data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ابوجا: نائیجیریا میں گزشتہ چند دنوں کے دوران پیش آنے والے خطرناک اور خوفناک اغوا کے سلسلے نے پورے ملک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق مختلف شہروں اور قصبوں سے سیکڑوں شہریوں کو جبراً اٹھا لیے جانے کے بعد حکومت نے بالآخر سیکورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو قومی سانحہ قرار دے دیا ہے۔

صدر بولا ٹینوبو نے ہنگامی خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ملک اس وقت ایک بڑے بحران سے گزر رہا ہے اور عام شہری خصوصاً اسکول جانے والے بچوں کی جانیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طور پر قومی سیکورٹی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سلامتی کے محاذ پر مزید تاخیر کے بغیر اقدامات کیے جا سکیں۔

حکام کے مطابق پچھلے ایک ہفتے کے اندر متعدد حملہ آور گروہوں نے مختلف علاقوں میں اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا، جہاں سے نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ اور عملے کے افراد کو بھی زبردستی اٹھا لیا گیا۔ ان واقعات نے عوام میں شدید خوف کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کئی اغوا شدہ افراد یا تو ریسکیو آپریشن کے دوران بازیاب ہوئے یا خود موقع پا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے، تاہم مجموعی طور پر صورتحال ابھی تک قابو میں نہیں آ سکی۔ خاص طور پر نائجر اسٹیٹ کے ایک کیتھولک بورڈنگ اسکول سے لے جائے گئے 265 طالب علم اور اساتذہ ابھی تک لاپتا ہیں۔

صدر ٹینوبو نے صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مسلح افواج میں بڑے پیمانے پر نئی بھرتیوں کا حکم جاری کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زمینی سطح پر سیکورٹی فورسز کی کمی ایک بڑا مسئلہ تھا، جسے اب ہنگامی بنیادوں پر پورا کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فوج اور پولیس کے اضافی دستے فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں تعینات کیے جائیں گے تاکہ کارروائیوں میں تیزی آ سکے۔ علاوہ ازیں حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ خطرے سے دوچار تمام علاقوں میں آپریشنز کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے اور اغوا کاروں کے ممکنہ ٹھکانوں کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر:میڈیکل کالج میں مسلم طلبہ کے میرٹ پر داخلوں پر ہندو انتہا پسند چراغ پا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مقبوضہ جموں و کشمیر میں شری ماتا ویشنو دیوی میڈیکل کالج میں داخلوں کے معاملے نے ایک بار پھر ہندو انتہا پسندوں کی مسلم دشمنی کو بے نقاب کر دیا ہے۔

کالج کے پہلے بیچ میں مقبوضہ کشمیر کے حصے کی 50 نشستوں میں سے 42 پر مسلم طلبہ نے میرٹ کی بنیاد پر داخلہ حاصل کیا، تاہم ہندو انتہا پسند جماعتوں بی جے پی، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے اس عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے داخلوں کی منسوخی کا مطالبہ کر دیا ہے۔

ان جماعتوں کا مؤقف ہے کہ داخلوں میں ہندو طلبہ کو ترجیح دی جانی چاہیے۔

اس صورتحال پر وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر عمر عبداللہ نے واضح کیا ہے کہ داخلے مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر ہوئے ہیں، مذہب کی بنیاد پر نہیں۔

انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر بی جے پی کو مسلم طلبہ سے مسئلہ ہے تو وہ اس کالج کو اقلیتی ادارے کا درجہ دے دے، مسلم طلبہ اپنی تعلیم کے لیے بنگلادیش یا ترکی کا رخ کر لیں گے۔

عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ میرٹ پر سوال اٹھانا ناانصافی ہے اور اس طرح کا احتجاج صرف تعصب اور انتہا پسندی کو ہوا دیتا ہے۔

ویب ڈیسک فاروق اعظم صدیقی

متعلقہ مضامین

  • امریکی سینیٹر برنی سینڈرز کا ٹرمپ انتظامیہ سے غزہ میں ہنگامی انسانی امداد رسانی کا مطالبہ
  • نائیجیریا میں سیکڑوں طلبہ و اساتذہ کے اغوا کے بعد صدر نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی
  • نائیجیریا، سیکڑوں طلبہ و اساتذہ کا اغوا، صدر نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی
  • امریکی سینیٹر نے ٹرمپ انتظامیہ سے غزہ میں ہنگامی انسانی امداد کی رسائی کا مطالبہ کر دیا
  • نائیجیریا: اغوا کی گئی 24 طالبات کو رہا کردیا گیا
  • مقبوضہ کشمیر:میڈیکل کالج میں مسلم طلبہ کے میرٹ پر داخلوں پر ہندو انتہا پسند چراغ پا
  • نائیجیریا میں اغوا شدہ 24 طالبات کو بازیاب کروا لیا گیا
  • عدالت نے یوٹیوبر ڈکی بھائی کی رہائی کی روبکار جاری کردی
  • عوام کو ریلیف دینے کا دعویٰ غلط ثابت؛ اوگرا نے گیس مزید مہنگی کردی