مصالحے، جو ایک فنکار کو اس کے وطن سے جوڑتے ہیں۔
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
’گزشتہ سال میں نے اپنے وطن غزہ کو چھوڑ دیا۔ جب میں مصالحوں کی خوشبو محسوس کرتا ہوں، مجھے اپنی زندگی کے وہ لمحات یاد آ جاتے ہیں جو میں نے فلسطین میں گزارے۔ یہ مصالحے میری نئے زندگی اور میرے وطن کے درمیان ایک پل کا کام کرتے ہیں‘۔
یہ کہنا ہے غزہ میں پیدا ہونے والے فنکار محمد الحواجری کا جو این سی اے ٹرائینالے کے بارے میں اپنے تجربات بیان کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مصالحوں کے ساتھ ان کے تعلق کی ایک خاص کہانی ہے، اسی لیے وہ اپنے آرٹ ورک میں مصالحے استعمال کرتے ہیں۔
ان کا پروجیکٹ آئی سمیل مائی ہوم لینڈ کہلاتا ہے۔ کبھی کبھی لوگ ان کے فن کو منفرد سمجھتے ہیں کیونکہ وہ مختلف تکنیکوں سے مختلف مواد استعمال کرتے ہیں۔ الحواجری کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد فن کو پیچیدہ بنانا نہیں بلکہ اسے زیادہ سادہ اور سمجھنے میں آسان بنانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے لاہور میں این سی اے ٹرائینالے میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ جب میں یہاں پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ سب کچھ بہت منظم طریقے سے منعقد کیا گیا ہے۔ این سی اے ٹیم کی کارکردگی اور ان کا کام کرنے کا انداز واقعی متاثر کن ہے۔ ٹرائینالے ایک اہم موقع ہے جہاں فنکار ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تجربات بانٹتے ہیں اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ یہاں آ کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں گھر آیا ہوں، کیونکہ میں ایک عرب ملک سے ہوں اور یہاں کے لوگ وہاں کے لوگوں کی طرح گرم جوش اور مہمان نواز ہیں۔
یہ کہانی ان 200 فنکاروں میں سے ایک کی ہے جو 20 ممالک سے این سی اے لاہور پہنچے ہیں تاکہ این سی اے ٹرائینالے میں حصہ لیں۔
نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں این سی اے ٹرائینالے کسبِ کمال کن جاری ہے، جس میں بین الاقوامی فن اور ثقافت کی متنوع سرگرمیاں پیش کی جا رہی ہیں۔
ایک ماہ پر محیط اس پروگرام میں دنیا بھر سے معروف فنکار، ڈیزائنر، موسیقار، محقق اور ثقافتی ماہرین شریک ہیں۔
یہ ٹرائینالے این سی اے کی 150 سالہ تاریخ کا جشن بھی ہے، جس کی بنیاد 1875 میں میو اسکول آف آرٹ کے طور پر رکھی گئی تھی۔
ٹرائینالے میں یورپ، چین، ایران، برطانیہ، فلسطین ، پاکستان اور دیگر ممالک کے 200 سے زائد فنکار حصہ لے رہے ہیں۔ این سی اے نے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے اپنے آرکائیو میں محفوظ نایاب فن پارے بھی نمائش کے لئے پیش کئے ہیں۔
ٹرائینالے میں بین الاقوامی فنکار ریذیڈنسیز، نمائشیں، فلم اسکریننگز، پرفارمنسز، بصری فنون کی نمائش، فیکلٹی کی نمائش “Scope Eleven”، فوٹو گرافی شو “Pekar-e-Tasveer”، فرنیچر اور ٹیکسٹائل ڈیزائن کی نمائش، بین الاقوامی پوسٹر ڈیزائن، مشترکہ سیرامکس، تخلیقی ورکشاپس، موسیقی، تھیٹر اور ڈانس فیسٹیولز شامل ہیں۔
