Jasarat News:
2025-12-04@05:11:16 GMT

بچے کا قتل اور زنجیر عدل کی بوسیدہ طوالت

اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی کی لعنتی سڑکوں اور غلیظ گلیوں میں جہاں حکمرانوں کا کمینہ پن شہر کی فضا کو روتا بلکتا اور زہر آلود کرتا رہتا ہے وہاں نیپا چورنگی پر ایک تین سالہ بچہ ابراہیم مرگیا۔ طبعی موت نہیں کھلے مین ہول میں گرکر۔ ایک ایسے شہر میں جسے حرام خور اور کرپٹ بیوروکریسی نے کھلے زخم کی صورت دے دی ہے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس شہر ناپرساں میں زندہ لوگوں کی موجودگی کا ثبوت ان کی ایسی ہی اموات سے ملتا ہے جو سانحہ نہیں، حادثہ نہیں قتل کے، خون خاک نشیناں کے، زمرے میں آتی ہیں۔ مٹی تھی، سو مٹی میں جاملی لیکن اس ماں کا کیا کیجیے جس کا پورا جیون، سارے خواب چیخ بن گئے، اندھیری گپھائوں میں ڈوب گئے۔

وہ شہر جو احتجاج کرنا بھول چکا ہے نہ جانے کیوں اس واقعے سے مشتعل ہو گیا۔ خواب میں ہی سہی لوگ ان حرامزادوں کی تلاش میں جا نکلے جو اس ننھی جان کے قتل کے ذمے دار تھے۔ سب سے پہلے وہ نظام کے سب سے بڑے نمائندے ’’صدر‘‘ کے محل میں پہنچے جس کے نام پر اب کوئی ماں اپنے بچوں کا نام رکھنے پر تیار نہیں۔ اپنے بڑے بڑے دانتوں سے مسکراتے ہوئے اس نے کہا ’’میں آپ کے غم پر بہت دکھی ہوں لیکن آپ کو علم نہیں میرا عہدہ تو آئینی ہے۔ میرا کام صرف پارلیمنٹ کی منظور کردہ قراردادوں پر دستخط کرنا ہے، کھلے گٹر، بچوں کی لاشیں، شہر کی گندگی؟ یہ صدر کی ذمے داری نہیں ہے۔ یہ وفاقی حکومت اور وزیراعظم کی ذمے داری ہے۔ آپ ان کے پاس جائیں‘‘۔

صدر کے جواب پر ایک شخص نے آہستگی سے کہا ’’اس نظام میں ہمارا حال جانوروں سے مشابہ طے کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے پاس جانا بھی پاگل پن ہے لیکن چلو پھر بھی اس کے پاس چلتے ہیں‘‘۔ لوگ وزیراعظم کے محل میں پہنچے۔ انہیں کسی بھی چیز کو حتیٰ کہ درو دیوار کو بھی چھونے سے منع کیا گیا۔ سونے چاندی کی دیواریں غریبوں کے ہاتھ لگانے سے ناپاک ہوجاتی ہیں۔ سنجیدہ وزیراعظم نے بچے کے قتل کی واردات سنی تو ہاتھ نچاتے ہوئے بولا ’’دیکھیے میں بحرین کے دورے اور انگلینڈ کے آرام سے ابھی واپس آیا ہوں۔ یہاں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لیے نوٹی فیکشن کا چکر چل رہا ہوں۔ بچے کی موت پر مجھے بہت افسوس ہے مگر میں وفاقی سطح کے بڑے مسائل دیکھتا ہوں۔ معیشت، خارجہ پالیسی اور دہشت گردی وغیرہ۔ کراچی کے گٹر اور ان میں گرکر مرتے بچے صوبائی حکومت کا معاملہ ہے۔ آپ گورنر اور وزیر اعلیٰ سے رابطہ کیجیے‘‘۔

