ہمارے پیسوں سے عیاشیاں ہو رہی ہیں، حافظ نعیم
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
جاگیرداروں،خاندانوں ، شخصیات پر مشتمل پارٹیوں اور مقتدرہ نے نظام کو نرغے میں لے رکھا ہے
کراچی میں گٹر میں بچے گر جاتے ہیں، یہ کہتے ہیں ڈھکن الخدمت لگائے،تقریب سے خطاب
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، خاندانوں اور شخصیات پر مشتمل پارٹیوں اور مقتدرہ نے نظام کو نرغے میں لے رکھا ہے۔ ریاست ٹیکس جمع کرتی ہے تو امن بھی دے، ہمارے پیسوں سے یہ لوگ عیاشیاں کر رہے ہیں۔ کراچی میں گٹر میں بچے گر جاتے ہیں، یہ کہتے ہیں گٹر پر ڈھکن الخدمت لگائے۔انہوں نے کہا کہ ہم گٹروں پر ڈھکن بھی لگا لیں گے لیکن کراچی کو حق کون دے گا؟حافط نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پُرامن سیاسی مزاحمت جاری رکھیں گے، احتجاج ہمارا حق ہے اس پر قدغن نہیں لگانی چاہیے۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا پر پابندی لگائی جاتی ہے، سب کنٹرول کیا جاتا ہے۔ صوبائی حکومتوں کے درمیان کرپشن اور عوام کو دبانے کا مقابلہ جاری ہے۔ عام آدمی کا استحصال کرنے والے نظام کو بدلنے کی جدوجہد شروع کردی۔ نوجوان اور الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار حق اور سچ کے لیے آواز اٹھائیں، خدمت خلق جاری رکھیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام رضاکاروں کے عالمی دن کے موقع پر یوتھ لیڈرشپ پروگرام سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں سری لنکا اور صومالیہ کے سفراء کے علاوہ زندگی کے اہم طبقات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات اور طلبہ و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
کراچی کا کھلا مین ہول — یا نظام کی کھلی قبر؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیپا چورنگی۔ ایک کھلا گٹر۔ تین سالہ معصوم ابراہیم۔ اور پھر ایک ایسی موت جو صرف ایک خاندان کا غم نہیں رہی، یہ پورے شہر کے اجتماعی شعور پر ہتھوڑا بن کر گری۔ یہ حادثہ نہیں تھا، یہ قتل تھا۔ اور اس قتل کا مجرم کوئی ایک فرد نہیں، بلکہ وہ پورا سیاسی، بلدیاتی اور انتظامی نظام ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے کراچی پر قابض ہے۔ وہ نظام جس نے اس شہر کو کھنڈر، قبرستان اور تجربہ گاہ بنائے رکھا۔ وہ نظام جس نے تین سالہ ابراہیم کی جان نہیں لی بلکہ کراچی کے مستقبل کا گلا گھونٹ دیا۔
یہ موت اچانک نہیں ہوئی یہ نظام کا منطقی انجام تھا۔ روزانہ کوئی نہ کوئی بچہ، نوجوان یا بزرگ ٹوٹے ڈھکن، کھلے مین ہول، اُبلتے گٹروں یا ٹوٹی سڑکوں کے سبب موت کے منہ میں جاتا ہے۔ کراچی حادثات سے نہیں حکمرانوں کی نااہلی سے مرتا ہے۔ وہ گٹر کھلا کیوں تھا؟ یہ سوال ابراہیم کے جسم کے ساتھ گہرائی میں دفن نہیں ہونا چاہیے۔ یہ واحد کھلا مین ہول نہیں۔ شہر میں ہزاروں گٹر موت کے دہانے بن کر کھلے پڑے ہیں۔ اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر کھائے جاتے ہیں، مگر ایک ڈھکن وقت پر نہیں لگایا جاتا۔
کراچی کے ٹیکس سے سندھ کا بجٹ بنتا ہے، مگر کراچی کے بچوں کی قیمت ایک ڈھکن سے بھی کم ہے۔ جن اداروں کی ذمے داری ہے ڈھکن لگانا وہ اختیارات نہ ہونے کا بہانہ بناتے ہیں۔ جن کے پاس اختیار ہے وہ نااہلی اور کرپشن کا ڈھکن اپنے چہروں پر ڈال کر خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔ یہ کھلا گٹر لوہے کا ڈھکن غائب نہیں تھا یہ پورے نظام کی کھلی قبر تھی۔ پیپلز پارٹی گزشتہ 17 سال سے کراچی کے وسائل پر قابض ہے۔ ان کے نزدیک کراچی شہر نہیں، صرف ایک کیش مشین ہے۔
