کرکٹ بورڈ کی ٹیم بھی اچھی بنائیں
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
پاکستان کرکٹ بورڈ کے بعض ایسے افسران ہیں جنھیں کوئی بھی چیئرمین آئے عہدے سے ہٹا نہیں پاتا، وہ خود کو ناگزیر بنا کر پیش کرتے ہیں، جیسے اگر وہ نہ ہوں تو کام چوپٹ ہوجائے۔
کئی کی پشت پر بعض بڑی سیاسی شخصیات کا بھی ہاتھ ہے، کسی کو انگریزی میں عبور پر ناز ہے تو کوئی قانونی داؤ پیچ بتا کر خود کو ’’مین آف کرائسس‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ بیشتر بورڈ سربراہان کے اپنے لائے ہوئے لوگ اتنے قابل نہیں ہوتے اس لیے تنگ آکر انھیں ایسے ہی پرانے آفیشلز سے کام کرانا پڑتا ہے۔ وہ ہر دور میں ہی ریلیونٹ رہتے ہیں، البتہ محسن نقوی کا معاملہ الگ ہے۔
میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں اتنا طاقتور چیئرمین نہیں دیکھا، ان کے سامنے اگر کوئی سیاسی سفارش لائے تو بھی کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔ وہ کام کو ترجیح دیتے ہیں اور ماضی کے بورڈ چیف جو سوچ بھی نہیں سکتے وہ محسن نقوی کرچکے ہیں۔ ان میں بھارتی کرکٹ بورڈ کو بیک فٹ پر بھیجنا سب سے اہم ہے۔
کسی بھی کرکٹ بورڈ میں سب سے اہم پوسٹ سی ای او یا سی او او کی ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں اس کی اہمیت یوں بڑھ چکی کہ چیئرمین اپنی وزارت کے امور میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ سلمان نصیر کو سی او او سے ہٹا کر پی ایس ایل میں بھیجا گیا اور وہ جس انداز میں کام کر رہے ہیں اس بارے میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ سمیر سید اپنی کوشش تو کر رہے ہیں، البتہ سلمان اب بھی آئی سی سی اور اے سی سی کے معاملات دیکھنے کی وجہ سے بورڈ میں خاصا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اس سے تھوڑی کنفیوژن بھی ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے سب کچھ چیئرمین نہیں کرسکتا۔ اسی لیے اب اپنی ٹیم میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ آغاز ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ سے ہوگا۔ وہ برسوں سے پی سی بی میں ہیں، مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے، ایشیا کپ میں جب ’’ہینڈ شیک‘‘ تنازع ہوا تو انھیں معطل کردیا گیا۔
یہ درست ہے اس معاملے کو بہتر انداز میں دیکھنا چاہیے تھا لیکن سستی برتی گئی۔ بعض حلقوں کے مطابق عثمان کو لگتا ہے کہ کسی ’’قریبی شخصیت‘‘ نے ان کو معطل کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز سے قبل بحال ہوئے۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی معطلی کسی ایس ایچ او کی طرح ہے جو کسی بڑے واقعے پر معطل ہو کر پھر چند روز بعد بحال ہوجاتا ہے۔ البتہ اب پی سی بی نے اس پوزیشن کےلیے اشتہار جاری کردیا۔ اس سے لگتا ہے کہ یا تو گھر جانا ہوگا یا کسی اور شعبے میں ٹرانسفر ہوجائے گا۔ اشتہار میں شرط لکھی ہے کہ امیدوار کا ٹیسٹ یا انٹرنیشنل کرکٹر ہونا لازمی ہے، گریجویٹ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ وہاب ریاض گریجویٹ ہیں یا نہیں میں نہیں جانتا۔
ملک میں پڑھے لکھے انٹرنیشنل کرکٹرز کم ہی ہیں لیکن جو بھی آئے اسے کام میں ماہر ہونا چاہیے۔ وہ نہ صرف آج کیا ہو رہا ہے اسے دیکھے، بلکہ کل پر بھی نظر ہو، جیسے افغانستان کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی یہ بات سمجھ سکتا تھا کہ موجودہ حالات میں افغان ٹیم پاکستان نہیں آئے گی۔ ایسے میں کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ ہم پہلے ہی خود ٹرائنگولر سیریز سے اسے باہر کردیتے۔ چلیے میں یہ دلیل مان لیتا ہوں کہ ہم ہمیشہ کھیل اور سیاست کو الگ رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ اگر ایسا کرتے تو اپنی ہی پالیسی کے خلاف جانا پڑتا، البتہ یہ تو ممکن تھا کہ ٹرائنگولر سیریز کو ہی چند ماہ کےلیے موخر کرنے کا اعلان کر دیا جاتا کہ موجودہ حالات میں ایونٹ کا انعقاد ممکن نہ ہوگا۔ اس سے افغانستان اور بھارت کو ہمارے خلاف ڈرامہ رچا کر پاکستان کو بدنام کرنے کا موقع نہ ملتا، نہ ہی عالمی میڈیا اسے اتنی توجہ دیتا۔