لوگ گورنر کے پاس پہنچے وہ منہ پھاڑ کر بولا ’’میں صوبے میں وفاق کا نمائندہ اور شہر کی اقلیتی جماعت کی طرف سے ہوں۔ میرے پاس کوئی اختیار نہیں۔ اس ملک کو اللہ، آرمی اور امریکا چلارہے ہیں۔ اصل میں تو آپ کو ان ہی سے رجوع کرنا چاہیے یا پھر صوبائی حکومت کے ان چوروں سے جو صوبے کو کھا رہے ہیں۔ گٹر اور بچوں کی لاشیں وزیراعلیٰ کی ذمے داری ہے۔ میرا مشورہ ہے آپ ان سے مل لیں‘‘۔

فضول اور بدقسمت لوگوں کا رُخ اب وزیراعلیٰ ہائوس کی طرف تھا۔ جب لوگ وہاں پہنچے تو کراچی سے وصول کردہ ٹیکس سے سونے کی بڑی بڑی مچھلیاں بناکر وزیراعلیٰ ہائوس کے تالاب میں چھوڑی جارہی تھیں۔ صوبے کے پیٹ کی آگ ان ہی مچھلیوں سے پوری کی جاتی تھی۔ وزیراعلیٰ نے ہاتھ جوڑ کر لوگوں کو خوش آمدید کہا۔ اس کا لب ولہجہ ایسا تھا جیسے کوئی منافق جھوٹ بولنے کی کوشش کررہا ہو۔ ’’مجھے بچے کی موت پردکھ ہے۔ والدین سے میری طرف سے اظہار غم کردیجیے اور یہ پیغام پہنچا دیجیے کہ افسردہ نہ ہوں۔ آپ میاں بیوی ابھی جوان ہیں اور بچے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں صوبے کے بڑے بڑے مسائل دیکھتا ہوں۔ شہر کے مسائل حل کرنا میئر کا کام ہے۔ اسکول جو بند پڑے ہیں، جہالت بیچ رہے ہیں، اسپتال جو موت کے قبرستان ہیں، گٹر اور مین ہول جو بچوں کو نگل رہے ہیں۔ یہ تو میئر کا کام ہے۔ ان سے جاکر مل لیں۔ وہ ہماری پارٹی کے میئر ہیں۔ آپ کا مسئلہ حل کردیں گے‘‘۔

دردر بھٹکنے کا عذاب اور سردردی بھیانک شکل اختیار کرتی جارہی تھی۔ لوگوںکی سرگرم مزاجی کم ہوتی جارہی تھی۔ وہ تھک گئے تھے۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے دیمک اور بچھوئوں کے لشکر انہیں گھیرے ہوئے ہیں۔ میئر کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کا چیئرمین بھی تھا۔ لوگوں کو پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ اب متعلقہ فرد سے ان کا رابطہ ہو چکا ہے۔ میئر نے دلال جیسی مسکراہٹ سے ان کا استقبال کیا اور کہا ’’میں آپ کا منتخب میئر ہوں‘‘ میئر نے دوران گفتگو بار بار اس جملے کی تکرار اس طرح کی جیسے کوئی اپنے آپ کو یقین دلارہا ہو۔ ’’میں شہر کا مالک ہوں مگر یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے گٹروں کی دیکھ بھال، ان کے ڈھکنوں کی چوری روکنا میرا کام نہیں ہے۔ یہ KWSB کے ایم ڈی کا کام ہے۔ وہ انجینئرز کے ساتھ مل کر پیسہ کھارہا ہے۔ یہ محکمے طویل عرصے سے جماعت اسلامی کے پاس ہیں۔ جماعت اسلامی کی پیدا کردہ سازشوں سے ہماری جان چھٹے تو ہم کچھ کام کریں۔ جماعت اسلامی نے شہر کے تمام ہیرونچیوں کو گٹر وںکے ڈھکن چوری کرنے کا ٹاسک دے رکھا ہے۔ ہم ہر گٹر کے اوپر ایک پولیس والا تو کھڑا نہیں کرسکتے۔ بہرحال پھر بھی آپ KWSB کے چیئرمین سے مل لیں۔ میں اس سے فون پربات کرلوں گا‘‘۔

