بھارت کو ایشیا کپ جیتے ہوئے 3 ہفتے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے، تاہم ٹیم ابھی تک اپنی فتح کی ٹرافی وصول نہیں کر سکی۔

بھارت نے دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے فائنل میں پاکستان کو 5 وکٹوں سے شکست دے کر ایشیا کپ 2025 کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ مگر میچ کے بعد تقریب میں تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب بھارتی ٹیم نے ایشیائی کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے چیئرمین محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے: ٹرافی تنازعہ، بھارتی کرکٹ بورڈ محسن نقوی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے تیار؟

متعدد رپورٹس کے مطابق ایشیا کپ کی ٹرافی اب بھی دبئی میں اے سی سی کے ہیڈکوارٹر میں موجود ہے، محسن نقوی نے ہدایت دی ہے کہ ان کی واضح اجازت کے بغیر ٹرافی دفتر سے باہر نہیں جانی چاہیے۔ یہ معاملہ اب نومبر کے اوائل میں دبئی میں ہونے والے اے سی سی کے سالانہ اجلاس میں زیرِ بحث آنے کی توقع ہے، جو آئی سی سی کی سہ ماہی میٹنگز کے ساتھ منعقد ہوگا۔

گذشتہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ اے سی سی کی 5 ٹیسٹ کھیلنے والی رکن ٹیمیں بھارت، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان اس معاملے کا باہمی حل تلاش کریں گی۔ اگر اجلاس میں نقوی کی غیر حاضری میں کوئی متفقہ فیصلہ نہ ہو سکا، تو ٹرافی کا مسئلہ برقرار رہے گا اور وہ اے سی سی کے دفتر میں ہی پڑی رہ جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے: ایشیا کپ تنازع، اب جیتنے والی ٹیم کو ٹرافی کیسے ملے گی؟

بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) اس معاملے پر جلد کوئی سخت قدم اٹھا سکتا ہے تاکہ ٹیم کو اپنی جیتی ہوئی ٹرافی مل سکے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بی سی سی آئی حکام کا کہنا ہے کہ اجلاس سے پہلے ابھی وقت ہے، اور بورڈ اپنے اگلے لائحۂ عمل کا فیصلہ مناسب وقت پر کرے گا۔

دوسری جانب، پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انڈیا ایشیا کپ ٹرافی محسن نقوی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انڈیا ایشیا کپ ٹرافی محسن نقوی محسن نقوی ایشیا کپ اے سی سی

پڑھیں:

کرکٹ بورڈ کی ٹیم بھی اچھی بنائیں

پاکستان کرکٹ بورڈ کے بعض ایسے افسران ہیں جنھیں کوئی بھی چیئرمین آئے عہدے سے ہٹا نہیں پاتا، وہ خود کو ناگزیر بنا کر پیش کرتے ہیں، جیسے اگر وہ نہ ہوں تو کام چوپٹ ہوجائے۔

کئی کی پشت پر بعض بڑی سیاسی شخصیات کا بھی ہاتھ ہے، کسی کو انگریزی میں عبور پر ناز ہے تو کوئی قانونی داؤ پیچ بتا کر خود کو ’’مین آف کرائسس‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ بیشتر بورڈ سربراہان کے اپنے لائے ہوئے لوگ اتنے قابل نہیں ہوتے اس لیے تنگ آکر انھیں ایسے ہی پرانے آفیشلز سے کام کرانا پڑتا ہے۔ وہ ہر دور میں ہی ریلیونٹ رہتے ہیں، البتہ محسن نقوی کا معاملہ الگ ہے۔

میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں اتنا طاقتور چیئرمین نہیں دیکھا، ان کے سامنے اگر کوئی سیاسی سفارش لائے تو بھی کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔ وہ کام کو ترجیح دیتے ہیں اور ماضی کے بورڈ چیف جو سوچ بھی نہیں سکتے وہ محسن نقوی کرچکے ہیں۔ ان میں بھارتی کرکٹ بورڈ کو بیک فٹ پر بھیجنا سب سے اہم ہے۔