آئی سی سی نے پاکستان میں کبھی کسی واقعے پر بھارت یا افغانستان کے خلاف کوئی پریس ریلیز کی؟ کبھی نہیں! لیکن حالیہ واقعے پر فوراً ایسا کردیا۔ وجہ بھارتی حکومت، آئی سی سی اور افغان بورڈ کا گٹھ جوڑ بنی۔ آئندہ ماہ آئی سی سی کی میٹنگ میں بھارت ایشیا کپ کا معاملہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پی سی بی نے اس حوالے سے کیا پالیسی بنائی ہے؟
میرا چیئرمین بورڈ کو یہ مشورہ ہے کہ ایک اچھی ٹیم بنائیں جس میں کام سے مخلص افراد کو رکھا جائے۔ موجودہ آفیشلز کئی معاملات میں ’’چیئرمین نے کہا ہے‘‘ کہہ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ لائیں جو اپنے فیصلوں کو اون کریں، میڈیا ڈپارٹمنٹ میں عامر میر اور رفیع اللہ عمدگی سے خدمات نبھا رہے ہیں، ان کی مدد کےلیے رضا راشد جیسے محنتی پرانے آفیشلز بھی موجود ہیں، دیگر شعبوں میں بھی ایسے ہی لوگ آنے چاہئیں۔
محسن نقوی وہ بندہ ہے جس نے اکیلے بھارت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ان کی ٹیم ایشیا کپ جیت کر ٹرافی کےلیے منتیں کر رہی ہے، ہائبرڈ ماڈل بھی بی سی سی آئی کو ماننا پڑا، اب برابری کی سطح پر بات ہوتی ہے۔ البتہ چیئرمین کو بورڈ میں بہترین ٹیم درکار ہوگی، جتنے اختیارات انھیں حاصل ہیں ماضی میں کسی کو نہیں تھے۔ حکومت کی کوئی مداخلت نہیں، سابق کرکٹرز اور میڈیا بھی ہلکا ہاتھ رکھتے ہیں، ایسے میں ان کو سنہری موقع ملا ہے کہ پی سی بی کو زبردست ادارہ بنا دیں، اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو شاید کوئی اور بھی کامیاب نہیں ہوگا۔
اس وقت ہمیں کرکٹ میں بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ آئی سی سی عملاً انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے بجائے انڈین کرکٹ کونسل بن چکی ہے۔ بھارت نے افغانستان کو کرکٹ میں بھی ساتھ ملا لیا ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں پر بھارتی اونرز کی وجہ سے لیگز کے دروازے بھی بند ہو رہے ہیں۔ ہمیں پی ایس ایل کو مضبوط بنانا ہوگا۔ صرف آئی سی سی پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے ذرائع آمدنی بھی تلاش کرنا ہوں گے۔ اس کےلیے اچھی مارکیٹنگ کی ٹیم بنانی چاہیے۔ جس طرح کرکٹ ٹیم میں تبدیلیوں کی بات ہوتی رہتی ہے، چیئرمین کو بورڈ میں بھی کرنی چاہیے۔ ٹیم اچھی نہ ہو تو بابراعظم بھی کپتان بن کر کچھ نہیں کرسکتا۔ آف دی فیلڈ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انٹرنیشنل کرکٹ کرکٹ بورڈ پی سی بی میں بھی رہے ہیں
پڑھیں:
بھارت کے بعد افغانستان کی ہٹ دھرمی سامنے آ گئی، پاکستان میں کھیلنے سے انکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
افغانستان نے پاکستان میں شیڈول سہ ملکی کرکٹ سیریز میں شرکت سے انکار کرکے ایک نیا سفارتی اور کھیلوں کا تنازع کھڑا کردیا ہے۔
افغان کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باعث ٹیم اب نومبر میں پاکستان کا دورہ نہیں کرے گی۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے افغانستان اور سری لنکا کے ساتھ سہ ملکی سیریز کے انتظامات تقریباً مکمل کر لیے تھے۔
اس اہم سیریز کا پہلا میچ 17 نومبر کو راولپنڈی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے تھا جب کہ دوسرا میچ 19 نومبر کو سری لنکا اور افغانستان کے درمیان اسی گراؤنڈ میں ہونا تھا۔ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں باقی 5 میچز اور 29 نومبر کو فائنل شیڈول تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان کرکٹ بورڈ کے مطابق حالیہ سرحدی کشیدگی اور سیاسی حالات کے پیش نظر ٹیم کا پاکستان جانا موزوں نہیں سمجھا گیا۔ بورڈ نے مزید کہا کہ افغان ٹیم دیگر بین الاقوامی مصروفیات پر توجہ دے گی اور مستقبل میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی صورت میں دوبارہ کھیلنے پر غور کیا جائے گا۔
ماہرین اور شائقین کا کہنا ہے کہ افغانستان کا یہ فیصلہ نہ صرف کھیل کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ جنوبی ایشیائی کرکٹ تعلقات پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔ تجزیہ کاروں نے اسے بھارت کے اثر و رسوخ کا نتیجہ قرار دیا ہے، جو حالیہ برسوں میں افغان کرکٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
دوسری جانب پی سی بی نے سیریز کے شیڈول پر نظرثانی شروع کر دی ہے اور امکان ہے کہ سری لنکا کے ساتھ دو طرفہ سیریز یا کوئی متبادل ٹیم شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