کراچی کا کھلا مین ہول — یا نظام کی کھلی قبر؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیپا چورنگی۔ ایک کھلا گٹر۔ تین سالہ معصوم ابراہیم۔ اور پھر ایک ایسی موت جو صرف ایک خاندان کا غم نہیں رہی، یہ پورے شہر کے اجتماعی شعور پر ہتھوڑا بن کر گری۔ یہ حادثہ نہیں تھا، یہ قتل تھا۔ اور اس قتل کا مجرم کوئی ایک فرد نہیں، بلکہ وہ پورا سیاسی، بلدیاتی اور انتظامی نظام ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے کراچی پر قابض ہے۔ وہ نظام جس نے اس شہر کو کھنڈر، قبرستان اور تجربہ گاہ بنائے رکھا۔ وہ نظام جس نے تین سالہ ابراہیم کی جان نہیں لی بلکہ کراچی کے مستقبل کا گلا گھونٹ دیا۔
یہ موت اچانک نہیں ہوئی یہ نظام کا منطقی انجام تھا۔ روزانہ کوئی نہ کوئی بچہ، نوجوان یا بزرگ ٹوٹے ڈھکن، کھلے مین ہول، اُبلتے گٹروں یا ٹوٹی سڑکوں کے سبب موت کے منہ میں جاتا ہے۔ کراچی حادثات سے نہیں حکمرانوں کی نااہلی سے مرتا ہے۔ وہ گٹر کھلا کیوں تھا؟ یہ سوال ابراہیم کے جسم کے ساتھ گہرائی میں دفن نہیں ہونا چاہیے۔ یہ واحد کھلا مین ہول نہیں۔ شہر میں ہزاروں گٹر موت کے دہانے بن کر کھلے پڑے ہیں۔ اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر کھائے جاتے ہیں، مگر ایک ڈھکن وقت پر نہیں لگایا جاتا۔
کراچی کے ٹیکس سے سندھ کا بجٹ بنتا ہے، مگر کراچی کے بچوں کی قیمت ایک ڈھکن سے بھی کم ہے۔ جن اداروں کی ذمے داری ہے ڈھکن لگانا وہ اختیارات نہ ہونے کا بہانہ بناتے ہیں۔ جن کے پاس اختیار ہے وہ نااہلی اور کرپشن کا ڈھکن اپنے چہروں پر ڈال کر خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔ یہ کھلا گٹر لوہے کا ڈھکن غائب نہیں تھا یہ پورے نظام کی کھلی قبر تھی۔ پیپلز پارٹی گزشتہ 17 سال سے کراچی کے وسائل پر قابض ہے۔ ان کے نزدیک کراچی شہر نہیں، صرف ایک کیش مشین ہے۔
سڑکیں ٹوٹ جائیں؟ کوئی مسئلہ نہیں۔ بچے گٹروں میں گر کر مر جائیں؟ معمول کی بات ہے۔ پانی ٹینکر مافیا بیچے؟ سسٹم کو اسی پر چلنا ہے۔ ہر حادثے کے بعد ایک ’’انکوائری کمیٹی‘‘ بنا کر وقت گزار دیا جاتا ہے۔ کسی کے گھر کا چراغ گل ہو جائے، مگر حکومت کی آنکھ نہیں کھلتی۔ لیکن ابراہیم کا خون ایسا دھبا ہے جو دھوئے نہیں دھل سکتا۔ ابراہیم کی موت کے بعد بھی میئر کراچی کے چہرے پر درد نہیں صرف کیمروں کے لیے پرفارمنس نظر آئی۔ موصوف کا فرمان ہے کہ جہاں ڈھکن لگے وہ ان کی وجہ سے، اور جہاں نہ لگے وہاں قصور ٹاؤنز کا ہے کیونکہ ’’پیسہ ہم دیتے ہیں‘‘۔ یعنی جو کام ہو جائے وہ میئر صاحب کا کارنامہ، اور جو نہ ہو وہ دوسروں کا جرم۔
سوال یہ ہے: جس شہر کا میئر ڈھکن کو اپنی کارکردگی کا معیار سمجھتا ہو، وہ شہر کیسے چلائے گا؟ جو میئر شہر کے گٹر اور اپنے ذہن کے گٹر میں فرق نہ کر سکے، وہ کراچی کے مسائل کیا سمجھے گا؟ ایم کیو ایم کی تاریخ بھی سب کے سامنے ہے۔ اختیارات بھی لیے، وزارتیں بھی لیں، ہر حکومت کا حصہ بھی بنے۔ آج میڈیا پر رونا کیوں؟ کراچی والے اس منافقت کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ ابراہیم کو کس نے مارا؟ یہ سوال ہر گھر میں گونج رہا ہے۔ اور اس کا جواب ایک نہیں پورا گٹھ جوڑ ہے۔
