data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جنیوا (انٹرنیشنل ڈیسک) اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کے تقریباً 80 فیصد غریب افراد (88 کروڑ 70 لاکھ لوگ )ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جو شدید گرمی، سیلاب اور دیگر موسمیاتی خطرات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یواین ڈی پی ) اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے آئندہ ماہ برازیل میں ہونے والی کوپ 30 موسمیاتی کانفرنس سے قبل جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ میں عالمی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں پہلی بار کثیر جہتی غربت اور موسمیاتی خطرات کے ڈیٹا کو ایک ساتھ پیش کیا گیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح موسمیاتی بحران عالمی غربت کے نقشے کو ازسرِ نو ترتیب دے رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا اور سب صحارا افریقا وہ خطے ہیں جہاں سب سے زیادہ غریب لوگ موسمیاتی اثرات سے متاثر ہو رہے ہیں جن میں جنوبی ایشیا میں 38 کروڑ اور افریقا میں 34 کروڑ 40 لاکھ لوگ شامل ہیں۔ جنوبی ایشیا میں تقریباً 99.

1 فیصد غریب افراد کسی نہ کسی موسمیاتی خطرے کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ 91.6 فیصد افراد دو یا اس سے زیادہ خطرات کی زد میں ہیں، جو عالمی سطح پر سب سے بڑی تعداد ہے۔ اقوام متحدہ کے قائم مقام ایڈمنسٹریٹر ہاؤ لیانگ زو نے کہا کہ غربت اب صرف ایک سماجی و معاشی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ موسمیاتی ایمرجنسی کے تباہ کن اثرات سے جڑ چکا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 1.1 ارب افراد کثیر جہتی غربت کا شکار ہیں، جب کہ ان میں سے 88 کروڑ 70 لاکھ کسی نہ کسی موسمیاتی خطرے کے براہ راست اثرات سے دوچار ہیں۔ ان میں 65 کروڑ 10 لاکھ افراد 2یا اس سے زیادہ اور 30 کروڑ 90 لاکھ 3یا 4موسمیاتی خطرات کا بیک وقت سامنا کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل ڈیسک گلزار

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: موسمیاتی خطرات اقوام متحدہ رپورٹ میں رہے ہیں گیا ہے

پڑھیں:

پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں مزید کمی کا خدشہ

مجموعی ملکی پیداوار جو 30 ستمبر کو پچھلے سال کے مقابلے میں 49 فیصد زائد تھی، وہ اب کم ہو کر 22 فیصد زائد رہ گئی ہے اور اسی طرح پنجاب میں کپاس کی پیداوار جو پچھلی رپورٹ میں 56 فیصد زائد تھی، جو اب 28 فیصد زائد ہے، جبکہ سندھ کی پیداوار 45 فیصد زائد سے کم ہو کر اب صرف 19 فیصد زائد رہ گئی۔ اسلام ٹائمز۔ کپاس کی مجموعی پیداوار میں اگرچہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، لیکن یکم سے 15 اکتوبر کے دوران پیداوار 30 فیصد گھٹنے سے آنے والے دنوں میں کپاس کی پیداوار میں مزید کمی کے خدشات پیدا ہوگئے، جس سے روئی، کاٹن سیڈ اور آئل کیک کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں کپاس کی پیداوار کے بارے میں پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن اور کراپ رپورٹنگ سروسز پنجاب کے اعدادو شمار میں 100فیصد کے لگ بھگ فرق بدستور قائم ہے۔ چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ پی سی جی اے کی جانب سے کپاس کی مجموعی پیداوار سے متعلق جاری ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق 15 اکتوبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں 22 فیصد کے اضافے سے مجموعی طور پر 37 لاکھ 96 ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے، تاہم یکم سے 15 اکتوبر کے دوران 7 لاکھ 51 ہزار گانٹھوں جننگ فیکٹریوں میں ترسیل ہوئی ہے۔

