یہ نیو یارک کا الیکشن تھا بھائی
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گزشتہ کئی ہفتوں سے بہت زورو شور سے ایک بحث چل رہی تھی کہ نیویارک میں مئیر کے الیکشن میں زہران ممدانی کی کامیابی سے کیا اثرات ہوں گے؟ اس وقت بار بار یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ گویا ممدانی کی کامیابی عالم اسلام کی کامیابی ہے، اور جب ایسی باتیں ہوتی ہیں تو سادہ لوح عوام یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ممدانی کوئی اسلامی تحریک کے رہنما ہیں، وہ کوئی انقلاب لا رہے ہیں، اس دوران کئی مرتبہ قلم لکھنے کو بے چین ہوا لیکن ہم نے اس اونٹ کے کسی کروٹ بیٹھنے کا انتظار کیا اور جب یہ حلف برداری کے بعد بیٹھنا شروع ہوا اور ٹرمپ اور ممدانی کی ملاقات کے بعد یہ مکمل طور پر بیٹھ گیا ہے اور اب سب کو اندازہ ہوجائے گا کہ نیو یارک کا مئیر نیو یارک کا مئیر ہے، وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے اور ناکام بھی، اس کی کامیابی کو تو ہم عالم اسلام کی کامیابی سمجھیں گے لیکن کیا ہم میں سے کوئی اس کی ناکامی کو اپنی ناکامی قبول کرنے پر تیار ہوگا؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوگا۔
اس معاملے میں کچھ باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور کچھ چیزوں کو خلط ملط ہونے سے بچانا ہوگا، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات بہت واضح ہے کہ یہ نیو یارک کے مئیر کا الیکشن تھا اس کے فائدے اور نقصانات سب نیو یارک والوں کو ہوں گے، ہاں ہم بہت زیادہ شور مچا کر یا اسے اسلام اور کفر کی جنگ بنا کر نیو یارک اور امریکا کے مسلمانوں کے لیے تو مشکلات پیدا کرسکتے ہیں، کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے، اِسی طرح نیو یارک یا کسی بھی شہر کے مئیر کا الیکشن ہو یہ امریکی قوانین اور آئین کے مطابق امریکیوں کے مفادات کے تحفظ اور انہیں سہولتیں پہنچانے کے لیے ہوتے ہیں، ان کا عالمی اور بین الاقوامی سیاست سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا، ہاں ان میں حوالے، سیاسی نعرے الزامات وغیرہ سب آتے ہیں لیکن امریکی عوام پاکستانی عوام کی طرح محض نعرے اور پروپیگنڈے کی بنیادوں پر ووٹ نہیں دیتے، ان کے اپنے معیارات ہوتے ہیں۔ ایک اور بات بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اب الیکشن ہوچکے ہیں اور اب ٹرمپ اور ممدانی کی ملاقات بھی ہوچکی ہے، اور کئی چیزیں سامنے آچکی ہیں ٹرمپ نے یوٹرن بھی لے لیا ہے اور ممدانی کے خلاف لگنے والے الزامات کو سیاسی نعرے قرار دیکر انہیں معقول آدمی قرار دے دیا۔ اور نیو یارک کی ترقی کے لیے ہر ممکن تعاون کا اعلان کردیا، اسے بھی ٹرمپ کی ناکامی یا ممدانی کی کامیابی نہ سمجھا جائے یہ امریکی سیاسی نظام کا حصہ ہے، اور ٹرمپ یا ممدانی پاکستانی سیاستدانوں کی طرح دشمنی کا انداز اختیار کرکے اس سیاست کو زیادہ دن جاری نہیں رکھ سکتے تھے، اسے ختم ہونا ہی تھا، اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ٹرمپ اور دوسری قوتیں ممدانی سے اختلافات کو ختم کرچکے ہیں، ان کی سیاسی مخالفت بھی ترک کرچکے ہیں، وہ یہ کام بھی کرتے رہیں گے اور پاکستان کی طرح مخالف مئیر، ٹائون و یوسی چیئر مین کے فنڈز بند نہیں کرتے۔ تازہ ملاقات میں بھی کوئی مقابلہ تو نہیں ہوا لیکن دونوں لیڈر اپنے اپنے موقف پر قائم رہے اور ملاقات کا فائدہ نیویارک کے عوام کو ہوا، اس معاملے کو مکمل طور پر اسرائیل حماس تنازع سے نہیں جوڑا جاسکتا، لیکن اس انتخابی مہم میں یہ استعمال ہوا ہے، اسی طرح ہار جیت کو بھی اس معاملے کی فتح یا شکست نہیں کہہ سکتے، جیسے پاکستانی سیاست میں امریکی ایجنٹ، بھارتی ایجنٹ اور اب اسرائیلی، افغان اور ٹی ٹی پی ایجنٹ کے الزامات لگتے رہے ہیں اور ان الزامات کے تقریباً تمام ہی کبھی نہ کبھی یہاں الیکشن جیت چکے ہیں اس کا مطلب بھی ان الزامات کی تصدیق نہیں ہوتا، بس یہ نعرے ہیں، لہٰذا ایسے معاملات کا پورا پورا اطلاق نہیں ہوتا۔
بہر حال جو چیزیں سامنے آئی ہیں ان میں فلسطین، اسلامو فوبیا وغیرہ سامنے آئے، ممدانی کا کمیونسٹ ہونا بھی موضوع بنا لیکن مسائل اور ان کا حل سرفہرست رہا بلکہ ان سب کی لڑائی کے باوجود امریکا، امریکی آئین اور عوام سرفہرست رہے، ہمارے سیاست دانوں، میڈیا، اور عوام کو بھی اس معاملے کو قومی مفاد کے نقطہ ٔ نظر سے دیکھنا ہوگا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی کامیابی ممدانی کی اس معاملے نیو یارک ہے اور
پڑھیں:
سفاکیت کی انتہا؛ بھائی نے انشورنس کی رقم کیلیے ذہنی معذور بھائی کو ٹرک تلے کچل دیا
لالچ اور حرص و ہوس انسان سے وہ وہ کام کروالیتی ہے جس کے لیے اشرف المخلوفات کہلانے والا جانور سے بدتر ہوجاتا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ بھارتی ریاست تلنگانہ میں پیش آیا جہاں ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو محض انشورنس کی رقم کی لالچ میں بیدردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
30 سالہ ملزم نریش کو کاروبار میں پہ در پہ نقصان ہوا اور وہ ڈیڑھ کروڑ روپے کے قرضے میں جکڑ گیا تھا۔
جس پر اس نے قرضہ چکانے کے لیے ایک شیطانی منصوبہ بنایا کہ اگر بڑا بھائی وینکٹیش کے انشورنس کروا کر اسے قتل کردیا جائے تو بڑی رقم مل سکتی ہے۔
37 سالہ وینکٹیش ذہنی معذور تھا اور اسی لیے شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اگر وہ مرتا ہے تو پالیسی کی رقم نریش کو مل سکتی تھی۔
نریش نے اپنے شیطانی منصوبے پر عمل کرنے کی ٹھانی اور 4 مختلف انشورنس کمپنیوں سے بھائی وینکٹیش کے نام پر 4 کروڑ 14 لاکھ روپوں سے زائد کی انشورنس پالیسیاں لیں۔
اس نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ بھائی کے نام پر ایک بینک سے 20 لاکھ روپے کا قرضہ بھی حاصل کرلیا کیوں کہ موت کی صورت میں بینک قرضہ معاف کردیتی ہے۔
یہ دونوں کام کرنے کے بعد نریش نے اپنے دوست راکیش کی مدد سے ایک گاڑی لی اور اپنے بھائی کو کچل دیا۔
نریش نے بھائی کی موت کو ٹریفک حادثہ قرار دیا اور انشورنس کی رقم کے لیے کلیم جمع کرایا تاہم انشورنس کمپنیوں کو شک ہوگیا۔
انشورنس کمپنیوں نے پولیس میں شکایت درج کرائی اور یوں نریش کے خلاف باقاعدہ تفتیش کا آغاز ہوا جس میں کچا چٹھا کھل گیا۔
نریش نے اعتراف کرلیا کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا قتل ہے۔ پولیس نے نریش کے دو دوستوں کو بھی حراست میں لے لیا۔