1۔ وہ سیاسی نظام جو کراچی کو کبھی اپنا شہر سمجھ ہی نہیں پایا۔ 2۔ وہ پیپلز پارٹی جو کراچی کے وسائل چوس کر اندرون سندھ میں سیاسی سرمایہ کاری کرتی رہی۔ 3۔ وہ ایم کیو ایم جو ہر حکومت میں کراچی کا سودا کرتی رہی۔ 4۔ وہ بی آر ٹی مافیا جس نے سڑکوں کو کھود کر شہر کو برباد کیا۔ 5۔ وہ لینڈ مافیا جس نے گلیوں، پارکوں اور نکاسی ِ آب کا قتل کیا۔ 6۔ وہ ٹینکر مافیا جو پانی بیچتا ہے مگر سیوریج لائنیں مرمت نہیں ہونے دیتا۔ 7۔ وہ پولیس جو قانون نہیں، مافیاؤں کی وفادار بن چکی ہے۔ یہ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ اسی صف کے آخر میں وہ کھلا مین ہول تھا جس نے ابراہیم کی جان لی۔
کیا کراچی کی اولاد کی قیمت ایک ڈھکن ہے؟ کراچی آج سوال بن کر کھڑا ہے: کیا ہر ماں اپنے بچے کو خوف کے سائے میں گھر سے نکالے گی؟ کیا ہماری نسلیں یوں ہی مرتی رہیں گی؟ کیا شہری ٹیکس اس لیے دیتے ہیں کہ ان کے اپنے بچے گٹروں میں گر کر مر جائیں؟ اگر اس حادثے کے بعد بھی کراچی کی روح نہ جاگی، تو ہم مجموعی طور پر مردہ قوم ہیں۔ یہ المیہ نہیں، یہ اعلان ہے۔ اس فاسد، کرپٹ اور نااہل نظام کے خلاف بغاوت کی گھنٹی ہے۔ کراچی اب خاموش نہیں رہ سکتا۔ اب وہ نظام بدلنا ہوگا جو بچوں کے خون سے چلتا ہے۔
کراچی کے مطالبات واضح ہیں: 1۔ وزیراعلیٰ سندھ، میئر کراچی اور وزیر بلدیات فوراً مستعفی ہوں۔ 2۔ ابراہیم کی موت کی آزاد عدالتی تحقیقات ہوں۔ 3۔ ذمے داران کو عبرتناک سزا دی جائے، صرف معطلی نہ ہو۔ 4۔ کراچی کو مالی و انتظامی خودمختاری دی جائے۔ 5۔ بی آر ٹی، لینڈ اور ٹینکر مافیاؤں کے خلاف فوری کارروائی ہو۔ 6۔ شہر بھر میں مین ہول کور لگانے کی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔
آخر میں ایک سوال: میئر کراچی کی ’’دماغی کارکردگی‘‘ بھی ایک الگ ہی سانحہ ہے میئر صاحب کی گفتگو کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ: جو پارک، سڑکیں اور ترقیاتی کام جماعت اسلامی کے ٹاؤنز کر رہے ہیں، اس کا کریڈٹ میئر صاحب کا بنتا ہے کیونکہ ’’پیسہ ہم دیتے ہیں‘‘۔ اور جہاں سٹی کارپوریشن کے تحت ڈھکن نہیں لگے، وہ بھی ٹاؤن کی غلطی ہے کیونکہ ’’پیسہ سٹی دیتا ہے‘‘۔ یعنی کام ہو تو کریڈٹ میئر کا کام نہ ہو تو ذمے داری دوسروں کی! اس پوری رام کہانی کے بعد ایک سوال کراچی والوں کے ذہن میں کھڑا ہے: زیادہ خطرناک کون ہے؟ سڑک کا کھلا گٹر، یا میئر صاحب کے دماغ کا کھلا گٹر؟ ڈھکن کی سب سے زیادہ ضرورت کسے ہے؟ ابراہیم کا سوال باقی ہے۔
ابراہیم چلا گیا۔ ننھے قدم، چھوٹے ہاتھ، ایک مسکراہٹ سب ختم ہو گئی۔ مگر ایک سوال آج بھی زندہ ہے: ’’تم کو میرا بدلہ کب لینا ہے؟‘‘ کراچی والو! اگر آج بھی نہ اُٹھے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ یہ شہر اٹھنے والا ہے اور جب کراچی اٹھا، تو اس سارے فاسد نظام کو بہا کر لے جائے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ابراہیم کی کراچی کے کراچی ا مین ہول کے بعد
پڑھیں:
میں بچے کے گھر والوں سے معافی مانگتا ہوں، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب
معطل کرنا شروعات ہے، ابھی انکوائری شروع ہوئی ہے: میئر کراچی
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ افسوسناک واقعہ ننھے ابراہیم کے ساتھ پیش آیا، ابراہیم کی والدہ کی چیخوں پر میرے پاس الفاظ نہیں، میں بچے کے گھر والوں سے معافی مانگتا ہوں۔
مرتضیٰ وہاب نے گٹر میں گر کر جاں بحق ہونے والے بچے ابراہیم کے گھر پہنچ کر اہل خانہ سے تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شاہ فیصل کالونی ابراہیم کے گھر پر گیا والد، دادا اور خاندان سے ملاقات کی، ابراہیم کے دادا نے خواہش کی ایسے اقدامات کیے جائیں کہ کسی اور کے ساتھ ایسا نہ ہو، خاندان تکلیف اور درد سے گزر رہا ہے اس لیے وہاں گفتگو نہیں کی۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نیپا چورنگی پر مین ہول میں گرنے سے 3 سالہ بچے کے جاں بحق ہونے پر تمام متعلقہ افسران کو معطل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
میئر کراچی نے کہا کہ معطل کرنا شروعات ہے، ابھی انکوائری شروع ہوئی ہے، وزیر اعلیٰ سندھ نے صبح اجلاس بلایا تھا، انکوائری ہونی ہے، ہم نے سیوریج کارپوریشن کے متعلقہ انجینئر کو معطل کیا، کے ایم سی کے متعلقہ سینئر ڈائریکٹر کو معطل کیا، ضلعی مختیار کار اور اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کیا، ایس ایس پی ایسٹ اور ڈی ایس پی کو بھی معطل کیا جا رہا ہے، مثال بنانا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔
نجی اسٹور کے باہر کھودا جانے والا مقام تین دن بعد بھی ویسا ہی ہے، قریب چھوٹے بلاکس رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر جس طرح کا رسپانس ہونا چاہیے تھا وہ نہیں تھا، بنیادی طور پر 12-14 لوگ وہاں کھڑے ہوئے جس کی وجہ سے ریسکیو کا کام نہیں ہو پایا، بحثیت حکومت خلل ڈالنے والوں کو روکنا ہماری ذمہ داری تھی، وفاقی اردو یونیورسٹی کے پاس کام ہو رہا تھا وہاں سے شاول پہنچا لیکن کام نہیں ہوا۔
میئر کراچی نے کہا کہ میں بلیم گیم سے آگے نکل کر ذمہ داری لیتا ہوں، میں اوپر والے سے اور بچے کے گھر والوں سے معافی چاہتا ہوں۔ غم کی گھڑی میں الزامات کی سیاست میں نہیں جاؤں گا، آج میرے اور ٹاؤن چیئرمین کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ مین ہول لگانا مسئلہ نہیں ہے 2 لاکھ 45 ہزار ڈھکن ہیں، ایک سال میں 88 ہزار گٹر کے ڈھکن لگائے گئے ہیں، تھانے دار کو معلوم ہے کہ چوری کا سامان کہاں بکتا ہے، فائبر والے گٹر کے ڈھکن بھی چوری کرکے لے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ اتوار کی شب 10 بجے کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال میں نیپا چورنگی کے قریب واقع ڈپارٹمیٹل اسٹور سے 3 سالہ بچہ ابراہیم والدین کے ہمراہ نکل کر مین ہول پر کھڑا ہو گیا تھا جس کا ڈھکن نہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر اسے گتے کی مدد سے بند کیا گیا تھا۔
اس موقع پر گتہ بچے کا وزن برداشت نہ کر سکا جس کے بعد ابراہیم مین ہول میں گر کر لاپتہ ہوگیا تھا، کھلے مین ہول میں گرنے والے بچے کی لاش 15 گھنٹے بعد ایک کلو میٹر دور نالے سے ملی تھی۔