پانی کو ترستے کراچی کے عوام
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اے ابن آدم برسوں سے کراچی کے عوام پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں ہر ماہ اربوں کے بل وصول کرنے والا محکمہ واٹر کارپوریشن کراچی کے پانی کو فروخت کررہا ہے ایک زمانہ تھا کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر پانی فراہم ہوتا تھا ہم مارٹن کوارٹرز میں رہتے تھے ہر سرکاری کوارٹر میں پانی کا کنکشن ہوتا تھا پانی آنے کا ایک وقت مقرر تھا اُس وقت میں 3 سے 4 گھنٹے تک روزانہ پانی آتا تھا کوئی موٹر یا پمپ کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ کوارٹروں کے پیچھے کچی آبادی تھی جب ہمارے گھر کا پانی بھرجاتا تو ابا جان کچی آبادی کے لوگوں کے لیے پانی کا پائپ لگا دیتے لوگ اپنے اپنے برتن بھر بھر کر لے جاتے کیونکہ کچی آبادی میں پانی کا کوئی کنکشن نہیں تھا جب تک پانی بند نہیں ہوتا تھا ہمارے سرکاری کوارٹر سے لوگ پانی بھرتے رہتے تھے تو والد صاحب کو دعائیں دیتے تھے پھر 1987ء میں ہم سمن آباد گلبرگ اپنے گھر میں شفٹ ہوگئے پانی کا مسئلہ وہاں بھی نہیں تھا، 1990ء کے بعد ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا یہ پانی نئے علاقے آباد ہوئے بلند عمارتیں تعمیر ہونے لگی پھر پانی کراچی کے عوام کے لیے ایک نعمت بن گیا علاقوں میں ہفتہ کے ہفتہ پانی آتا لوگ پانی والے دن جاگتے رہتے پھر یہ سلسلہ شہر کراچی مقدر بن گیا، لوگوں نے بڑے پیمانے پر بورنگ کروانا شروع کردی گھر کے کاموں کے لیے بورنگ کا پانی اور پینے کے لیے منرل واٹر خرید کر پینا شروع کردیا، آج بھی بے شمار کراچی کے علاقے پانی کی نعمت سے محروم ہیں اس تمام کرپشن میں حکومت اور ادارے کا عملہ و افسران شامل ہیں واٹر بورڈ کے کئی بڑے افسران کرپشن کرکے بیرون ممالک شفٹ ہوچکے ہیں مگر کرپشن کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی جارہی ہے۔ آج یہ ایک مافیا بن چکا ہے۔
میرے کئی صحافی دوست واٹر بورڈ کی کرپشن کو اپنی رپورٹ میں ہائی لائٹ کرتے رہتے ہیں کچھ زرد صحافی تو باقاعدہ خبر کو نشر نہ کرنے پر ہفتہ وصول کرتے ہیں۔ مقامی صحافی اسلم شاہ کی ایک رپورٹ کئی اخبارات میں شائع ہوئی کہ ورلڈ بینک کی ہدایت کے باوجود واٹر بورڈ چھے سال سے کراچی میں پانی کی فراہمی کا ریکارڈ مرتب میں ناکام ہے، ورلڈ بینک نے اس پر اظہار ناراضی کیا۔ کراچی کے 25 ٹائونز میں پانی کی سپلائی کا ریکارڈ مرتب کرنا تھا کیونکہ کسی ٹائون میں زیادہ اور کسی ٹائون میں کم پانی فراہمی کا اعداد و شمار موجود نہیں۔ ٹیکس ریونیو پانی کے مطابق دو ارب روپے کم وصول کیا جارہا ہے شہر کے 211 پمپنگ اسٹیشنوں کے پانی کی سپلائی کا ریکارڈ مرتب کرنا تھا کہ کس پمپنگ اسٹیشن میں کتنا پانی سپلائی کیا جارہا ہے اور ٹیکس کتنا وصول کیا جاتا ہے۔ 55 سال پرانا نظام یعنی پائپ لائنوں میں انچ و فٹ کے لحاظ سے پانی کا لیول چیک کرکے پانی کی فراہمی کا اعداد و شمار کرتے ہیں۔ آج کے جدید کمپیوٹرائز دور میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پانی کا ریکارڈ موجود نہیں۔ نہ شہر کے پانی و سیوریج کی کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ یہ المیہ ہے کہ ورلڈ بینک کے 43 ارب کا قرضہ واٹر بورڈ اور سندھ سرکار نے کاغذوں میں خرچ کرنے کے باوجود نہ پانی کا مسئلہ حل ہوا اور نہ ہی سیوریج کے گندے پانی کے مسائل سے نجات ملی۔ تمام فنڈ افسران کی شاہ خرچیوں، گاڑیوں، مراعات، دورے پر خرچ ہوچکا ہے اور اس کو ادا کراچی کے عوام کررہے ہیں۔
