پاکستان میں لباس کے نئے ٹرینڈز؛ 2025 میں فیشن کیسا رہا؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
پاکستان میں فیشن کا انداز ہمیشہ اور موسم کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے، تاہم 2025ء میں لباس کے ٹرینڈز کو ایک نئی جہت ملی ہے۔
بدلتے موسم، ذوق اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات نے فیشن کی دنیا میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ نوجوان ہوں یا خواتینِ خانہ، ہر کوئی ایسے لباس چاہتا ہے جو نہ صرف اسٹائلش ہوں بلکہ روزمرہ زندگی میں پریکٹیکل بھی ہوں۔ اسی وجہ سے رواں سال کے ٹرینڈز میں لباس نہ صرف خوبصورت ہیں بلکہ آرام دہ اور استعمال میں آسان بھی ہیں۔
سب سے پہلے اگر رنگوں کے انتخاب کی بات کی جائے تو اس سال ہلکے اور ملائم شیڈز دوبارہ مقبول ہوئے ہیں۔ خاص طور پر پیسٹل پنک، سی گرین، لائٹ بلیو اور خاکی رنگ نوجوان لڑکیوں کی اولین پسند رہے۔ دوسری جانب خواتین میں آف وائٹ، بیج اور میوٹڈ گولڈ شیڈز کی مانگ بڑھ رہی ہے، کیونکہ یہ رنگ ہر طرح کی تقاریب اور روزمرہ دونوں میں آرام سے پہنے جا سکتے ہیں۔
2025 میں لباس کے حوالے سے کٹ لائنز بھی خاصی تبدیل ہوئی ہیں۔ جہاں گزشتہ سال اوور سائزڈ شلوار قمیص اور میکسیز کا فیشن رواں تھا، وہیں اس سال فیشن زیادہ اسمارٹ کٹ اور فلوئی فٹنگ کی طرف راغب رہا۔ کمر پر ہلکی فٹنگ، بازوؤں پر لوز اسٹائل اور قمیص میں فرنٹ اوپن ڈیزائن تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔
لڑکیوں میں شارٹ فراکس اور ٹراؤزرز کے ساتھ پہننے والے کو۔آرڈ سیٹس بھی بہت ٹرینڈ میں آ گئے، کیونکہ یہ نہ صرف ماڈرن تاثر دیتے ہیں بلکہ پہننے میں بے حد آرام دہ بھی ہیں۔
کڑھائی اور آرٹ ورک میں اس سال کم مگر نمایاں ڈیزائن سب سے زیادہ پسند کیے گئے۔ رنگین دھاگے کی باریک کڑھائی، شیفون پر لائن اسٹون ورک اور لان کے لباس پر ڈیجیٹل پرنٹس دوبارہ فیشن میں آ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خطاطی یا ثقافتی پیٹرن سے مزین لباس بھی نوجوان نسل میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں کیونکہ یہ روایتی اور جدید فیشن کے امتزاج کی بہترین مثال ہیں۔
پاکستانی فیشن میں 2025ء کا ایک اور بڑا ٹرینڈ کمفرٹ بیسڈ فیشن رہا۔ یعنی لوگ اب ایسے کپڑے خریدنا چاہتے ہیں جنہیں آفس، کیمپس اور گھریلو تقریبات میں باآسانی پہنا جا سکے۔ اسی لیے لان، کاٹن نیٹ اور نرم شیفون جیسا ہلکا پھلکا میٹریل سب سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ ان کپڑوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ موسم کی شدت میں بھی آرام دہ رہتے ہیں۔
فیشن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال ری سائیکلڈ فیبرک اور ماحول دوست مواد کا استعمال بھی بڑھا ہے۔ پاکستانی ڈیزائنرز اب پائیدار فیشن کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں، جو مستقبل میں ایک بڑا ٹرینڈ بن سکتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو 2025ء کے فیشن میں سادگی، خوبصورتی، آرام اور جدید انداز(یعنی آل ان ون) شامل رہے۔ پاکستانی خواتین اور نوجوان نئے رنگ، نئے اسٹائل اور نیا اعتماد لے کر فیشن کو مزید منفرد بنانے کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان بھر میں جنوری سے نومبر 2025 تک صنفی بنیاد پر خواتین پر تشدد کے واقعات کی رپورٹ جاری
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) ساحل میڈیا ٹیم انفرادی طور پر نے جنوری سے نومبر 2025 تک صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات کی رپورٹ جاری کردی ہے، جس کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات 2024 میں (5253) رپورٹ ہوئے جبکہ 2025 میں (6543) رپورٹ ہوئے۔ یعنی پچھلے سال کی رپورٹ سے 25 فیصد کیسز بڑھے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ساحل کی جانب سے 2024 سے صنفی بنیاد پر تشدد کی معلومات اکٹھا کی جا رہی ہیں، جس کا مقصد محفوظ اور زیادہ مساوی کمیونٹیز کو یقینی بنانا ہے۔2025 کی رپورٹ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کے 81 قومی اخبارات سے جمع کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔
ریڑھی چھین لی ، بچوں کا سکول چھوٹ گیا ، کون ہے میری بد حالی کا ذمہ دار ؟ پیرافورس کی کارروائی سے متاثرہ شخص کی دہائی
رپورٹ میں بتایا گیا کہکیسز کی کل تعداد 6543 ہے جس میں قتل 1414، اغوا 1144، تشدد 1060، خودکشی 649 اور عصمت دری کے 585 کیسز رپورٹ ہوئے۔کُل کیسز میں سے 32فیصد میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں میں اپنے تھے جبکہ 17فیصد غیر تھے اور 12فیصد بدسلوکی کرنے والے شوہر تھے جبکہ 21فیصد کیسز میں زیادتی کرنے والے نامعلوم تھے۔
صنفی بنیاد پر تشدد کے زیادہ تر واقعات ذاتی جگہوں پر پیش آئے ، جن میں متاثرہ اپنے گھر میں تھی ، جس کے (60فیصد کیسز) ہیں اور بدسلوکی کرنے والے کی جگہ پر (13فیصد کیسز) بنتے ہیں۔کل کیسز میں سے 78فیصد پنجاب اور 14فیصد کیس سندھ سے رپورٹ ہوئے۔ باقی کیسز دوسرے صوبوں سے رپورٹ ہوئے جن میں 6فیصد کیسز کے پی سے، 2فیصد کیسز بلوچستان اور باقی جموں کشمیر، اسلام آباد اور گلگلت بلتستان سے ہوئے۔
ویڈیو: شہری نے اپنے سر پر مستقل ہیلمٹ پہن لیا، دانت صاف کرتے، نہاتے، سوتے اور کھانا کھاتے وقت بھی نہیں اتارتا
تمام رپورٹ شدہ کیسز میں سے 77فیصد کیسز پولیس کے پاس رجسٹرڈ ہوئے، 21فیصد کیسز میں رجسٹریشن کا ذکر نہیں کیا گیا اور 1% کیسز پولیس کے پاس غیر رجسٹرڈ تھے جبکہ 2 کیسز میں پولیس نے کیس درج کرنے سے انکار کیا۔
مزید :