افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی بھارت کے دورے پر  ہیں۔ طالبان حکومت کے اس اقدام کو افغانستان میں بھارت کی تجارت اور سرمایہ کاری کی بڑھتی ہوئی شمولیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

طالبان کی پالیسی میں تبدیلی

طالبان کی حکمت عملی میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں بھارت کو ’غیر مسلم‘ اور افغان سیاست میں مداخلت کرنے والا بتایا گیا، تاہم اب طالبان حکومت اقتصادی اور تجارتی مفادات کے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہی ہے۔

بی بی سی اور ٹولو نیوز کے مطابق یہ دورہ وزیر خارجہ امیر خان متقی کے اکتوبر کے دورے کے بعد ہو رہا ہے، جس میں بھارت نے طالبان کو غیر رسمی طور پر ملاقات کی اجازت دی تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان اب بھارت سے گندم، سرمایہ کاری، اور تجارتی راہداریوں تک رسائی چاہتے ہیں، جبکہ ماضی میں انہی ممالک کو ’اسلام مخالف‘ قرار دیا گیا تھا۔

مذہبی اصول بمقابلہ عملی سفارتکاری

تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان اپنے داخلی قوانین میں سختی رکھتے ہیں، لیکن خارجی پالیسی میں انتہائی لچک دکھا رہے ہیں۔

ماضی میں کشمیر، ہندوستانی اقلیتوں اور بھارت مخالف رائے کو بڑھاوا دیا جاتا رہا، لیکن اب بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات میں پرامن رویہ اپنایا جا رہا ہے۔

طالبان کی یہ پالیسی اقتصادی ضرورت اور بین الاقوامی تسلیم حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جبکہ مذہبی اور تاریخی بیانات کو عارضی طور پر پس پشت رکھا گیا ہے۔

طالبان حکومت کے اس قدم سے افغانستان کے تجارتی مستقبل پر اثرات مرتب ہوں گے، اور اس سے پاکستان سمیت خطے میں سیاسی توازن پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔

یہ دورہ نہ صرف تجارتی تعلقات مضبوط کرے گا بلکہ خطے میں طالبان حکومت کی بین الاقوامی پوزیشن کی عکاسی بھی کرے گا۔

افغان عبوری حکومت کے وزیر کی جانب سے دورہ بھارت پر تبصرہ کرتے ہوئے ’ایکس‘ صارف افشاں اعوان (@AdvAfshanAwan) نے اس دورے کو سیاسی زاویے سے دیکھا اور کہا کہ

’نئی دہلی کا یہ دورہ ظاہر کرتا ہے کہ طالبان حکومت بھارت کو افغانستان میں دوبارہ جگہ دے رہی ہے‘۔

افشاں اعوان کے مطابق ’بظاہر تجارتی ایجنڈا دراصل ایسے راستے کھول سکتا ہے جنہیں بھارت پاکستان کے خلاف دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: طالبان حکومت طالبان کی کے مطابق رہی ہے

پڑھیں:

آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا

آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان حکومت پر نئی پابندیوں سے متعلق تجاویز پیش کی ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق آسٹریلوی وزارت خارجہ اور تجارت نے اپنی خود مختار سینکشنز ریگولیشنز 2011 میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا جو افغانستان پالیسیوں سے متعلق ہے۔ 

 

ان تجاویز میں شامل ہے کہ طالبان سے منسلک اشخاص یا اداروں کو پابندی کے دائرے میں لانے کے نئے معیار بنائے جائیں اور افغانستان کو اسلحہ یا اسلحے سے متعلق خدمات فراہم کرنے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ 

مزید یہ کہ صرف اسلحہ فروخت ہی نہیں بلکہ اسلحے کی مینٹیننس، کسٹم ورکس یا تربیتی خدمات دینا بھی ممنوع قرار دیا جائے۔

طالبان حکومت سے متعلق یہ اقدام اس بات کی واضح علامت ہے کہ آسٹریلیا طالبان حکومت کو پوری طرح جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور ان پر سیاسی دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔

علاوہ ازیں ان پابندیوں کے نفاذ سے طالبان کو غیر قانونی ذرائع سے اسلحہ حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں جو ان کی فوجی اور سکیورٹی صلاحیتوں پر اثر ڈال سکتا ہے۔

واضح رہے کہ طالبان پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر سفارتی علیحدگی کا سامنا کر رہے ہیں اور ایسے اقدامات ان کی مالی اور عملی صلاحیتوں کو مزید محدود کر سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے کی کوششیں، افغان وزیر تجارت نئی دہلی پہنچ گئے
  • بھارت سے تجارت: افغان وزیر نورالدین عزیزی نئی دہلی پہنچ گئے
  • پاکستان اور طالبان رجیم مذاکرات کے دروازے بند یا کوئی کھڑکی کھلی ہے؟
  • آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
  • آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
  • آسٹریلیا نے افغان طالبان حکومت پر نئی پابندیوں کی تجاویز پیش کر دیں
  • پاکستان سے تجارت کم کرنا طالبان رجیم کو کتنا مہنگا پڑے گا؟
  • بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ
  • اہل تشیع کیساتھ دینی اقدار کے فروغ کے لئے تعاون برقرار رہیگا، افغان طالبان