وائٹ ہاؤس فائرنگ کا واقعہ: امریکی فوج کا سابق افغان معاون حملہ آور کے طور پر گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن:امریکی دارالحکومت میں وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈ کے اہلکاروں پر ہونے والی فائرنگ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کیونکہ حملہ آور کے طور پر گرفتار ہونے والا شخص امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والا سابق افغان شہری نکلا ہے۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق 29 سالہ رحمان اللہ لکنوال نے بدھ کی سہ پہر گشت پر موجود دو گارڈز پر اچانک فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں دونوں شدید زخمی ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں حملہ آور بھی زخمی حالت میں پکڑا گیا۔
نیو یارک ٹائمز، سی بی ایس، این بی سی اور دیگر اداروں نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ لکنوال 2021 میں ’آپریشن الائیس ویلکم‘ کے تحت امریکہ منتقل ہوا تھا، جس کے ذریعے افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد امریکی فوج کے سابق معاونین اور اہلکاروں کو امریکہ لایا گیا تھا۔
معلومات کے مطابق لکنوال افغان اسپیشل فورسز میں 10 سال تک قندھار میں تعینات رہا اور مختلف اوقات میں امریکی اداروں خصوصاً سی آئی اے کے ساتھ بھی کام کر چکا تھا۔
امریکی سکیورٹی چیف کرسٹی نوم نے سوشل میڈیا پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حملہ آور ان افغان شہریوں میں سے ہے جنہیں بائیڈن انتظامیہ نے بڑی تعداد میں امریکہ آنے کی اجازت دی تھی، مزید رپورٹس میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ لکنوال نے 2024 میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی جو 2025 میں منظور ہوئی۔
واقعے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے افغان شہریوں کی تمام امیگریشن درخواستوں پر فوری پابندی عائد کر دی، امریکی شہریت و امیگریشن سروسز کے مطابق اب افغان شہریوں کی نئی اور زیرِ سماعت درخواستیں غیر معینہ مدت تک روک دی جائیں گی۔
واشنگٹن پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے گھات لگا کر فائرنگ کی جبکہ ایف بی آئی نے تصدیق کی کہ زخمی گارڈز کی حالت تشویشناک ہے۔ واقعے کے بعد پورے علاقے میں سکیورٹی مزید سخت کردی گئی اور وزیر دفاع نے دارالحکومت میں مزید 500 فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا۔
دوسری جانب افغان ایویک نامی تنظیم نے اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان تارکین وطن انتہائی سخت اسکریننگ سے گزرتے ہیں، لہٰذا ایک شخص کے جرم کو پوری کمیونٹی کے خلاف کارروائی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
وائٹ ہاؤس کے قریب افغان دہشتگرد کا حملہ، ایف بی آئی نے تحقیقات شروع کر دیں
وائٹ ہاؤس سے چند بلاکس کے فاصلے پر نیشنل گارڈ کے 2 اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات ایف بی آئی کی جوائنٹ ٹیررزم ٹاسک فورس نے شروع کر دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وائٹ ہاؤس کے نزدیک فائرنگ، نیشنل گارڈ کے 2 اہلکار شدید زخمی، مشتبہ افغان حملہ آور گرفتار
رائٹرز کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ حملہ گھات لگا کر کیا گیا اور یہ واقعہ تھینکس گیونگ سے ایک روز قبل پیش آیا۔
حملے میں 2 اہلکار شدید زخمیحملے میں شدید زخمی ہونے والے دونوں نیشنل گارڈ اہلکار اس مشن کا حصہ تھے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایات پر دارالحکومت میں قانون نافذ کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ دونوں اہلکاروں کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔
گولیوں کے تبادلے میں زخمی ہونے والے اور بعد ازاں گرفتار کیے گئے حملہ آور کی شناخت محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے رحمان اللہ لکنوال کے نام سے کی۔ مذکورہ دہشتگرد افغان نژاد ہے اور 2021 میں Operation Allies Welcome پروگرام کے تحت امریکا آیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق لکنوال افغان فوج میں 10 سال تک خدمات انجام دے چکا ہے اور قندھار میں امریکی اسپیشل فورسز کے ساتھ تعینات رہا۔
اس کے ایک رشتے دار کے مطابق وہ آخری بار ایمیزون میں ملازم تھا۔
مزید پڑھیے: وائٹ ہاؤس کے نزدیک نیشنل گارڈز پر فائرنگ کرنیوالا رحمان اللہ لکنوال کون ہے؟
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اہلکار کے مطابق لکنوال نے دسمبر 2024 میں امریکا میں پناہ کی درخواست دی تھی جو 23 اپریل کو منظور ہوئی۔
صدر ٹرمپ کا سخت ردِعملصدر ٹرمپ، جو حملے کے وقت فلوریڈا میں تھے، نے ایک ویڈیو بیان میں اسے شر انگیزی، نفرت اور دہشتگردی کا عمل قرار دیا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ بائیڈن دور میں آنے والے تمام افغان شہریوں کی سیکیورٹی جانچ پڑتال دوبارہ کی جائے گی۔
اسی دوران یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز نے افغان شہریوں کی تمام امیگریشن درخواستوں کی پروسیسنگ غیر معینہ مدت تک کے لیے روک دی۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟فائرنگ دوپہر کے وقت ایک مصروف علاقے میں سب وے اسٹیشن کے باہر ہوئی۔
مزید پڑھیں: کیا امریکیوں پر حملہ آور افغان دہشتگرد سی آئی اے کے لیے خدمات انجام دیتا رہا؟
پولیس کے مطابق حملہ آور اچانک ایک کونے سے نکلا، اس نے ہتھیار نکالا اور نیشنل گارڈ اہلکاروں پر براہ راست فائرنگ کر دی۔
جوابی کارروائی میں وہ زخمی ہوا اور دیگر گارڈ اہلکاروں نے اسے حراست میں لے لیا۔
حملے کے فوراً بعد وائٹ ہاؤس کو سیکیورٹی لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔
مزید فوج تعینات کرنے کی درخواستوزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کے مطابق صدر نے واشنگٹن ڈی سی میں پہلے سے تعینات 2 ہزار نیشنل گارڈ اہلکاروں کے علاوہ مزید 500 فوجی بھیجنے کی درخواست کی ہے۔
سیاسی ردعملنائب صدر جے ڈی وینس نے کہا کہ واقعہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کی درستگی ثابت کرتا ہے۔
دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی پالیسی ضرورت سے زیادہ سخت ہے اور بعض قانونی تارکین وطن کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مقامی انتظامیہ کا مؤقفواشنگٹن ڈی سی کی میئر میوریل باؤزر نے اسے ٹارگٹڈ شوٹنگ قرار دیا۔
میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق دہشتگرد حملہ آور اکیلا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: وائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ، امریکا نے افغان شہریوں کی امیگریشن درخواستیں معطل کر دیں
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک وفاقی جج نے چند روز قبل نیشنل گارڈ اہلکاروں کو میئر کی اجازت کے بغیر قانون نافذ کرنے کے اختیارات دینے کے حکومتی فیصلے پر عارضی پابندی لگائی تھی جس کا نفاذ دسمبر تک مؤخر کیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان دہشتگرد رحمان اللہ لکنوال رحمان اللہ لکنوال وائٹ ہاؤس حملہ