کسی بھی کرکٹ بورڈ میں سب سے اہم پوسٹ سی ای او یا سی او او کی ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں اس کی اہمیت یوں بڑھ چکی کہ چیئرمین اپنی وزارت کے امور میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ سلمان نصیر کو سی او او سے ہٹا کر پی ایس ایل میں بھیجا گیا اور وہ جس انداز میں کام کر رہے ہیں اس بارے میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ سمیر سید اپنی کوشش تو کر رہے ہیں، البتہ سلمان اب بھی آئی سی سی اور اے سی سی کے معاملات دیکھنے کی وجہ سے بورڈ میں خاصا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اس سے تھوڑی کنفیوژن بھی ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے سب کچھ چیئرمین نہیں کرسکتا۔ اسی لیے اب اپنی ٹیم میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ آغاز ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ سے ہوگا۔ وہ برسوں سے پی سی بی میں ہیں، مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے، ایشیا کپ میں جب ’’ہینڈ شیک‘‘ تنازع ہوا تو انھیں معطل کردیا گیا۔

یہ درست ہے اس معاملے کو بہتر انداز میں دیکھنا چاہیے تھا لیکن سستی برتی گئی۔ بعض حلقوں کے مطابق عثمان کو لگتا ہے کہ کسی ’’قریبی شخصیت‘‘ نے ان کو معطل کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز سے قبل بحال ہوئے۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی معطلی کسی ایس ایچ او کی طرح ہے جو کسی بڑے واقعے پر معطل ہو کر پھر چند روز بعد بحال ہوجاتا ہے۔ البتہ اب پی سی بی نے اس پوزیشن کےلیے اشتہار جاری کردیا۔ اس سے لگتا ہے کہ یا تو گھر جانا ہوگا یا کسی اور شعبے میں ٹرانسفر ہوجائے گا۔ اشتہار میں شرط لکھی ہے کہ امیدوار کا ٹیسٹ یا انٹرنیشنل کرکٹر ہونا لازمی ہے، گریجویٹ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ وہاب ریاض گریجویٹ ہیں یا نہیں میں نہیں جانتا۔

ملک میں پڑھے لکھے انٹرنیشنل کرکٹرز کم ہی ہیں لیکن جو بھی آئے اسے کام میں ماہر ہونا چاہیے۔ وہ نہ صرف آج کیا ہو رہا ہے اسے دیکھے، بلکہ کل پر بھی نظر ہو، جیسے افغانستان کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی یہ بات سمجھ سکتا تھا کہ موجودہ حالات میں افغان ٹیم پاکستان نہیں آئے گی۔ ایسے میں کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ ہم پہلے ہی خود ٹرائنگولر سیریز سے اسے باہر کردیتے۔ چلیے میں یہ دلیل مان لیتا ہوں کہ ہم ہمیشہ کھیل اور سیاست کو الگ رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ اگر ایسا کرتے تو اپنی ہی پالیسی کے خلاف جانا پڑتا، البتہ یہ تو ممکن تھا کہ ٹرائنگولر سیریز کو ہی چند ماہ کےلیے موخر کرنے کا اعلان کر دیا جاتا کہ موجودہ حالات میں ایونٹ کا انعقاد ممکن نہ ہوگا۔ اس سے افغانستان اور بھارت کو ہمارے خلاف ڈرامہ رچا کر پاکستان کو بدنام کرنے کا موقع نہ ملتا، نہ ہی عالمی میڈیا اسے اتنی توجہ دیتا۔