احسان الحق نے بتایا کہ زیر تبصرہ مدت کے دوران پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں 15 لاکھ 20 ہزار گانٹھیں جبکہ سندھ میں 22 لاکھ 76 ہزار گانٹھیں پہنچی ہیں، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں بالترتیب 28 اور 19 فیصد زائد ہیں۔ پی سی جی اے کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مذکورہ عرصے میں ٹیکسٹائل ملوں نے جننگ فیکٹریوں سے 30 لاکھ 40 ہزار روئی کی گانٹھوں کی خریداری کی ہے، جبکہ برآمد کنندگان نے اس عرصے کے دوران ایک لاکھ 25 ہزار گانٹھوں کی خریداری کی ہے، ملک میں فی الوقت 520 جننگ فیکٹریاں فعال ہیں۔ احسان الحق نے بتایا کہ اس سال پنجاب میں اگیتی کپاس کی زیادہ کاشت اور درجہ حرارت میں غیر متوقع اضافے سے کپاس کی چنائی قبل از وقت شروع ہونے سے ظاہری طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ اس سال پاکستان میں کپاس کی مجموعی قومی پیداوار گذشتہ سال کی بہ نسبت زیادہ ہوگی، لیکن متعدد ماہرین نے اکتوبر میں آنے والی پیداواری اعدادوشمار کی رپورٹس میں کپاس کی پیداوار گھٹنے کی پیشگوئی کی تھی۔

اس پیشگوئی کے درست ہونے کا تجزیہ پی سی جی اے کی تازہ ترین رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یکم سے 15 اکتوبر کے دوران کپاس کی مجموعی پیداوار پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 30 فیصد کم ہے، جبکہ مجموعی ملکی پیداوار جو 30 ستمبر کو پچھلے سال کے مقابلے میں 49 فیصد زائد تھی، وہ اب کم ہو کر 22 فیصد زائد رہ گئی ہے اور اسی طرح پنجاب میں کپاس کی پیداوار جو پچھلی رپورٹ میں 56 فیصد زائد تھی، جو اب 28 فیصد زائد ہے، جبکہ سندھ کی پیداوار 45 فیصد زائد سے کم ہو کر اب صرف 19 فیصد زائد رہ گئی ہے۔ خدشہ ہے کہ ایک ماہ بعد آنے والی پیداواری رپورٹ میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ حالیہ رپورٹ میں کپاس کی پیداوار توقعات سے کم ہونے کے باعث کاٹن سیڈ اور آئل کیک کی قیمتوں میں 100 تا 200 روپے فی من تک کے اضافے کے باعث ان کی قیمتیں اب بالترتیب 3 ہزار 600 اور 3 ہزار 100 روپے فی من کی سطح تک پہنچ گئی ہیں، جبکہ پیر سے شروع ہونے والے نئے ہفتے سے روئی کی قیمتوں میں بھی تیزی کا رجحان سامنے آنے کے امکانات ہیں۔ پی سی جی اے کی رپورٹ کے مطابق 15 اکتوبر تک پنجاب میں کپاس کی 15 لاکھ 20 ہزار گانٹھوں کی پیداوار ہوئی ہے، جبکہ سی آر ایس کی رپورٹ کے مطابق یہ پیداوار 30 لاکھ 81 ہزار گانٹھ ہے، جو پی سی جی اے کی رپورٹ کے مقابلے میں 100 فیصد سے بھی زائد ہے، جس سے کاٹن اسٹیک ہولڈرز میں اپنی حکمت عملی کی بنیاد کے تعین میں مشکلات پیش آ رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں 20 سے 30 سال کے نوجوانوں کی بڑی تعداد ذیابیطس کا شکار
  • پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں مزید کمی کا خدشہ
  • ایک ہفتے میں ایک کروڑ سے زائد زائرین کی حرمین آمد
  • معاشی دبائو:20سال کے نوجوان بھی ذیابیطس کا شکار
  • غزہ میں دس لاکھ سے زائد خواتین اور بچیوں کو خوراک کی ضرورت، اقوامِ متحدہ کا انتباہ
  • امدادی کٹوتیاں: 14 کروڑ لوگوں کو فاقوں کا سامنا، ڈبلیو ایف پی
  • اقوام متحدہ کی رپورٹ نے افغانستان میں فتنہ الخوارج کی موجودگی کی نشاندہی کردی
  • اقوام متحدہ کی رپورٹ نے افغانستان میں القاعدہ اور فتنہ الخوارج کی موجودگی بے نقاب کر دی
  • اقوام متحدہ کی عالمی ڈیجیٹل تقسیم ختم کرنے کے لیے فوری اقدام کی اپیل