پشاور ہائیکورٹ کا ٹک ٹاک سے متعلق بڑا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ بعض ٹک ٹاکرز شام سے رات گئے تک ایسے لائیو پروگرامز چلاتے ہیں، جن میں اخلاقی حدود کو بری طرح پامال کیا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پشاور ہائیکورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ٹک ٹاک سے غیر اخلاقی مواد ہٹانے کا حکم جاری کردیا اور قرار دیا کہ سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو فعال کرنے کی بھی ضروت ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبزادہ اسداللہ اور جسٹس خورشید اقبال پر مشتمل دو رکنی بینچ نے شہری ثاقب الرحمان کی جانب سے ٹک ٹاک لائیو سیشنز میں بڑھتے ہوئے غیر اخلاقی مواد اور پشتو زبان میں نازیبا حرکات کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ٹک ٹاک کے لائیو فیچرز کو بدعنوانی اور فحاشی کے فروغ کے لیے منظم طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ان سیشنز میں ویورشپ بڑھانے اور مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے جان بوجھ کر فحش اشارے، دوٹوک نازیبا گفتگو، گندی گالیاں اور خواتین کے خلاف توہین آمیز انداز اختیار کیا جاتا ہے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ بعض ٹک ٹاکرز شام سے رات گئے تک ایسے لائیو پروگرامز چلاتے ہیں، جن میں اخلاقی حدود کو بری طرح پامال کیا جاتا ہے۔ وکیل درخواست گزار نعمان محب کاکا خیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ٹک ٹاک انتظامیہ کو ہدایت کی جائے کہ غیر اخلاقی مواد کی فوری روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ پی ٹی اے کے وکیل جہانزیب محسود نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی اے غیر قانونی مواد کو ساتھ ساتھ بلاک کر رہی ہے، غیر اخلاقی مواد کی شکایات کے لیے پورٹل بھی بنایا گیا ہے، ٹک ٹاک نے اسلام آباد میں دفتر بنایا اور وہاں بھی ایسے مواد کی روک تھام ہوتی ہے۔ عدالت نے اس ضمن میں ٹک ٹاک سے غیر اخلاقی مواد ہٹانے کا حکم دیا اور قرار دیا کہ پیکا ایکٹ کے تحت کام کرنے والے اداروں کو بھی متحرک ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ عدالت نے رٹ پٹیشن نمٹا دی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غیر اخلاقی مواد کے لیے ٹک ٹاک
پڑھیں:
آن لائن حملوں میں اضافہ؛ حکومت کا سائبر سیکورٹی اتھارٹی قائم کرنے کا اہم فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے سائبر خطرات اور ڈیجیٹل جرائم کے پیش نظر وفاقی حکومت نے ملک بھر میں ایک مرکزی سائبر سیکورٹی اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جو مستقبل میں قومی ڈیٹا، سرکاری اداروں اور حساس معلومات کے تحفظ میں بنیادی ستون کا کردار ادا کرے گی۔
مجوزہ ادارے کا مقصد نہ صرف جدید سیکورٹی نظام تشکیل دینا ہوگا بلکہ ایسے معیاری طریقہ کار بھی وضع کیے جائیں گے جو اہم قومی انفرا اسٹرکچر کو ممکنہ سائبر حملوں سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوں۔
اس حوالے سے وزارتِ آئی ٹی کی جانب سے تیار کیا گیا سائبر سیکورٹی ایکٹ کا ابتدائی مسودہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بھجوا دیا گیا ہے تاکہ مختلف اداروں کی تجاویز، خدشات اور سفارشات کو شامل کیا جاسکے۔
حکومت اس قانون کے لیے پیکا میں مزید ترامیم بھی تجویز کر رہی ہے، جن کے ذریعے سائبر جرائم کی مختلف اقسام، ڈیجیٹل نگرانی اور مواد کے ضابطہ کار کے معاملات کو بہتر طریقے سے منظم کیا جاسکے گا۔
مسودے کی اہم تجویز ’ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی‘ کے قیام سے متعلق ہے، جو ملک میں آن لائن مواد کی نگرانی، جعلی خبروں کے پھیلاؤ پر قابو اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غلط معلومات کے خلاف کارروائی کے اختیارات رکھے گی۔
اس مجوزہ اتھارٹی کے ذریعے ایک خصوصی تحقیقاتی ایجنسی بھی قائم کی جائے گی جو سائبر کرائم کی مختلف جدید اقسام، ہیکنگ حملوں، فراڈ اور ریاستی اداروں کے خلاف چلنے والی آن لائن سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گی۔
حکام کے مطابق یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا جا رہا ہے جب پاکستان مسلسل شدید نوعیت کے سائبر حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ صرف 2025 کی پہلی 3 سہ ماہیوں میں ساڑھے 53 لاکھ سے زائد سائبر حملے رپورٹ ہوئے، جن میں سرکاری محکموں کے ڈیٹا سسٹمز، مالیاتی اداروں، صحت، توانائی اور دیگر شعبوں پر ہونے والی کوششیں بھی شامل تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اتھارٹی کے قیام سے پاکستان کے سائبر دفاعی ڈھانچے میں ایک اہم خلا پُر ہوسکے گا، تاہم آن لائن مواد کی ریگولیشن اور اختیارات کے دائرہ کار کے حوالے سے مختلف حلقوں کی تشویش بھی سامنے آ رہی ہے۔ آنے والے ہفتوں میں اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد قانون کا حتمی ڈرافٹ تیار کیے جانے کا امکان ہے، جس کے بعد اسے منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