اے ابن آدم حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ واٹر بورڈ کو ملنے والے فنڈز کا حساب میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنا چاہیے بلکہ جس ادارے کو بھی قرض ملے اس کے حساب کتاب کو اور کام سے پہلے (Before) اور کام کرنے کے بعد (After) کی فوٹوز اور مووی بھی ہونی چاہیے۔ کراچی کو اس کے کوٹے کے حساب سے پانی نہیں مل رہا ہے۔ لائنوں سے پانی چوری ہورہا ہے موجودہ کوٹے سے 25 کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے۔ واٹر بورڈ نے چند علاقوں میں یومیہ اور دیگر علاقوں میں پانی ناغہ کا نظام کررکھا ہے کراچی کے بے شمار علاقوں میں پانی ایک بوند بھی نہیں پہنچ رہا ہے لاکھوں شہری پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں جبکہ یہ شہر پابندی سے ٹیکس ادا کررہا ہے۔ ادارے نے ماضی میں کراچی کے ملنے والے کوٹے پر جانچ پڑتال اور نگرانی سمیت مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ ایک خبر کے مطابق کراچی کا پانی بحریہ ٹائون کو مل رہا ہے اس کام میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی مقامی لیڈر شپ نے اپنا بھاری حصہ وصول کیا ہے۔ ابن آدم کہتا ہے کہ واٹر بورڈ کو جماعت اسلامی کے سپرد کردو مجھے امید ہے کہ کراچی میں پانی کا اہم مسئلہ باآسانی حل ہوجائے گا جب تک ایماندار قیادت کے ہاتھوں میں ادارے نہیں آئیں گے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ عوام روڈوں پر نکل آئیں گے، پھر عوام خود تمہارا احتساب کریں گے۔
اللہ کی یہ نعمت جو اللہ مفت میں عطا کررہا ہے تم لوگوں نے اس کو ایک منافع بخش کاروبار بنادیا ہے۔ بجلی ایک بنیادی ضرورت ہے جس کو حکومت اور سرمایہ داروں نے مل کر منافع بخش کاروبار بنا رکھا ہے۔ یہ سارے ادارے جن کا کام عوام کو ان کی بنیادی سہولت فراہم کرنا ہے وہ ایک مافیا بن گئے ہیں۔ ہر شہری اگر ان اداروں کے خلاف عدالتوں میں جائے ان پر damages کلیم کرے تو شاید یہ ادارے ٹھیک ہوجائیں۔ کراچی کے مظلوم عوام کا سوائے جماعت اسلامی کے کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کراچی کو اپنا شہر کہنے والے ہی اس کراچی کے سوداگر ہیں، پانی کی چوری کی یہ خبر بھی میری نظروں سے گزری کے ایک مقامی اخبار کی خبر پر یہ کارروائی عمل میں آئی (FTM) فیڈرل ٹرنک مین لائن سے پانی کی چوری برسہا برس سے جاری ہے، واٹر بورڈ حکام شکایت پر کارروائی بھی کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح انتظامیہ ٹھیلے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور دوسرے دن ٹھیلے اسی مقام پر دوبارہ لگ جاتے ہیں۔ افسر آتا ہے کارروائی کرکے چلا جاتا ہے فوٹو اور مووی بنوا کر پھر اسی کا عملہ دوبارہ ٹھیلے لگانے کی اجازت دے دیتا ہے کیونکہ حرام کا بھی تو اپنا مزا ہے ایک بار منہ کو یہ لگ جائے تو آسانی سے یہ عادات ختم نہیں ہوتی پھر پانی مافیا کارروائی کے بعد بھی باز نہیں آتی۔ 33 انچ قطر کی اس بڑی لائن سے ماہانہ کروڑوں گیلن پانی چوری کیا جاتا ہے۔ میٹھے پانی کی غیر قانونی فروخت میں واٹر بورڈ کے افسران کو بھتا ادا کرکے چلایا جاتا ہے، پانی کی چوری کی روک تھام کا شعبہ اینٹی تھیفٹ سیل کا کام اس مافیا کے خلاف کارروائی کرنا ہے اس شعبہ نے مخبروں کے نیٹ ورک نے سراغ لگایا جس پر رینجرز کی نگرانی میں فوری کارروائی کی گئی جس کے نتیجے میں ناظم آباد ایک نمبر اور اورنگی نالہ سے 8 غیر قانونی کنکشن اور دو سرنگیں برآمد کرلیں۔ معلوم ہوا ہے کہ FTM ڈویژن اس چوری سے لاعلم نہیں تھا انہیں بھتا دینے پر ہی غیر قانونی کاروبار چلایا جارہا ہے یہ جو کارروائی ہوئی ہے وہ افسران کا ہفتہ نہ ملنے پر ہوئی یہ آمدنی لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں کی وصولی تھی یہ پانی لیاقت آباد، ناظم آباد، گولیمار، اسحاق آباد، ڈاکخانہ، پاک کالونی اور بلدیہ ٹائون کے مکین کی امانت تھا جو غیر قانونی کنکشن کے ذریعے فیکٹریوں کو دیا جارہا تھا اور ان علاقوں کے عوام بل ادا کرنے کے باوجود پانی کو ترس رہے تھے۔ اب دیکھتے ہیں کہ کتنے دن تک پانی کی مافیا خاموش رہتی ہے۔
اے ابن آدم ہم کیا قوم ہیں بجلی ہم چوری کرتے ہیں ادائیگی شریف لوگ کرتے ہیں، پانی چور پانی چوری کررہے ہیں، گیس بھی چوری کی جارہی ہے، بس رشوت دو تمہارا نہ ہونے والا کام بھی باآسانی ہوجاتا ہے۔ آئیں اس چور بازاری کے نظام کو اور سرمایہ دارانہ نظام کو بند کرنے کے لیے آگے آئیں۔ جماعت اسلامی کے ممبر بن کر ملک کی واحد منظم اور دیانتدار جماعت میں شامل ہو کر نظام کو بدلنے کے انقلاب میں شامل ہوجائیں۔ اب قوم ان سیاست دانوں سے تنگ آچکی ہے۔ 21-22-23 سے لاہور مینار پاکستان پر نظام کو بدلنے کی تحریک شروع ہوچکی ہے میں قوم سے ایک ہی بات کرتا ہوں 78 سال میں سب کو آزما لیا ایک موقعہ جماعت اسلامی کو بھی دے کر دیکھ لو۔
شجاع صغیر
سیف اللہ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کراچی کے عوام جماعت اسلامی علاقوں میں کا ریکارڈ واٹر بورڈ میں پانی جارہا ہے کرتے ہیں کے پانی چوری کی سے پانی جاتا ہے پانی کو پانی کی کرنے کے نظام کو پانی کا کے لیے پانی ا
پڑھیں:
ہوا میںنمی کی کمی: مسائل اور ان کا حل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251202-03-4
مسلسل فون آرہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سانس نہیں آرہا۔ سانس میں مشکل ہے۔ بچہ رو رہا ہے، ناک بند ہو رہی ہے، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو سانس کی بیماری کا علاج کروا رہے تھے، بچے بھی اور نزلہ کھانسی کے مریض جو کئی کھانسی کے شربت پی چکے تھے فائدہ نہیں ہورہا تھا۔ سردی کا موسم شروع ہوتے ہی موسم خشک ہوگیا، کراچی میں باہر کی فضا کی Humidity (ہوا میں پانی کا تناسب) بہت کم ہوگیا، کراچی میں 35-30 فی صد، کوئٹہ میں 20 فی صد، چترال میں 15-20 فی صد ہوا میں نمی کا تناسب دن کے مختلف اوقات میں کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ سردیوں میں خشک ہوا کی وجہ سے وائرس اور بیکٹریا خوش ہوتے ہیں ان کی زندگی بڑھ جاتی ہے اور سانس کی نالی کو ٹارگٹ بناتے ہیں۔ سرد خشک ہوا سے سانس کی نالی بھی خشک ہوجاتی ہے، خشک سانس کی نالیوں پر وائرس باآسانی حملہ کرکے کامیاب ہوجاتے ہیں انفیکشن بار بار ہوتا ہے۔ بچوں میں سانس کی نالیاں بہت پتلی ہوتی ہیں، اس لیے بچوں میں مسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ خشک ہوا سانس کی نالیوں میں تنگی پیدا کرتی ہے، اس لیے بار بار ناک بند ہوجاتی ہے، بچے منہ کھول کر سانس لیتے ہیں۔ جلد پر بھی خشکی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے بار بار خارش ہوتی ہے۔
خشک موسم کے صحت پر اثرات: صرف سانس کی نالی کی تکلیف تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ نیند کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ بچوں کے بار بار اٹھنے، رونے سے ماں باپ کی نیند متاثر ہوتی ہے۔ ماں باپ کے سانس میں تکلیف، نزلہ کھانسی کی وجہ سے نیند متاثر ہوتی ہے۔ بار بار خارش ہونا بھی نیند کو متاثر کرتا ہے۔ رات کی نیند متاثر ہونے سے گھر، آفس، کاروبار ہر جگہ لوگوں میں چڑچڑا پن آجاتا ہے جس سے معاشرے میں نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں، تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔
مسئلہ کا حل کیا ہے؟: خشک موسم کے بارے میں آگاہی معاشرے میں عام کی جائے۔ انٹرنیٹ Google سرچ انجن والا موبائل ہر گھر میں موجود ہے۔ روزانہ یہ سرچ کرلیں Humidity in Karachi یا جس شہر کی بھی معلوم کرنی ہے اس طرح ہر اسمارٹ فون استعمال کرنے والا خود معلوم کرسکتا ہے کہ ہوا میں نمی کتنی ہے۔ ہیومیڈٹی عام طور پر 40-50 فی صد ہو تو ٹھیک ہے کم ہو تو اقدامات کرنے پڑیں گے۔
ایک حقیقت جو ہم میں سے اکثر کا مشاہدہ ہے کہ جب کسی مریض کو آکسیجن دی جاتی ہے تو پانی کی بوتل سے گزار کر دیتے ہیں، اس سے یہ پتا چلا کہ سانس میں جو ہوا جسم میں جائے اس میں پانی کی مقدار ضرور ہونی چاہیے۔ ہیومیڈٹی گھر کے باہر کی بتائی جاتی ہے گھر میں نمی کا تناسب باہر سے کم ہوتا ہے اگر باہر کی 40 ہے تو اس کا مطلب ہے گھر کی 35 ہوگی گھر کی 10 فی صد تک کم ہوتی ہے۔
کم ہیومیڈٹی پر یہ کام کریں: ہیومیڈیفائر استعمال کریں یہ پانی پھینکتا ہے مسلسل بجلی کا خرچ بھی ہوتا ہے۔ کمرے میں ایک یا 2 پانی کے برتن بڑے پیالے ٹب وغیرہ پانی کے رکھ سکتے ہیں۔ پانی اُڑتا رہے گا اور ہیومیڈٹی بڑھ جائے گی۔ کمرے میں گیلی تولیا لٹکا سکتے ہیں یا کوئی دوسرے گیلے کپڑے لٹکا سکتے ہیں۔
گھر کے افراد کے مسائل کا حل: بچوں کی ناک میں نارمل سیلائن کے قطرے بار بار ڈالتے رہیں۔ ناک سے خون کی شکایت ہو، خشکی زیادہ ہو تو Polyfax آنکھوں والا مرہم لگائیں۔ 4 لونگ ڈال کر بھاپ لیں یا نمک کے پانی سے غرارے کریں یا ناک کو نمک والے پانی سے اندر تک صاف کریں۔ جلد پر تیل یا لوشن کریم لگائیں۔