ساتھ ہی سرنگی ریسائٹل، سیتار پرفارمنس، شاعری کے پروگرام، آرٹ اور آرکیٹیکچر کے تھیوریز پر پہلا بین الاقوامی کانفرنس، سیمینار اور سمپوزیم بھی منعقد ہو رہے ہیں۔
ویلش پرنٹ میکر سارہ ہاپکنز نے اپنے تجربات اور ورکشاپ کے عمل کے بارے میں بتایا کہ میں بنیادی طور پر اسکرین پرنٹنگ استعمال کرتی ہوں، لیکن ٹرائینالے کے لیے کچھ نیا کر رہی ہوں۔
میں اسٹینسل اور کٹ پیپر اسٹینسل کا خیال لے کر انہیں ایک نئے فارمیٹ میں منتقل کر رہی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا کام ایک ویلش کمبل سے متاثر ہے جو ان کے بچپن میں ان کے بستر پر تھا۔ یہ ایک روایتی ویلش کمبل ہے۔ جب میں نے اس کا اسکرین پرنٹ بنایا، تو یہ آتیف کے ساتھ تعاون کا حصہ تھا۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں ایک کمبل ہے جس کا ڈیزائن کافی مشابہت رکھتا ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ کچھ نمونے ہماری ثقافتوں کو جوڑ سکتے ہیں۔
ٹیکسالی گیٹ سے ندیم عباس اپنی استاد اللہ بخش سے سیکھی گئی نایاب اور پیچیدہ مہارت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے ہارمونیم ٹرائینالے میں پیش کیے جا رہے ہیں، جو ٹیکسالی گیٹ کی روایت کو عالمی سطح پر متعارف کراتے ہیں۔
فنکار محمد عمران کندن جیولری کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی یہ مغل شہزادوں کے لیے بنائی جاتی تھی، آج بھی چند ماہر کاریگر ہاتھ سے کندن جیولری تیار کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر زیور کو احتیاط سے بنایا، سیٹ کیا اور پالش کیا جاتا ہے، یہ عمل صبر اور مہارت کا متقاضی ہے۔ کبھی سونا استعمال ہوتا تھا، اب کانسی یا پیتل استعمال کیا جاتا ہے تاکہ یہ روایت جاری رہے۔ ہر زیور تاریخ، ثقافت اور لگن کی کہانی سناتا ہے۔
وائس چانسلر این سی اے پروفیسر ڈاکٹر مرتضی جعفری کا کہنا ہے کہ این سی اے ٹرائینالے کی میزبانی ہمارے ادارے کے لیے فخر کا لمحہ ہے۔ یہ موقع دنیا بھر کے فنکاروں، ڈیزائنرز اور ثقافتی ماہرین کو جمع کرتا ہے، جس سے مکالمہ، تعاون اور جدت کو فروغ ملتا ہے۔ یہ صرف ایک نمائش نہیں، بلکہ تخلیق، تبادلے اور انسانی تجربے کا جشن ہے۔
چاہے یہ مصالحوں کی خوشبو ہو جو ایک فنکار کو غزہ واپس لے جاتی ہے، یا وہ بنے ہوئے نمونے جو ویلز اور پاکستان کو جوڑتے ہیں، این سی اے ٹرائینالے ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔ جہاں یادیں، ہجرت اور مادی ثقافت آپس میں ملتی ہیں۔
لاہور میں، خطے کے قدیم ترین فنون لطیفہ کے اداروں میں سے ایک کے کوریڈورز میں، ذاتی کہانیاں اور عالمی تجربات ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ یہاں فنکار نئے انداز میں اپنا وطن دوبارہ دریافت کرتے ہیں اور اپنی کہانیاں اجنبی جگہوں میں بھی پہچان لیتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹرائینالے میں بین الاقوامی انہوں نے بتایا کہ کرتے ہیں کہنا ہے کے لیے
پڑھیں:
ہمارے بھاجی…جج صاحب (آخری قسط)
