کشمیری تنازعہ کشمیر کا اپنی خواہشات کے منافی حل ہرگز قبول نہیں کریں گے، ڈاکٹر فائی
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
ڈاکٹر فائی نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگ پہلے ہی بھارت، پاکستان اور عالمی برادری کو بتا چکے ہیں کہ ان کی خواہشات کے خلاف مسلط کیا گیا کوئی حل کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ ورلڈ فورم فار پیس اینڈ جسٹس کے چیئرمین ڈاکٹر غلام نبی فائی نے کہا ہے کہ عالمی طاقتیں تنازعہ کشمیر کا کوئی حل مسلط کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتیں بلکہ ان کا فرض ہے کہ وہ اس مسئلے کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق منصفانہ حل میں مدد فراہم کریں۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر غلام نبی فائی نے ان خیالات کا ا ظہار جماعت اسلامی پاکستان کے زیراہتمام لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔ کانفرنس میں 42 ممالک سے 160 سے زائد مندوبین نے شرکت کی۔ ڈاکٹر فائی نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگ پہلے ہی بھارت، پاکستان اور عالمی برادری کو بتا چکے ہیں کہ ان کی خواہشات کے خلاف مسلط کیا گیا کوئی حل کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حتمی تصفیہ کا تعین حق خودارادیت کے استعمال کے ذریعے کیا جانا چاہیے جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ضمانت دی گئی ہے۔ ڈاکٹر فائی نے کہا کہ اگرچہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں کئی دہائیوں قبل منظور کی گئی تھیں، لیکن ان کی اہمیت و افادیت کم نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بامعنی حل کی طرف بڑھنے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات ضروری ہیں جس میں مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، آسیہ اندرابی اور دیگر رہنماﺅں کی فوری رہائی وغیرہ شامل ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ دنیا کشمیر پر بھارت کے فوجی قبضے سے لاتعلق بنی ہوئی ہے جو افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ 10 لاکھ سے زائد بھارتی فورسز اہلکار کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے لیکن عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔کانفرنس میں منظور کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے بین الاقوامی قانون میں موجود ہے۔ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حق خودارادیت سے انکار نے جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کو ممکنہ جوہری تصادم کے دہانے پر دھکیل دیا ہے، دونوں تنازعات کا پرامن حل عالمی استحکام کے لیے ضروری ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فائی نے کہا ڈاکٹر فائی نے کہا کہ
پڑھیں:
جماعت اسلامی کےزیر اہتمام بین الاقوامی گول میز کانفرنس، دنیا بھر سے اہم شخصیات کی شرکت
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ عالمگیر نظام ناکام ہو چکا ہے، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل طاقتور ممالک کے دباؤ کے باعث مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں اور غزہ اس ناکامی کی سب سے واضح مثال ہے جہاں طاقت اور مفاد نے انصاف کو بے معنی بنا دیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام بین الاقوامی گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، تقریب میں سابق سینیٹر اور امورِ خارجہ کے ماہر مشاہد حسین سید سمیت دنیا کے مختلف خطوں اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شریک ہوئیں۔
اپنے خطاب میں حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اس اجلاس کا مقصد انسانیت کو درپیش مشترکہ مسائل کو اجاگر کرنا اور مسلم دنیا کے لیے مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی کے باوجود عام انسان تک اس کے فوائد نہیں پہنچ رہے، سیاسی و معاشی حالات کمزور طبقات کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں اور مسلم دنیا مختلف بحرانوں کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ، کشمیر، روہنگیا اور سوڈان جیسے مسائل عالمی اداروں کی بے بسی کو نمایاں کرتے ہیں، اس لیے مسلم ممالک کو مشترکہ مؤقف کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان میں ایک ایسا مستقل مرکز قائم کیا جائے جہاں سے مسلم دنیا کے مسائل کو عالمی فورمز تک مؤثر انداز میں پہنچایا جا سکے۔
سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھارت اور اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہوئے کہاکہ ان کے خلاف تمام مسلم ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
ان کاکہنا تھاکہ تمام مسلم ممالک کے درمیان گفتگووشنید، باہمی تعاون اور ایک نظریہ کے تحت ورلڈ آرڈر کو شکست دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغرب کی سیاسی و معاشی برتری کمزور ہو رہی ہے جبکہ ترکیہ، ایران، سعودی عرب، پاکستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک عالمی سیاست میں نئی ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں۔
انہوں نے پاکستان اور فلسطین کے تاریخی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 1940 کی قراردادیں فلسطین اور پاکستان کی مشترکہ تاریخ کا حصہ ہیں، قائداعظم نے اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی اور پاکستانی پائلٹوں نے عرب اسرائیل جنگوں میں عملی حصہ لیا۔
ان کے مطابق خطے میں امن فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام اور یروشلم کو اس کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بغیر ممکن نہیں۔
کانفرنس میں مختلف ممالک اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے اظہارِ خیال کیا۔ جنوبی افریقہ سے افریقی نیشنل کانگریس اور ورلڈ کونسل آف چرچز کے رہنما ریورنڈ فرینک چیکان شریک ہوئے۔
ترکیہ سے رکنِ پارلیمنٹ برہان کایاتورک اور نیو ویلفیئر پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر فاتح اربکان نے خطاب کیا۔
برازیل سے انسانی حقوق اور ماحولیاتی کارکن تیاقو آویلا نے اپنے خیالات پیش کیے۔ فلسطین سے ڈاکٹر سامی العریان اور شیخ منیر سعید، لبنان سے شیخ عزام ایوبی اور پروفیسر رمیز الطنبور نے شرکت کی۔
ملائیشیا سے داتو حاجہ ممتاز، ڈاکٹر سید عظمٰی، بادشاہی شاہ اور نور جہاں مختلس شریک ہوئے۔
برطانیہ سے براڈکاسٹر و صحافی لارن بوتھ، ڈاکٹر انس التکرتی اور ڈاکٹر زاہد پرویز نے خطاب کیا جبکہ امریکہ سے پروفیسر جان ایسپوسیٹو، شان کنگ اور ڈاکٹر غلام نبی فائی کانفرنس کا حصہ تھے۔
بوسنیا سے جہجا ملہسیلوویا، صومالیہ سے ڈاکٹر محمد حسین عیسیٰ، مراکش سے ڈاکٹر اوس رمال، عراق سے شیخ اسماعیل النجم، شیخ اسیر اصلاحی اور مثنیٰ ایمن، فلپائن سے اسماعیل ابراہیم اور سوڈان سے امین حسن عمر شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی شعبہ امورخارجہ کے سربراہ آصف لقمان قاضی، اور ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔
شرکاء نے عالمی سیاسی تبدیلیوں، انسانی حقوق کی صورتِ حال اور مسلم ممالک کے باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ مشترکہ مؤقف اور مربوط سفارتی حکمت عملی ہی مستقبل کے عالمی بیانیے کو بدلنے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