’خاندانی نام برائے فروخت‘: کوریا میں ہر دوسرا شخص کم، لی یا پارک کیوں ہوتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
اگر آپ کسی کوریائی سے ملیں تو 45 فیصد امکان ہے کہ اس کا خاندانی نام کم، لی یا پارک ہوگا اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً 90 فیصد لوگوں کے خاندانی شجرے کسی نہ کسی حد تک جعلی یا گھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ابتدا میں انسان کس خطے میں مقیم تھا، قدیم کھوپڑی نے نئے راز کھول دیے
جنوبی کوریا کے ادارہ شماریات کے مطابق صرف یہی 3 خاندانی نام ملک کی آبادی کے تقریباً نصف یعنی 2 کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ہیں۔ اگر دائرہ پہلے 10 سب سے عام خاندانی ناموں تک بڑھا دیں تو یہ تعداد 64 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔
اسی غیر معمولی رجحان نے ایک مشہور کوریائی محاورہ جنم دیا ہے ’سیول میں مسٹر کم کو ڈھونڈنا‘ یعنی بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے جیسا کام۔
ناموں کی دنیاپہلی نظر میں تو کوریائی خاندانوں کے نام بہت سادہ لگتے ہیں۔ زیادہ تر ایک ہی لفظ پر مشتمل مگر حقیقت میں ہر نام کے پیچھے درجنوں ذیلی شاخیں اور ہزاروں قبائل موجود ہیں۔
مزید پڑھیے: موت کا وقت بتانے والی قدرتی گھڑیاں: ریڈیوکاربن ڈیٹنگ کی حیران کن دنیا
مثال کے طور پر کم نام رکھنے والا کوئی شخص گِمہیے کِم، گیونگجو کِم یا آن دونگ کِم قبائل سے تعلق رکھ سکتا ہے۔ ہر قبیلے کا تعلق کسی مخصوص علاقے یا آبائی شہر سے جوڑا جاتا ہے۔
انہی روایات کو محفوظ رکھنے کے لیے خاندان جکبو نامی شجرۂ نسب کی کتابیں بھی رکھتے ہیں۔ تاہم ان کی درستگی ہمیشہ مشکوک رہی ہے اور اس کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے۔
کوریائی تاریخ: جب نام صرف بادشاہوں کے لیے تھے
ہزاروں سال تک کوریا میں خاندانی نام صرف شاہی خاندان اور امرا استعمال کرتے تھے۔
مزید پڑھیں: کتے انسانوں کے دوست کتنے ہزار سال پہلے بنے؟
عوام میں یہ روایت گوریو دور (918–1392) میں آہستہ آہستہ پہنچی جب عام لوگوں نے بھی کوئی نہ کوئی قبائلی شناخت اپنا لی لیکن سب سے نچلے طبقے غلام، قصاب اور شمن (عامل، جادوگر) اب بھی ناموں سے محروم تھے۔
چوسان دور کا طبقاتی نظامچوسان (Joseon) سلطنت کوریا میں سنہ 1392 سے سنہ 1910 تک قائم رہنے والی ایک بادشاہت تھی۔ یہ کوریا کی آخری روایتی شاہی سلطنت تھی اور تقریباً 518 سال تک برقرار رہی۔
چوسان سلطنت میں معاشرہ ایک سخت کنفیوشیائی طبقاتی ڈھانچے کے تحت چلتا تھا جس میں 4 بڑے طبقات شامل تھے۔ یَانگبان (اشرافیہ، حکومتی عہدیدار اور تعلیم یافتہ طبقہ)، چونگ اِن (درمیانی طبقہ، مترجم، طبیب اور سرکاری ماہرین)، سانگ مین (عام کسان، دستکار اور تاجر) اور چونگ مین (نچلا طبقہ یعنی غلام، قصاب، شمن اور دیگر کم حیثیت سمجھے جانے والے پیشے)۔
اس نظام میں شمن جو روحانی رسومات، جادوئی علاج، بدروحوں کے اخراج اور غیبی رابطوں جیسے کام کرتے تھے واضح طور پر چونگ مین یعنی نچلے طبقے کا حصہ تھے۔ کنفیوشس اصول ایسے پیشوں کو معزز نہیں سمجھتے تھے اس لیے شمنوں کو سماجی طور پر کم درجہ دیا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