آئی سی سی نے پاکستان میں کبھی کسی واقعے پر بھارت یا افغانستان کے خلاف کوئی پریس ریلیز کی؟ کبھی نہیں! لیکن حالیہ واقعے پر فوراً ایسا کردیا۔ وجہ بھارتی حکومت، آئی سی سی اور افغان بورڈ کا گٹھ جوڑ بنی۔ آئندہ ماہ آئی سی سی کی میٹنگ میں بھارت ایشیا کپ کا معاملہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پی سی بی نے اس حوالے سے کیا پالیسی بنائی ہے؟

میرا چیئرمین بورڈ کو یہ مشورہ ہے کہ ایک اچھی ٹیم بنائیں جس میں کام سے مخلص افراد کو رکھا جائے۔ موجودہ آفیشلز کئی معاملات میں ’’چیئرمین نے کہا ہے‘‘ کہہ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ لائیں جو اپنے فیصلوں کو اون کریں، میڈیا ڈپارٹمنٹ میں عامر میر اور رفیع اللہ عمدگی سے خدمات نبھا رہے ہیں، ان کی مدد کےلیے رضا راشد جیسے محنتی پرانے آفیشلز بھی موجود ہیں، دیگر شعبوں میں بھی ایسے ہی لوگ آنے چاہئیں۔

محسن نقوی وہ بندہ ہے جس نے اکیلے بھارت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ان کی ٹیم ایشیا کپ جیت کر ٹرافی کےلیے منتیں کر رہی ہے، ہائبرڈ ماڈل بھی بی سی سی آئی کو ماننا پڑا، اب برابری کی سطح پر بات ہوتی ہے۔ البتہ چیئرمین کو بورڈ میں بہترین ٹیم درکار ہوگی، جتنے اختیارات انھیں حاصل ہیں ماضی میں کسی کو نہیں تھے۔ حکومت کی کوئی مداخلت نہیں، سابق کرکٹرز اور میڈیا بھی ہلکا ہاتھ رکھتے ہیں، ایسے میں ان کو سنہری موقع ملا ہے کہ پی سی بی کو زبردست ادارہ بنا دیں، اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو شاید کوئی اور بھی کامیاب نہیں ہوگا۔

اس وقت ہمیں کرکٹ میں بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ آئی سی سی عملاً انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے بجائے انڈین کرکٹ کونسل بن چکی ہے۔ بھارت نے افغانستان کو کرکٹ میں بھی ساتھ ملا لیا ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں پر بھارتی اونرز کی وجہ سے لیگز کے دروازے بھی بند ہو رہے ہیں۔ ہمیں پی ایس ایل کو مضبوط بنانا ہوگا۔ صرف آئی سی سی پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے ذرائع آمدنی بھی تلاش کرنا ہوں گے۔ اس کےلیے اچھی مارکیٹنگ کی ٹیم بنانی چاہیے۔ جس طرح کرکٹ ٹیم میں تبدیلیوں کی بات ہوتی رہتی ہے، چیئرمین کو بورڈ میں بھی کرنی چاہیے۔ ٹیم اچھی نہ ہو تو بابراعظم بھی کپتان بن کر کچھ نہیں کرسکتا۔ آف دی فیلڈ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سے بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کا خاتمہ کر کے دم لیں گے: محسن نقوی
  • کرکٹ بورڈ کی ٹیم بھی اچھی بنائیں
  • کھیل قوموں کے ساتھ دلوں کو جوڑتے ہیں، چیئرمین پی سی بی
  • نعمان اور ساجد کو کیسے کھیلنا ہے، پلان بنالیا، ایڈن مارکرام
  • نوجوان کرکٹرز کھیل کے ساتھ تعلیم پر بھی پوری توجہ دے سکیں گے: محسن نقوی
  • افغانستان بھی بھارتی تقش قدم پر ‘ پاکستان کیساتھ کرکٹ سے انکار 
  • چیئرمین PCB کا پاکستان ٹیسٹ اسکواڈ کے اعزاز میں عشائیہ
  • چیئرمین پی سی بی کا قومی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں عشائیہ
  • چیئرمین پی سی بی کا پاکستان ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں عشائیہ