طلبہ کے مخصوص رنگ کے سوئٹر لازمی شرط ختم کی جائے، والدین ایکشن کمیٹی
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نوابشاہ(نمائندہ جسارت) والدین ایکشن کمیٹی نے سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کی طرز پر محکمہ تعلیم سندھ سرکاری اسکولوں میں بچوں کے لیے مخصوص رنگ کے سوئٹر کی لازمی شرط ختم کر ے سندھ حکومت اور اس پر عملدرآمد کروا کر سندھ کی سہولت فراہم کرے تاکہ حسب استطاعت کے مطابق کسی بھی رنگ اور ڈیزائن کا سوئٹر اور دستانے پہن سکتے ہیں۔ اس فیصلے کو والدین، اساتذہ اور سماجی حلقوں کی جانب سے کے پی کے کی حکومت کو وسیع پذیرائی ملی ہے، کیونکہ معاشی حالات کے پیش نظر بڑی تعداد میں والدین مہنگے میچنگ یونیفارم خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ محکمہ تعلیم نے یہ اعتراف کیا کہ بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کرنا ضروری ہے اور یونیفارم کی مہنگی پابندیاں والدین کے لیے مستقل مسئلہ بنی ہوئی تھیں۔خیبر پختونخوا کے فیصلے کے بعد سندھ کے مختلف شہروں، خصوصاً نوابشاہ میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ صوبائی حکومت بھی اسی نوعیت کا حکم جاری کرے۔ نجی اسکولوں کی ’’والدین ایکشن کمیٹی‘‘ نے کہا ہے کہ سردی کی شدت کے پیش نظر بچوں کو کسی بھی قسم کا گرم سوئٹر پہننے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مخصوص برانڈ یا رنگ کے مہنگے سوئٹر کی پابندی نے والدین کی مشکلات بڑھا دی ہیں، جبکہ عام بازار میں دستیاب گرم کپڑے نہ صرف سستے ہیں بلکہ ہر طبقے کے لیے قابلِ رسائی بھی ہیں۔ کمیٹی کا مؤقف ہے کہ نجی اسکولوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایسی ہدایات جاری نہ کریں جو والدین پر غیر ضروری معاشی دباؤ ڈالیں۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگے اور مخصوص سوئٹر لازمی قرار دینا طلبہ اور والدین کے بنیادی حقوق سے متصادم ہو سکتا ہے۔ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 25-A ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ ہر بچے کو مفت اور معیاری تعلیم فراہم کرے، مگر اگر مالی دباؤ کے باعث بچے اسکول آنے سے قاصر ہوں، تو یہ عمل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ مزید یہ کہ صارفین کے حقوق سے متعلق قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی ادارہ والدین کو مخصوص دکانوں یا مہنگے برانڈز سے خریداری پر مجبور کرے، کیونکہ یہ غیر منصفانہ تجارتی عمل سمجھا جاتا ہے۔سماجی تنظیموں نے بھی اس معاملے پر آواز اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ شدید سردی میں بچوں کو صرف رنگ یا یونیفارم کے نام پر مناسب گرم کپڑے پہننے سے روکنا ان کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ بچوں کی فلاح اور تحفظ ہمیشہ اولین ترجیح ہونی چاہیے، اور اسکول انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ موسم کے حالات کے مطابق لچک دے۔ اسی لیے کراچی، حیدرآباد، سکھر، نوابشاہ اور اندرونِ سندھ کے والدین مشترکہ طور پر حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی طرز پر فوری نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔والدین، معلمین اور نجی اسکولوں کی نمائندہ تنظیمیں سندھ حکومت سے اپیل کر رہی ہیں کہ وہ فوری طور پر ہدایات جاری کرے کہ تمام سرکاری و نجی اسکول بچوں کو اپنی استطاعت کے مطابق گرم کپڑے پہننے کی مکمل اجازت دیں اور مہنگے میچنگ سوئٹر کی پابندی ختم کی جائے۔ اس سے نہ صرف والدین کا معاشی بوجھ کم ہوگا بلکہ بچے سردی سے محفوظ رہتے ہوئے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
نائیجیریا میں طلبہ و اساتذہ کا اغوا؛ ملک میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ابوجا: نائیجیریا میں گزشتہ چند دنوں کے دوران پیش آنے والے خطرناک اور خوفناک اغوا کے سلسلے نے پورے ملک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق مختلف شہروں اور قصبوں سے سیکڑوں شہریوں کو جبراً اٹھا لیے جانے کے بعد حکومت نے بالآخر سیکورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو قومی سانحہ قرار دے دیا ہے۔
صدر بولا ٹینوبو نے ہنگامی خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ملک اس وقت ایک بڑے بحران سے گزر رہا ہے اور عام شہری خصوصاً اسکول جانے والے بچوں کی جانیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طور پر قومی سیکورٹی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سلامتی کے محاذ پر مزید تاخیر کے بغیر اقدامات کیے جا سکیں۔
حکام کے مطابق پچھلے ایک ہفتے کے اندر متعدد حملہ آور گروہوں نے مختلف علاقوں میں اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا، جہاں سے نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ اور عملے کے افراد کو بھی زبردستی اٹھا لیا گیا۔ ان واقعات نے عوام میں شدید خوف کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کئی اغوا شدہ افراد یا تو ریسکیو آپریشن کے دوران بازیاب ہوئے یا خود موقع پا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے، تاہم مجموعی طور پر صورتحال ابھی تک قابو میں نہیں آ سکی۔ خاص طور پر نائجر اسٹیٹ کے ایک کیتھولک بورڈنگ اسکول سے لے جائے گئے 265 طالب علم اور اساتذہ ابھی تک لاپتا ہیں۔
صدر ٹینوبو نے صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مسلح افواج میں بڑے پیمانے پر نئی بھرتیوں کا حکم جاری کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زمینی سطح پر سیکورٹی فورسز کی کمی ایک بڑا مسئلہ تھا، جسے اب ہنگامی بنیادوں پر پورا کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوج اور پولیس کے اضافی دستے فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں تعینات کیے جائیں گے تاکہ کارروائیوں میں تیزی آ سکے۔ علاوہ ازیں حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ خطرے سے دوچار تمام علاقوں میں آپریشنز کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے اور اغوا کاروں کے ممکنہ ٹھکانوں کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے۔