جولائی تا نومبر تجارتی خسارے میں 37.17 فیصد اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
اسلام آباد:
رواں مالی سال 2025-26ء کے پہلے پانچ ماہ میں تجارتی خسارے اور درآمدات میں اضافہ ہوا جب کہ برآمدات میں کمی آگئی۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال جولائی تا نومبر تجارتی خسارے میں 37.17 فیصد اضافہ ہوا اور تجارتی خسارہ 15 ارب 46 کروڑ 90 لاکھ ڈالر پر پہنچ گیا۔
ادارہ شماریات کے مطابق نومبر میں سالانہ بنیاد پر تجارتی خسارہ 32.
رپورٹ کے مطابق جولائی تا نومبر درآمدات 13.26 فیصد بڑھ کر 28 ارب 31 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہیں جبکہ نومبر میں درآمدات 5 ارب 25 کروڑ 30لاکھ ڈالر رہیں۔
ادارہ شماریات کے مطابق جولائی تا نومبر برآمدات 6.39 فیصد کم ہو کر 12 ارب 84 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہیں، نومبر میں سالانہ بنیاد پر برآمدات میں 15.35 فیصد اور ماہانہ بنیاد پر 15.80فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ نومبر میں برآمدات 2 ارب 39کروڑ 80لاکھ ڈالر رہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جولائی تا نومبر لاکھ ڈالر رہیں بنیاد پر کے مطابق
پڑھیں:
نومبر میں مہنگائی کی شرح معمولی کمی کے ساتھ 6.1 فیصد پر آگئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملک میں نومبر 2025 کی مجموعی مہنگائی معمولی کمی کے بعد 6.1 فیصد ریکارڈ کی گئی، جو اکتوبر کی 6.2 فیصد شرح سے کم ہے۔
اگرچہ مہنگائی میں ہلکی کمی آئی ہے مگر یہ گزشتہ سال کے اسی ماہ کی 4.9 فیصد شرح سے اب بھی زیادہ ہے، تاہم بنیادی افراطِ زر میں نمایاں کمی نے شرحِ سود میں ممکنہ کمی کی امیدیں بڑھا دی ہیں۔
ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کی بنیاد پر مجموعی افراطِ زر میں استحکام دیکھا گیا ہے۔ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ بنیادی مہنگائی کی کمی اس بات کی علامت ہے کہ مستقبل میں پالیسی ریٹ میں نرمی کا امکان بڑھ رہا ہے، جس سے معاشی سرگرمیوں میں بہتری آسکتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2026 کے ابتدائی پانچ ماہ میں اوسط مہنگائی 5.01 فیصد ریکارڈ ہوئی جو گزشتہ سال کی 7.88 فیصد کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدی اخراجات میں کمی، ایکسچینج ریٹ کے استحکام اور سپلائی چین کی بہتری نے افراطِ زر پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مزید معاشی تجزیوں کے مطابق اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آئندہ مہینوں میں مہنگائی مزید کم ہوسکتی ہے، جس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی میں مثبت تبدیلی کا امکان بڑھ جائے گا۔