ہائی کورٹ کے بہت سے ریٹائرڈ جج صاحبان جنھوں نے بھائی جان کے ساتھ serve کیا تھا، تعزیّت کے لیے آتے رہے اور ان کے مختلف واقعات سناتے رہے ۔ (ر) جسٹس افتخار شاہ صاحب نے بتایا کہ ’’ جج صاحب ملتان میں ایڈیشنل سیشن جج تھے، میں بھی وہیں تعیّنات تھا۔ ڈسٹرکٹ جج نے تمام جج صاحبان کو چائے پر بلایا، چیمہ صاحب آئے تو سب سے بڑے تپاک سے ملے مگر ایک جج سے ہاتھ نہیں ملایا۔ ڈسٹرکٹ جج نے وجہ پوچھی تو چیمہ صاحب نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا، ’’یہ حرام کھانا چھوڑ دے اور کرپشن سے توبہ کرلے تو میں اس سے گلے ملا کروں گا‘‘۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا ’’عدلیہ اور انتظامیہ کے کئی افسروں نے کرپشن کے بارے میں ’ Zero tolerance‘ کے صرف بورڈ اور اشتہار لگائے ہوئے ہیں۔
اگر کسی نے کرپشن کو بالکل برداشت نہیں کیا اور ضلعی عدالتوں سے کرپشن کا مکمّل خاتمہ کیا ہے تو وہ صرف جسٹس افتخار چیمہ صاحب تھے، بلکہ عدلیہ ہی نہیں دُوسرے محکموں کے افسرا بھی ان کے ڈر سے محتاط ہوجاتے تھے اور ہر محکمے میں کرپشن کم ہوجاتی تھی‘‘۔ درجنوں جج صاحبان بتاتے رہے کہ ’’جسٹس چیمہ صاحب جہاں کرپٹ لوگوں کو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے وہاں ایماندار افسروں کو بے پناہ عزّت دیتے تھے، ان کی سرپرستی کرتے تھے اور ان کے لیے ڈھال بن جاتے تھے‘‘۔
(ر) جسٹس مجاہد مستقیم نے بھائی جان کے ساتھ بڑا عرصہ گذارا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’’جج صاحب کرپٹ لوگوں کے لیے ننگی تلوار مگر رزقِ حلال کھانے والے ایماندار ججوں کے لیے پیار ہی پیار تھے۔ وہ اپنی تمام تر شفقتیں نیک نام منصفین پر نچھاور کردیتے تھے اور ان کے لیے جج صاحب کی حیثیّت ایک باپ کی ہوتی تھی۔
لوگ اپنے ذاتی مسائل بھی جج صاحب کو بتاتے اور وہ انھیں حل کرنے کی پوری کوشش کیا کرتے تھے‘‘۔ جسٹس مجاہد مستقیم صاحب کا کہنا تھا کہ کئی سیشن جج صاحبان خود رشوت نہیں لیتے، مگر لوگوں کو انصاف دینے کا جو جذبہ اور جنون (passion) جسٹس افتخار چیمہ صاحب میں تھا وہ کہیں اور نظر نہیں آیا، لگتا تھا کہ وہ قرونِ اولیٰ کی مثالوں کی پورے اخلاص کے ساتھ پیروی کررہے ہیں۔
ان کی بہت سی چیزیں inspire کرتی ہیں، سادگی ایسی کہ انسان حیران رہ جائے۔اپنے خالق و مالک کا ڈر اور آخرت میں جوابدہی کا احساس اس قدر تھا کہ چاہے کسی بڑے سے بڑے وی آئی پی نے مٹینگ کے لیے بلایا ہوا ہے مگر نماز کا وقت ہوگیا ہے تو سب کچھ چھوڑ کر بارگاہِ الٰہی میں جاکر سجدہ ریز ہوجائیں گے، دین اور ملک کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے، ایسی غیرمعمولی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں‘‘۔
ہائی کورٹ سے ریٹائر ہوکر بھائی جان نے کسی شہر میں رہائش اختیار نہیں کی بلکہ وہ اپنے گاؤں آگئے اور آبائی گھر میں ساری زندگی گذاردی۔ بلاشبہ ان کا لباس، خوراک اور طرزِ زندگی انتہائی سادہ تھی۔ گاؤں کی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے اور نمازِ فجر کے بعد ماسٹر مشتاق احمد سمیت کچھ اور نمازیوں کے ساتھ لمبی سیر کیا کرتے تھے۔ مگر جہاں وہ تعیّنات ہوتے تھے وہاں سابق آئی جی پرویز راٹھور کے بقول عدالتی عملے کے علاوہ دوسرے محکموں کے ملازم بھی ان کے ڈر کی وجہ سے ایک دوسرے کو پوچھتے پھرتے تھے ’’جج صاحب ٹرین سے اترے ہیں کہ نہیں؟ چیمہ صاحب (جو کافی عرصہ بس یا ٹرین پر سفر کرتے رہے) ٹرین سے اتر آتے تو حرام خوروں کے چہرے اُتر جاتے اور رنگ اُڑ جاتے تھے‘‘۔ پنجاب کے سابق آئی جی چوہدری سردار محمد بھی کہا کرتے تھے کہ ’’جس ضلع میں افتخار چیمہ صاحب سیشن جج لگے ہوں وہاں قتل اور ڈا کے سمیت سنگین جرائم کا گراف نیچے گرجاتا ہے‘‘۔