اب لوگ KWSB کے ایم ڈی سے ملے۔ وہ بولا ’’بے شک یہ بورڈ کا کام ہے مگر اصل کام تو چیف انجینئر کا ہے وہی فیلڈ میں جاتا ہے۔ گٹروں پر ڈھکن لگواتا ہے۔ اس سے ملنے کی کوشش کریں۔ اگر اسے مال بنانے سے فرصت مل گئی ہوگی تو آپ سے ملاقات کا وقت دے دے گا باقی آپ کا نصیب ہے۔ میں اتنا کرسکتا ہوں کہ اس جانب اس کی توجہ دلادوں لیکن میں اسے کام کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ بہت اوپر تک اس کی پہنچ ہے۔ آپ جائیں اور اس سے مل لیں اور پلیز آئندہ مجھے تنگ مت کیجیے گا‘‘۔

چیف انجینئر لوگوں سے ملنے پر تیار نہیں تھا۔ بصد مشکل ملا تو بولا ’’گٹروں کے ڈھکنوں کی چوری کی روک تھام کرنا ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام تو پلان بنانا ہے۔ دیکھ بھال کی ذمے داری یونین کونسلرز اور صفائی کرنے والوں کی ہے۔ وہ روزانہ دیکھتے ہیں۔ پھر چوری کیسے ہوجاتی ہے؟ جاکر یہ سوال ان سے کیجیے۔ یہ میرا کام نہیں ہے‘‘۔

لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ ایک پاگل نظام کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں جہاں اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی ذمے دار نہیں ہے۔ سب ذمے داریوں کی لاش پر کھڑے ہیں۔ نیپا چورنگی پر قتل ہونے والے تین سالہ ابراہیم کی لاش اس نظام کی منافقت اور بوسیدگی پر ایک اور اضافہ ہے۔ جہاں شہر کھلے گٹر ہیں، حکمران پیسہ بنانے میں مصروف ہیں اور عوام کی زندگی مسلسل عذاب ہے۔ یہ نظام اب مسلسل اور مستقل بدعنوانی کے باعث اس حال کو پہنچ گیا ہے کہ اب اپنے شہریوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے جان، مال اور بچوں کی خود حفاظت کریں۔ یہ نظام خلافت کی طرح خلیفہ کو اس بات کا ذمے دار نہیں بناتا کہ فرات کے کنارے کوئی گمشدہ بھیڑ بھی ضائع ہوکر مرجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے اس کے بارے میں پوچھے گا‘‘۔ اسلام میں اختیارات کا مرکز اعلیٰ خلیفہ ہے جو ریاستی ذمے داریوں کا آخری اور مرکزی جواب دہ ہے جب کہ جمہوریت اختیارات کی تقسیم کا نظام ہے ’’اختیارات تقسیم کردو تاکہ غلطی کا بوجھ بھی تقسیم ہو جائے‘‘ جب کہ اسلام کہتا ہے ’’اختیار تفویض کرو مگر ذمے داری اوپرقائم رہنے دو‘‘۔

بابا الف سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی ذمے داری کا کام ہے لوگوں کو نہیں ہے پر ایک کے پاس مل لیں

پڑھیں:

مین ہول میں گر کر بچے کی ہلاکت: سٹی کونسل میں اپوزیشن کا شدید احتجاج، میئر کراچی سے استعفا مانگ لیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: کمسن بچے کی مین ہول میں گر کر ہلاکت کے خلاف سٹی کونسل میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی جب کہ اپوزیشن نے واقعے پر میئر کراچی سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق افسوس ناک واقعے کے بعد آج ہونے والے سٹی کونسل کے اجلاس میں اپوزیشن نے نعرے بازی کی، جس کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

 اپوزیشن نے واقعے کی ذمہ داری براہِ راست میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، ایم ڈی واٹر بورڈ اور متعلقہ افسران پر عائد کرتے ہوئے ان سب کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور میئر کے فوری استعفے کا مطالبہ کردیا۔

اجلاس کے آغاز میں ہی جماعت اسلامی کے ارکان نے بھرپور احتجاج کیا اور مرتضیٰ وہاب کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مسلسل نعرے لگائے۔ ایوان  کافی دیر تک شدید ہنگامہ آرائی کا منظر پیش کرتا رہا۔

