Jasarat News:
2025-12-04@05:11:57 GMT

خیبر پختون خوا میں گورنر راج؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اس وقت وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک بڑا ٹکراؤ خیبر پختون خوا حکومت کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بقول وفاقی حکومت خیبر پختون خوا حکومت اور دہشت گردوں کے درمیان باہمی گٹھ جوڑ ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے اور اگر کے پی کے کی صوبائی حکومت نے دہشت گردوں کی سرپرستی سے خود کو علٰیحدہ نہ کیا تو صوبے میں گورنر راج لگانے کا آپشن موجود ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت کے پاس کسی بھی صوبے میں گورنر راج لگانے کا آئینی اور قانونی اختیار ہے؟ بہت سے قانونی ماہرین کے بقول وفاقی حکومت کسی صوبے میں زبردستی گورنر راج نہیں لگا سکتی اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ عمل نہ صرف عدالت میں چیلنج ہوگا بلکہ اس کا فیصلہ بھی حکومت کے خلاف آئے گا۔ وفاقی حکومت کہتی ہے کہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کہ بیش تر اقدامات ریاست مخالف ہیں۔ بنیادی مسئلہ افغانستان کے ساتھ ہے۔ وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ موجودہ افغان حکومت براہ راست پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہے اور تمام تر ڈپلومیسی میں ناکامی کے بعد حکومت کے پاس واحد راستہ طاقت کا استعمال ہے۔ لیکن اس کے برعکس صوبائی حکومت فوجی آپریشن کی مخالف ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ فوجی آپریشن آخری آپشن ہونا چاہیے اور اس سے پہلے معاملات کو سیاسی سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر حل ہونا چاہیے۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے صوبائی اسمبلی میں ارکان اسمبلی عمائدین اور سیاسی جماعتوں سمیت میڈیا کے ساتھ امن جرگہ طلب کر کے وفاقی حکومت کی مشکلات بڑھا دی ہیں کیونکہ جرگے کے مشترکہ علامیہ میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بند کمروں میں بیٹھ کر سیکورٹی پالیسی ترتیب دینے کی حکمت عملی ختم کی جائے اور اس معاملے میں صوبائی حکومت کو اعتماد میں لے کر فیصلے کیے جائیں۔ وفاقی حکومت او اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے ممکن ہے کہ گورنر راج کی باتیں بھی اسی دباؤ کی سیاست کا حصہ ہو۔ اس وقت وفاقی حکومت پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے یہ کہنا کہ کشیدگی صرف صوبائی حکومت پیدا کر رہی ہے درست نہیں بلکہ اس کھیل میں خود وفاقی حکومت بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہی ہے۔ جب سیاسی جماعتوں یا حکومتوں کو راستہ نہیں دیا جائے گا تو یقینی طور پر اس کے نتیجے میں انتشار اور ٹکراؤ کی سیاست جنم لیتی ہے۔ وفاقی حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جو بھی سیکورٹی پالیسی صوبائی سطح پر اختیار کی جائے گی اس میں صوبائی حکومت کی شمولیت یقینی ہونی چاہیے۔ اگر اس صوبے میں وفاقی حکومت کو فوجی آپریشن کرنا ہے یا افغانستان کے حوالے سے جو بھی حکمت عملی اختیار کرنی ہے اس میں صوبائی حکومت کو نظر انداز کیا گیا تو اس سے مسائل اور زیادہ گمبھیر ہو جائیں گے اور اس کے خلاف ایک بڑا رد عمل بھی آ سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ صوبائی امن جرگے میں جو فیصلہ کیا گیا تھا اس میں پی ٹی آئی شامل نہیں تھی بلکہ تمام صوبائی سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کی توثیق کی تھی کہ فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس لیے اگر صوبے کی تمام جماعتوں کو نظر انداز کر کے فوجی آپریشن کیا جاتا ہے تو یہ مزید ٹکراؤ کے ماحول کو پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت شامل کچھ افراد چاہتے ہیں کہ صوبے میں گورنر راج بھی لگے اور صوبائی حکومت کو دیوار سے لگایا جائے۔ کیونکہ وفاقی حکومت کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جتنا زیادہ ٹکڑا ہو پیدا ہوگا اتنا ہی سیاسی فائدہ موجودہ حکمرانوں کو ہوگا۔ حکومت یہ بات بھی پیش نظر رکھے کہ اب پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن اور جے یو آئی بھی حکومت کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ ہم 27 ویں ترمیم کو تسلیم نہیں کرتے اور اگر ہمیں اس کے لیے ضرورت پڑی تو ہم ایک بڑی تحریک چلانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اس سے قبل مولانا فضل الرحمن فوجی آپریشن کی بھی مخالفت کر چکے ہیں۔ اسی طرح اے این پی بھی وفاقی حکومت کے خلاف نظر آتی ہے۔ ایسے میں وفاقی حکومت کا تمام صوبائی جماعتوں سے ٹکراؤ کا پیدا ہونا خود اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ وفاقی وزرا جب براہ راست صوبے میں گورنر راج کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت مسائل کے حل میں کتنی سنجیدہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان افغانستان کے تعلقات میں بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں اور تمام تر سیاسی اور ڈپلومیسی حکمت عملی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے باوجود اگر وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ مسئلے کا حل طاقت کے استعمال میں ہے تو اسے صوبائی حکومت کو اعتماد میں لینا ہوگا اور نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ تمام صوبائی جماعتوں سمیت قبائلی عمائدین کو اعتماد میں لینا ہی اتفاق رائے کی پالیسی کو ترتیب دے سکے گا۔ گورنر راج سے وفاق اور صوبے کے درمیان تلخیاں پیدا ہوں گی اور اس کا رد عمل بھی شدید ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی ایک مقبول سیاسی جماعت ہے اور جب ہم اس جماعت کو دہشت گرد جماعت کے طور پر پیش کریں گے تو اس جماعت کا رد عمل بھی سامنے آئے گا جو پہلے سے جاری دہشت گردی کی جنگ میں مزید مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ وزیر اعلیٰ نے اب تک جتنے بھی سیاسی اور قانونی راستے اختیار کیے ہیں اس میں وفاقی حکومت کا رویہ مفاہمت سے زیادہ ٹکرا کر نظر آتا ہے جو حالات کو خرابی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کے خلاف جنگ یا فوجی آپریشن کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرے اور پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین کو اعتماد میں لیا جائے۔ حکومت اور ان کے وزیروں کو چاہیے کہ وہ صوبائی معاملات میں اس حد تک مداخلت نہ کریں یا وہ لب و لہجہ اختیار نہ کریں جو فریقین کو دوسرے کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دے۔ بنیادی طور پر تو حکومت پر زیادہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ تحمل اور بردباری کے ساتھ سیاسی مسائل کا حل تلاش کرے۔ حکومت کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ابھی خیبر پختون خوا کے لوگ ووٹ کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر تبدیلی چاہتے ہیں۔ لیکن اگر لوگوں کا ووٹ کی سیاست سے اعتبار اُٹھ جائے یا عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا جائے تو اس کا رد عمل بہت بڑے انتشار کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس لیے لوگوں کو دیوار سے لگانے کے بجائے ان کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہوتی ہے اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا ہی حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ گورنر راج پر صرف پی ٹی آئی کو اعتراض نہیں ہے بلکہ دیگر جماعتیں جن میں جے یو آئی اور اے این پی شامل ہیں ان کے بقول گورنر راج مسئلے کا حل نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سیاسی ایڈونچر کے حامی ہیں اور وہ اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی کے پی کے کی حکومت کے بارے میں سخت رد عمل دیا اور ان کو قبول نہ کرنے کے بیانات یا تقریروں نے بھی ماحول کو خراب کیا ہے۔ اس لیے حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ دونوں کو اپنے موجودہ طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ خود پی ٹی آئی کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مزاحمت کی سیاست میں ریڈ لائن کو کراس نہیں ہونا چاہیے اور جو ریاست کے مفادات ہیں اس کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنا یا اس پر سیاست کرنا بھی قومی خدمت نہیں ہے۔