وہ ایک شاندار اور یادگار اننگ کھیلنے کے بعد منصبِ قضا سے ریٹائر ہو کر گاؤں آگئے اور کاشتکاری میں مصروف ہوگئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے کچھ سالوں بعد 2008کے انتخابات قریب آئے تو وزیرآباد کے معزّزین کا وفد انھیں ملا اور انھیں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اُن کا اصرار تھا کہ ’’ہم اس حلقے کی جاگیردارانہ سیاست تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور یہ کام صرف آپ کرسکتے ہیں، آپ کی فیمیلی اور تینوں بھائیوں کی قابلِ رشک شہرت اور نیک نامی ہی عوام کو سیاست کے قابضین سے نجات دلا سکتی ہے‘‘۔ راقم عملی سیاست (اس کے پست اور غیر اخلاقی کلچر کی وجہ سے) کے خلاف تھا، مگر کچھ لوگ ہمارے ماموں جان جسٹس افضل چیمہ صاحب کے پاس جاپہنچے اور ان سے اپنے حق میں فیصلہ لے کر مسلم لیگ ن کے لیے جج صاحب کی درخواست بھیج دی۔ انٹرویو کے روز وزیرآباد کے انتہائی باکردار اور باضمیر قانون دان خواجہ جمیل بھی ان کے ہمراہ گئے۔
چند روز پہلے خواجہ صاحب نے پہلی بار بتایا کہ ’’مختلف امیدواروں کے انٹرویو ز طویل ہوگئے تو جج صاحب کہنے لگے خواجہ صاحب اٹھیں نماز کا وقت ہوگیا ہے، میں نے ایک دو بار کہا کہ انٹرویو کے وقت آپ کی یہاں موجودگی ضروری ہے مگر انھوں نے سختی سے کہا چھوڑیں انٹرویو کو، اُٹھیں نمازکا وقت جارہا ہے، ہم نے مسجد تلاش کی وہاں جج صاحب نے نماز ادا کی، اتنے میں دوسری نماز کا وقت بھی ہوگیا،میںانٹرویو یاد کراتا رہا مگر جج صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ نماز ادا کرنے کے بعد واپس آئے تو انٹرویو ز ختم ہوچکے تھے۔ ایک دو روز بعد ان کا ٹکٹ ان کے گھر پہنچا دیا گیا، جج صاحب واحد امیدوار تھے جنھیں مسلم لیگ کی قیادت نے بغیر ملے اور دیکھے ٹکٹ دے دیا‘‘ ۔
ان کی مہم بھی وکھری ٹائپ کی تھی، وہ اپنی پرانی سی کرولا کار میں نکلتے، پھر اور ساتھی بھی شامل ہوجاتے مگر اللہ نے ان کی شخصیّت میں اتنی جاذبیّت اور تقریر میں ایسی تاثیر رکھ دی تھی کہ لوگ کہنے لگے کہ ’’جج صاحب جہاں تقریر کر آتے ہیں، سارا گاؤں ان کا مرید ہوجاتا ہے‘‘۔ ان کی خلوصِ دل سے نکلی ہوئی باتیں لوگوں کے دلوں میں اترگئیں اور وہ انتہائی بااثر حریف کو پچیّس ہزار کی لیڈ سے شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ جج صاحب کے ایم این اے بننے کے بعد پوری تحصیل (اب ضلع) وزیرآباد کا سیاسی کلچر یکسر تبدیل ہوگیا، ان کے آس پاس بڑے چوہدریوں کے بجائے مڈل کلاس کے پڑھے لکھے افراد نظر آنے لگے، شرافت اور دیانت کو عزّت و توقیر ملی، بدمعاش اور ٹاؤٹ قسم کے لوگ دبک گئے اور میرٹ، انصاف اور خدمت کا کلچر پروان چڑھنے لگا۔
