افغان طالبان کی سخت گیر پالیسیوں نے افغانستان کو عالمی تنہائی میں دھکیل دیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی، بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور سخت گیر پالیسیوں نے افغان طالبان رجیم کو عالمی سطح پر مکمل تنہائی کی طرف دھکیل دیا۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک نے طالبان حکومت پر کھلا عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی فورمز سے دور رکھنے کی پالیسی برقرار رکھی ہے۔
افغان جریدے طلوع نیوز کے مطابق ماسکو میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس میں افغانستان کو ایک بار پھر شرکت کی دعوت نہیں دی گئی، اجلاس میں پاکستان، چین، بھارت اور دیگر رکن ممالک شریک تھے تاہم طالبان حکومت کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔
رپورٹ کے مطابق اجلاس میں اقتصادی تعاون، تجارت، سرمایہ کاری، ثقافتی تبادلوں اور انسانی ہمدردی کے موضوعات زیرِ بحث آئے لیکن افغانستان کی مسلسل غیر موجودگی نے واضح کر دیا کہ عالمی برادری طالبان انتظامیہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اقتصادی امور کے ماہر عبدالظہور مدبر نے کہا ہے کہ افغانستان کی اہم جغرافیائی حیثیت اور ٹرانزٹ کوریڈور ہونے کے باوجود طالبان کی شدت پسندانہ حکمت عملی اور عوام پر مسلسل جبر کے باعث انہیں علاقائی تعاون سے دور رکھا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، خواتین کی تعلیم و روزگار پر پابندیاں اور دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہیں عالمی برادری کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ طالبان حکومت پر سخت ترین سفارتی اور اقتصادی پابندیوں پر غور کرے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل کے مطابق
پڑھیں:
آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان حکومت پر نئی پابندیوں سے متعلق تجاویز پیش کی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آسٹریلوی وزارت خارجہ اور تجارت نے اپنی خود مختار سینکشنز ریگولیشنز 2011 میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا جو افغانستان پالیسیوں سے متعلق ہے۔
ان تجاویز میں شامل ہے کہ طالبان سے منسلک اشخاص یا اداروں کو پابندی کے دائرے میں لانے کے نئے معیار بنائے جائیں اور افغانستان کو اسلحہ یا اسلحے سے متعلق خدمات فراہم کرنے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
مزید یہ کہ صرف اسلحہ فروخت ہی نہیں بلکہ اسلحے کی مینٹیننس، کسٹم ورکس یا تربیتی خدمات دینا بھی ممنوع قرار دیا جائے۔
طالبان حکومت سے متعلق یہ اقدام اس بات کی واضح علامت ہے کہ آسٹریلیا طالبان حکومت کو پوری طرح جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور ان پر سیاسی دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔
علاوہ ازیں ان پابندیوں کے نفاذ سے طالبان کو غیر قانونی ذرائع سے اسلحہ حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں جو ان کی فوجی اور سکیورٹی صلاحیتوں پر اثر ڈال سکتا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر سفارتی علیحدگی کا سامنا کر رہے ہیں اور ایسے اقدامات ان کی مالی اور عملی صلاحیتوں کو مزید محدود کر سکتے ہیں۔