سڑکیں ٹوٹ جائیں؟ کوئی مسئلہ نہیں۔ بچے گٹروں میں گر کر مر جائیں؟ معمول کی بات ہے۔ پانی ٹینکر مافیا بیچے؟ سسٹم کو اسی پر چلنا ہے۔ ہر حادثے کے بعد ایک ’’انکوائری کمیٹی‘‘ بنا کر وقت گزار دیا جاتا ہے۔ کسی کے گھر کا چراغ گل ہو جائے، مگر حکومت کی آنکھ نہیں کھلتی۔ لیکن ابراہیم کا خون ایسا دھبا ہے جو دھوئے نہیں دھل سکتا۔ ابراہیم کی موت کے بعد بھی میئر کراچی کے چہرے پر درد نہیں صرف کیمروں کے لیے پرفارمنس نظر آئی۔ موصوف کا فرمان ہے کہ جہاں ڈھکن لگے وہ ان کی وجہ سے، اور جہاں نہ لگے وہاں قصور ٹاؤنز کا ہے کیونکہ ’’پیسہ ہم دیتے ہیں‘‘۔ یعنی جو کام ہو جائے وہ میئر صاحب کا کارنامہ، اور جو نہ ہو وہ دوسروں کا جرم۔
سوال یہ ہے: جس شہر کا میئر ڈھکن کو اپنی کارکردگی کا معیار سمجھتا ہو، وہ شہر کیسے چلائے گا؟ جو میئر شہر کے گٹر اور اپنے ذہن کے گٹر میں فرق نہ کر سکے، وہ کراچی کے مسائل کیا سمجھے گا؟ ایم کیو ایم کی تاریخ بھی سب کے سامنے ہے۔ اختیارات بھی لیے، وزارتیں بھی لیں، ہر حکومت کا حصہ بھی بنے۔ آج میڈیا پر رونا کیوں؟ کراچی والے اس منافقت کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ ابراہیم کو کس نے مارا؟ یہ سوال ہر گھر میں گونج رہا ہے۔ اور اس کا جواب ایک نہیں پورا گٹھ جوڑ ہے۔
1۔ وہ سیاسی نظام جو کراچی کو کبھی اپنا شہر سمجھ ہی نہیں پایا۔ 2۔ وہ پیپلز پارٹی جو کراچی کے وسائل چوس کر اندرون سندھ میں سیاسی سرمایہ کاری کرتی رہی۔ 3۔ وہ ایم کیو ایم جو ہر حکومت میں کراچی کا سودا کرتی رہی۔ 4۔ وہ بی آر ٹی مافیا جس نے سڑکوں کو کھود کر شہر کو برباد کیا۔ 5۔ وہ لینڈ مافیا جس نے گلیوں، پارکوں اور نکاسی ِ آب کا قتل کیا۔ 6۔ وہ ٹینکر مافیا جو پانی بیچتا ہے مگر سیوریج لائنیں مرمت نہیں ہونے دیتا۔ 7۔ وہ پولیس جو قانون نہیں، مافیاؤں کی وفادار بن چکی ہے۔ یہ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ اسی صف کے آخر میں وہ کھلا مین ہول تھا جس نے ابراہیم کی جان لی۔
کیا کراچی کی اولاد کی قیمت ایک ڈھکن ہے؟ کراچی آج سوال بن کر کھڑا ہے: کیا ہر ماں اپنے بچے کو خوف کے سائے میں گھر سے نکالے گی؟ کیا ہماری نسلیں یوں ہی مرتی رہیں گی؟ کیا شہری ٹیکس اس لیے دیتے ہیں کہ ان کے اپنے بچے گٹروں میں گر کر مر جائیں؟ اگر اس حادثے کے بعد بھی کراچی کی روح نہ جاگی، تو ہم مجموعی طور پر مردہ قوم ہیں۔ یہ المیہ نہیں، یہ اعلان ہے۔ اس فاسد، کرپٹ اور نااہل نظام کے خلاف بغاوت کی گھنٹی ہے۔ کراچی اب خاموش نہیں رہ سکتا۔ اب وہ نظام بدلنا ہوگا جو بچوں کے خون سے چلتا ہے۔
کراچی کے مطالبات واضح ہیں: 1۔ وزیراعلیٰ سندھ، میئر کراچی اور وزیر بلدیات فوراً مستعفی ہوں۔ 2۔ ابراہیم کی موت کی آزاد عدالتی تحقیقات ہوں۔ 3۔ ذمے داران کو عبرتناک سزا دی جائے، صرف معطلی نہ ہو۔ 4۔ کراچی کو مالی و انتظامی خودمختاری دی جائے۔ 5۔ بی آر ٹی، لینڈ اور ٹینکر مافیاؤں کے خلاف فوری کارروائی ہو۔ 6۔ شہر بھر میں مین ہول کور لگانے کی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔
آخر میں ایک سوال: میئر کراچی کی ’’دماغی کارکردگی‘‘ بھی ایک الگ ہی سانحہ ہے میئر صاحب کی گفتگو کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ: جو پارک، سڑکیں اور ترقیاتی کام جماعت اسلامی کے ٹاؤنز کر رہے ہیں، اس کا کریڈٹ میئر صاحب کا بنتا ہے کیونکہ ’’پیسہ ہم دیتے ہیں‘‘۔ اور جہاں سٹی کارپوریشن کے تحت ڈھکن نہیں لگے، وہ بھی ٹاؤن کی غلطی ہے کیونکہ ’’پیسہ سٹی دیتا ہے‘‘۔ یعنی کام ہو تو کریڈٹ میئر کا کام نہ ہو تو ذمے داری دوسروں کی! اس پوری رام کہانی کے بعد ایک سوال کراچی والوں کے ذہن میں کھڑا ہے: زیادہ خطرناک کون ہے؟ سڑک کا کھلا گٹر، یا میئر صاحب کے دماغ کا کھلا گٹر؟ ڈھکن کی سب سے زیادہ ضرورت کسے ہے؟ ابراہیم کا سوال باقی ہے۔
ابراہیم چلا گیا۔ ننھے قدم، چھوٹے ہاتھ، ایک مسکراہٹ سب ختم ہو گئی۔ مگر ایک سوال آج بھی زندہ ہے: ’’تم کو میرا بدلہ کب لینا ہے؟‘‘ کراچی والو! اگر آج بھی نہ اُٹھے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ یہ شہر اٹھنے والا ہے اور جب کراچی اٹھا، تو اس سارے فاسد نظام کو بہا کر لے جائے گا۔