفاعی معاہدہ پاکستان کے لیے ممکنہ ترقی کی نوید ثابت ہو سکتے ہیں‘
ولی عہد نے بنیادی ڈھانچے کی بہتری، جاری ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل اور عوام، مقیمین اور زائرین کو فراہم کی جانے والی بنیادی خدمات کے معیار کو مزید بلند کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
خطاب کے اختتام پر انہوں نے کہاکہ مملکت اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کے فروغ، پائیدار ترقی کے فروغ اور اندرون و بیرون ملک انسانی امداد کے منصوبوں کو جاری رکھے گی، اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے ترقی کا سفر پُراعتماد طریقے سے جاری رکھا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بجٹ منظور سعودی کابینہ شہزادہ محمد بن سلمان ولی عہد وی نیوز