اس کم حیثیت کے باوجود شمن مقامی معاشرت میں عملی اہمیت رکھتے تھے۔ عام لوگ بیماری، بدقسمتی یا روحانی مسائل کی صورت میں ان ہی سے رجوع کرتے تھے جس سے وہ سماجی طور پر کمزور مگر عملی طور پر لازم کردار ادا کرتے رہے۔
بڑے نام خریدنے کا سنہری دورابتدائی چوسان دور (1392–1910) میں جنگوں نے خزانہ خالی کردیا۔ مثلاً امجن جنگ (1592–1598) اور چنگ سلطنت کا حملہ (1636)۔ جس کے بعد حکومت نے پیسہ جمع کرنے کے لیے ایک انوکھا راستہ نکالا۔
17ویں صدی کے آخر تک حالات یہ تھے کہ جس کے پاس پیسہ ہو وہ یَانگبان (اشرافیہ) بن جاتا یعنی ٹیکس، فوجی خدمات اور دیگر ذمہ داریوں سے چھوٹ کے ساتھ۔
اور جب کوئی عام آدمی اشرافیہ خرید لے تو اسے اپنے لیے ایک شان دار شجرہ نسب بھی چاہیے ہوتا تھا۔ یوں جعلی جکبو تیار کرنے کا کاروبار پھیل گیا۔
مزید پڑھیں: تبوک: سعودی عرب میں جزیرہ عرب کی قدیم ترین بستی کا انکشاف
کئی لوگوں نے اپنے فرضی آباؤاجداد کو چین سے آنے والا ظاہر کیا تاکہ کوئی حقیقت چیک ہی نہ کر سکے۔
سنہ 1764 میں سرکاری ریکارڈ میں ایک حکومتی اہلکار کے خلاف جعلی شجرہ تیار کرنے کی پوری فیکٹری چلانے کا کیس بھی درج ہے۔
ہر آدمی کا اپنا خاندانی ناماسی دور میں پہلی بار نچلے طبقات کو بھی کچھ معاوضے کے بدلے عام شہری کا درجہ خریدنے کی اجازت ملی اور اس کے ساتھ ہی خاندانی نام رکھنے کا حق بھی مل گیا۔
19ویں صدی کے اختتام تک تقریباً پورے ملک میں ناموں کا استعمال عام ہوگیا۔
ایک تاریخی تحقیق کے مطابق سنہ1681 میں 45 فیصد گھرانوں کے پاس خاندانی نام نہیں تھا۔ سنہ1816 تک یہ تعداد گھٹ کر صرف 6 فیصد رہ گئی۔
آج کے کوریا میں کیا اہم ہے؟اگرچہ زیادہ تر کوریائی آج بھی چند ناموں تک محدود ہیں مگر ان ناموں کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔ سماجی ترقی، جدوجہد اور بعض اوقات موقع ملنے پر تھوڑا سا ‘فیک’ بننے کی کہانی۔
آج کل زیادہ تر لوگ اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ ان کا شجرہ نسب حقیقی ہے یا نہیں۔ اس جدید دور میں والدین کی دولت، تعلیم اور پیشہ ورانہ کامیابی کی اہمیت ہے۔
مزید پڑھیے: ایمیزون کی خواتین جنگجوؤں کی 3 نسلیں روس کے ایک قدیم مقبرے سے برآمد
لہٰذا جب آپ کسی کم، لی یا پارک سے ملیں تو یاد رکھیں کہ ان کے آبائی دعوے حقیقت سے زیادہ تخیل پر مبنی بھی ہوسکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
کم لی اور پارک کوریائی افراد کوریائی خاندانی نام کوریائی نام نام برائے فروخت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کم لی اور پارک کوریائی افراد کوریائی خاندانی نام کوریائی نام کوریا میں کے لیے
پڑھیں:
کراچی میں ’’سن ڈاگ‘‘ کا دلکش نظارہ
کراچی (نیٹ نیوز) شہر قائد میں گزشتہ صبح سن ڈاگ کا دلکش نظارہ کیا گیا۔ سن ڈاگ ایک قدرتی عمل ہوتا ہے جس کو پار ہیلیا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مظہر سورج سے تقریباً 22 ڈگری کے فاصلے پر دِکھائی دیتے ہیں۔ سن ڈاگ ایک قدرتی بصری مشاہدہ ہے جس کے دوران سورج کے اردگرد رنگ برنگی روشنی اور جھلملاتے دھبے دکھائی دیتے ہیں۔ اوپری فضا (اپر ایٹماسفیئر) کے سرد حصے میں برف کے باریک کرسٹل بننے کے سبب سن ڈاگ کا قدرتی عمل رونما ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی کرسٹل پر پڑ کر منعکس ہوتی ہے، جس سے سورج کے دونوں طرف رنگین روشنی کے دھبے دکھائی دیتے ہیں۔