اداریہ سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: صوبے میں گورنر راج میں وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو خیبر پختون خوا سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں افغانستان کے فوجی ا پریشن سیاسی جماعت حکومت اور پی ٹی ا ئی کی سیاست حکومت کی حکومت کے پیدا ہو کے ساتھ نہیں ہے ہیں اور کے خلاف کیا گیا یہ بات ہے اور کے لیے اس لیے اور اس

پڑھیں:

بدمعاشی کریں گے تو گورنر راج لگ سکتا ہے، فیصل واوڈا

سینیٹر فیصل واوڈا۔فوٹو: فائل

سینئر سیاسی رہنما سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ بدمعاشی کریں گے تو گورنر راج لگ سکتا ہے، ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، ہماری خواہش ہے فیصل کریم کنڈی ہی گورنر خیبر پختونخوا رہیں۔

میڈیا سے گفتگو میں فیصل واوڈا نے کہا کہ میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سے کہوں گا کہ وہ اپنی حکومت چلائیں، ہائی کورٹ آرڈر کے بعد ایک انچ کی غلطی بھی ان کی نا اہلی کا سبب بن سکتی ہے، ہم نہیں چاہتے خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگے۔

فیصل واوڈا نے کہا اگر آپ نے غنڈہ گردی کرنی ہے تو پھر ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچے گا، بانی پی ٹی آئی کی بہنیں میرے لیے قابل احترام ہیں۔ 

اگر ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دیکھیں، سہیل آفریدی

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میں خصوصی افراد کےلیے حاضر ہوں، خصوصی افراد کیلئے ہم بسیس اور ویل چیئر دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر اب بھی انہیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی خواہش ہے تو دیوار پر ٹکریں مارتے رہیں، دیوار کو کچھ نہیں ہونا اور دیوار سے کچھ نہیں ملنا۔

فیصل واوڈا سے سوال کیا گیا کہ کیا جنرل باجوہ یا ثاقب نثار کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ جو چیز پاکستان میں 75 سال میں نہیں ہوئی وہ اگلے 75 سال میں بھی نہیں ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • گورنر راج لگے گا؛ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کی بانی سے ملاقات نہیں ہوگی ؛ فیصل واوڈا کا دعویٰ
  • ’’اگر  پی ٹی آئی نے کچھ ٹھان لیا ہے تو دوسری طرف سے بھی گورنر راج کی ٹھان لی گئی ہے‘‘سینیٹر فیصل واوڈا 
  • ہم کسی سے نہیں ڈرتے، ہمت ہے تو صوبے میں گورنر راج لگا کر دکھائیں، سہیل آفریدی
  • بانی پی ٹی آئی کی آئندہ کوئی سیاسی ملاقاتیں نہیں ہوں گی، فیصل واوڈا
  • بدمعاشی پر گورنر راج لگے گا، عمران خان کی اب سیاسی ملاقاتیں نہیں ہوں گی، فیصل واوڈا
  • خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا حتمی فیصلہ نہیں کیا، طارق فضل چوہدری
  • پی ٹی آئی کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس، خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی خبروں کی شدید مذمت
  • خیبرپختونخوا میں بدمعاشی ہوئی تو گورنر راج لگ سکتا ہے، فیصل واوڈا
  • بدمعاشی کریں گے تو گورنر راج لگ سکتا ہے، فیصل واوڈا