جج صاحب عدلیہ سے سیاست میں آئے تھے مگر یہاں بھی کرپشن کے خلاف ان کا جوش اور ولولہ اسی طرح قائم رہا، علاقے کے لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب انھوں نے وزیرآباد کے ایک جلسے میں صوبائی اسمبلی کے دونوں ممبران کی موجودگی میں کہا کہ ’’ترقیاتی کاموں کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، کام اگر غیر معیاری ہوا تو ٹھیکیدار کو پوری سڑک نئے سرے سے بنانا ہوگی، اور سب سن لیں کہ ترقیاتی فنڈز میں سے کمیشن لینا ایسا ہے جیسے سُور کا گوشت کھانا‘‘۔ یہ سن کر لوگوں کی نظریں ایم پی ایز کی جانب اٹھ گئیں، انھوں نے سمجھا کہ ان کی توہین ہوئی ہے ، لہٰذا وہ ناراض ہوکر چلے گئے مگر جج صاحب کسی ناراضگی کو خاطر میں نہ لائے۔ اگر کوئی غلط کام کہتا تو اسے بھی جھاڑ دیتے، بالآخر ان کے قریبی ساتھیوں نے کہنا شروع کردیا کہ ’’بہتر ہے کہ جج صاحب لوگوں سے کم ملا کریں‘‘۔ اس کے باوجود وہ دوسری بار چالیس ہزار کی لیڈ سے کامیاب ہوئے۔
اسمبلی کے فلور پر بھی انھوں نے ہمیشہ ضمیر کی آواز بلند کی، جب بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامیوں (جن میں سے زیادہ تر جماعتِ اسلامی کے رہنما تھے) کو سزائیں اور پھانسیاں دی جانے لگیں تو انھوں نے ایوان میں بڑے سخت الفاظ میں بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی حکومت کی مذمّت کی۔ چوہدری نثار علی نے گلہ کیا ’’آپ نے حکومتِ پاکستان کی پالیسی کے خلاف بات کی ہے‘‘۔ تو انھوں نے ترنت جواب دیا ’’مجھے نہیں، مسلم لیگ کی حکومت کو اپنی پالیسی بدلنی چاہیے اور اس اِشوکوعالمی فورمز پر اُٹھاناچاہیے‘‘۔ انھوں نے سیاست یا عہدے سے کبھی ذاتی مفاد نہیں اُٹھایا، بیٹوں کے کیرئر یا نوکری کے لیے بھی کبھی سفارش نہیں کی۔
میدانِ سیاست میں آکربھی وہ سیاستدان نہ بن سکے۔ ان کا اُجلا کردار، صاف دلی اور حق گوئی نے انھیں لوگوں کا محبوب بنادیا تھا، 9 نومبر کو دھاڑیں مارتے ہوئے ہزاروں لوگوں نے اپنے محبوب ’جج صاحب ‘ کو الوداع کہا۔ خالقِ کائنات کو ان کا اخلاص، سادگی، حق گوئی اور خدا خوفی اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے اجلے کردار کے اس صاف دل بندے کے دامن پر کوئی داغ نہیں لگنے دیا۔ شکست کا بھی نہیں۔ انھوں نے تین بار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور تینوں بار کامیاب رہے۔
’الخدمت‘ کے اکابرین بتاتے رہے کہ ’’مستحقین اور غزہ کے مظلومین کے لیے وہ ہماری توقّع سے کہیں بڑھ کر حصّہ ڈالا کرتے تھے‘‘ سیاست میں ان کا سب سے زیادہ فوکس تعلیم رہا، درجنوں کالجوں کے اساتذہ نے آکر بتایا ’’ ہمارا کالج بھی جج صاحب نے بنوایا تھا‘‘ 9 نومبر کو ہمارے کالج میں ان کا خطاب تھا مگر اسی روز وہ اپنی یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ کر اپنے خالق کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کی باتیں نہ ختم ہونے والی ہیںمگر جگہ محدود ہے اس لیے اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ یا الٰہی ہمارے بھائی جان کی کوتاہیاں اور لغزشیں معاف فرماکر انھیں اپنے مقرّبین کے ساتھ جگہ عطا فرمائیں۔