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے احتجاج کو سیاسی ڈرامہ قرار دیتے ہوئے جواب میں سخت جملے بھی کہے۔ پارلیمانی لیڈر کرم اللہ وقاصی نے کہا کہ شہر بھر میں ہزاروں گٹر کے ڈھکن ایک طے شدہ نظام کے تحت یوسی چیئرمینوں کے حوالے کیے گئے، اس لیے کسی ایک واقعے کو بنیاد بناکر سیاسی فائدہ اٹھانا مناسب نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کی جائے گی اور متعلقہ افسران کو جواب دہ بنایا جائے گا، لیکن سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔

اسی دوران ڈپٹی پارلیمانی لیڈر دل محمد نے بھی اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ کراچی کے عوام ایسے عناصر کو جانتے ہیں جو خود کچھ نہیں کرتے لیکن ہر موقع پر انتشار پھیلاتے ہیں۔ چیف وہپ مسرت خان نے کہا کہ ایک ماں کی گود اجڑ گئی ہے اور اپوزیشن اس تکلیف کو سیاسی جنگ کا ایندھن بنا رہی ہے، جو انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ میئر کراچی مکمل توجہ کے ساتھ شہر کے مسائل کے حل میں مصروف ہیں، مگر اپوزیشن کو ان کی محنت سے تکلیف ہورہی ہے۔

علاوہ ازیں ایوان نے معمول کے ایجنڈے کے تحت متعدد قراردادیں بھی منظور کیں، جن میں اولڈ سٹی ایریا میں چارجڈ پارکنگ، بلدیہ ٹاؤن میں بس ٹرمینل کے پارکنگ مقاصد کے لیے استعمال اور مختلف کاروباری علاقوں میں فٹ پاتھوں کی مرمت اور آرائش سے متعلق فیصلے شامل تھے۔

اجلاس کے ملتوی ہونے کے بعد جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ نے اس سانحے کو ایجنڈے میں شامل ہی نہیں کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شہری مسائل حکومت کی ترجیح نہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہر میں بچوں کے گٹروں میں گرنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں، مگر میئر ہر بار متعلقہ اداروں کا دفاع کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری سے انکار کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ڈھکن چوری ہوتے ہیں یا نکاسی آب کی لائنوں میں گندا پانی آتا ہے، وہاں کے متاثرین کو چاہیے کہ وہ واٹر بورڈ اور مرتضیٰ وہاب کے خلاف مقدمات درج کرائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس سڑک پر یہ واقعہ ہوا وہ مکمل طور پر کے ایم سی کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، اس لیے ذمہ داری سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ یونین کونسلوں کو گٹر کے ڈھکن دینے کا دعویٰ محض بیانیہ ہے، جبکہ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • میئر کراچی نے نیپا چورنگی واقعے پر معافی مانگ لی، ناکامی کا بھی اعتراف
  • میں بچے کے گھر والوں سے معافی مانگتا ہوں، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب
  • قابض میئر سانحہ نیپاکی ذمے داری قبول کریں اور استعفا دیں ‘سیف الدین
  • بچہ سیوریج لائن نہیں برساتی نالے میں گر ا ، میئر کراچی کی انوکھی منطق
  • مین ہول میں بچہ گرنے کا واقعہ، سٹی کونسل میں میئر کراچی کیخلاف نعرے بازی
  • مین ہول میں گر کر بچے کی ہلاکت: سٹی کونسل میں اپوزیشن کا شدید احتجاج، میئر کراچی سے استعفا مانگ لیا
  • میئر کراچی: نیپا واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا، ذمہ داری جماعت اسلامی پر ڈالوں تو لوگ ناراض ہوں گے
  • میئر کراچی کا سارے اداروں پر قبضہ، پھر بھی بچے گٹر میں گر رہے ہیں: جماعت اسلامی
  • کمسن بچہ کھلے مین ہول میں گرنے کے بعد لاپتہ، ’ایف آئی آر میئر کراچی پر کاٹی جائے‘