WE News:
2025-11-20@08:02:24 GMT

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT

ہمارے آج کے کالم کا موضوع افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی کا تجارتی دورہ بھارت ہے۔ افغان وزیر ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ بھارت کی دعوت پر وہاں گئے ہیں۔ اس دورے میں افغانستان بھارت تجارت بڑھانے اور اس مقصد کے لیے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے استعمال کے حوالے سے حکمت عملی بنائی جائے گی۔ اس اہم پیش رفت پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے اس سب کچھ کا پس منظر سمجھ لیں۔

مسئلہ درحقیقت کیا ہے؟

افغان طالبان حکومت آج ایک ایک شدید بحران کا شکار ہے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ جس مخمصے کا شکار ہے، اس سے کس طرح نکلے؟

مسائل 2 ہیں: پہلا نفسیاتی، دوسرا معاشی۔

نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ افغان طالبان ایک خاص قسم کی نرگسیت یا خودپسندی کا شکار ہیں۔ وہ خود کو فاتح اعظم سمجھتے ہیں جنہوں نے روس اور امریکا جیسی سپرپاورز کو شکست دی۔ وہ یہ بات دل سے شاید مانتے ہوں، مگر تاثر نہیں دیتے کہ ان دونوں جنگوں میں انہیں پاکستان کی بھرپور سپورٹ حاصل تھی۔ اگر یہ پڑوسی ملک ان کے لیے بیس کیمپ اور سیف ہیون نہ بنتا تو یقینی طور پر وہ دونوں لڑائیاں ہار جاتے۔

افغان طالبان حکومت اپنے عوام میں اس نام نہاد اوور کانفیڈنٹ قسم کے اپنے امیج کو پروموٹ کرنے میں لگی ہے۔ جس کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو کچھ نہ سمجھا جائے، ایک شان بے نیازی کا مظاہرہ کیا جائےاور یہ تاثر دیں کہ ہمیں پاکستان کی کوئی پروا نہیں، ہمارے پاس بہتر متبادل موجود ہیں۔

دوسرا مسئلہ جو پریکٹیکل ہے، زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہے اور اس کا تعلق خالصتاً معیشت سے ہے۔ وہ یہ کہ افغانستان تاریخی طور پر اس خطے سے تجارتی تعلق میں جڑا رہا ہے جو آج پاکستان کہلاتا ہے۔ ایک لینڈ لاک ملک کے طور پر افغانستان کے لیے تجارت کی بہترین آپشن پاکستان ہی ہے اور افغان مال کم اخراجات کے ساتھ بھارت تک صرف زمینی راستوں ہی سے پہنچ سکتا ہے۔ نہ صرف افغان مال پاکستان آ سکتا ہے بلکہ پاکستان کی بہت سی اشیا افغانستان میں نسبتاً سستے داموں دستیاب ہوسکتی ہیں۔

پاکستان کے علاوہ کوئی دوسری آپشن افغانستان کو زیادہ سوٹ نہیں کرتی۔ اس کے باوجود افغان نائب وزیراعظم اور وزیر برائے اقتصادیات ملا عبدالغنی برادر نے افغان تاجروں کو کہا ہے کہ وہ پاکستان سے درآمدات اور برآمدات بند کرنے کی تیاری کریں اور 3 ماہ میں متبادل مارکیٹس ڈھونڈ لیں۔

افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت

افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے یعنی اس کے ساتھ کہیں پر سمندر نہیں لگتا، اس لیے بندرگاہ نہیں اور پانی کے راستے براہ راست تجارت ممکن نہیں۔ افغانستان کی سرحد 6 ممالک سے ملتی ہے۔ شمال کی طرف 3 سنٹرل ایشین ممالک تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ افغان بارڈر ملتی ہے۔ شمال مشرق میں ایک چھوٹا سا کاریڈور چین کے ساتھ ملتا ہے۔ مغرب میں ایران ہے جبکہ مشرق میں پاکستان۔

خاصے عرصے سے افغان تجارت میں پاکستان سب سے بڑا پارٹنر رہا ہے۔ افغانستان پاکستان سے خاصی چیزیں منگواتا ہے جن میں چاول، پاکستانی ادویات، سیمنٹ، سبزیاں خاص کر آلو وغیرہ اور کھانے پینے کی دیگر اشیا شامل ہیں۔ پاکستان افغانستان سے زیادہ تر کوئلہ، کاٹن، پھل خاص کر انگور سیب وغیرہ، ٹماٹر اور پیاز وغیرہ منگواتا ہے۔

افغانستان کی تاجکستان سے زیادہ تجارت نہیں ہوتی، دونوں ممالک کے تعلقات میں قدرے کشیدگی ہے۔ افغانستان کا الزام ہے کہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود تاجکستان ہی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ سابق افغان حکمران اشرف غنی بھی تاجکستان چلے گئے تھے۔ افغانستان تاجکستان کے ساتھ تجارت نہ ہونے کے برابر ہے، دو تین فیصد سے زیادہ نہیں۔

ازبکستان کے ساتھ ملا عمر کے دور میں تعلقات کشیدہ رہے، مگر موجودہ افغان طالبان حکومت کے ازبکستان کے ساتھ تعلقات نارمل ہیں، دونوں میں تجارت بھی ہوتی ہے۔ اگرچہ افغانستان وہاں سے چیزیں زیادہ لیتا ہے، بھیج کم پاتا ہے۔ یہی ترکمانستان کا معاملہ ہے۔ افغانستان ترکمانستان سے تیل گیس وغیرہ لیتا ہے۔ دراصل تینوں سنٹرل ایشین ممالک کے پاس اپنے پھل سبزیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں ،انہیں افغانستان سے لینے کی ضرورت نہیں جبکہ ان کے پاس تیل، گیس وغیرہ بھی ہے تو افغان کوئلہ ان کے لیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

ایران کے ساتھ البتہ افغان تجارت نسبتاً زیادہ ہے، پاکستان کے لگ بھگ۔ تاہم ان میں افغان ایکسپورٹس بہت کم ہیں جبکہ زیادہ تر ایران سے اشیا منگوائی جاتی ہیں۔ ایندھن، گندم، خوراک وغیرہ۔ چین سے پچھلے سال ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی افغان تجارت رہی، مگر وہ بھی زیادہ تر امپورٹس تھیں، چین چونکہ افغانستان میں بہت سے پراجیکٹس کر رہا ہے، اس لیے تعمیراتی سامان، الیکٹرانکس وغیرہ آئے۔

پاکستان کی افغانستان کے لیے 2 اعتبار سے اہمیت زیادہ ہے۔ پاکستان افغان ایکسپورٹ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ کوئی بھی دوسرا ملک افغانستان سے اتنی زیادہ اشیا نہیں خریدتا اور نہ ہی خریدے گا۔ افغان کوئلہ پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ ہمارے کئی پاورپلانٹس قدرے سستی بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے پر چلتے ہیں۔ افغان پھل انگور وغیرہ، ڈرائی فروٹس بھی پاکستان کے لیے اہم ہیں کہ ان کی یہاں کھپت ہے۔ اگر پاک افغان تعلقات بہتر ہوں اور امن امان قائم رہے تو پاکستان افغانستان سے کئی سو ملین ڈالر کا کوئلہ مزید امپورٹ کر سکتا ہے۔ افغانستان کی ایکسپورٹ دوگنا ہوسکتی ہے۔

دوسرا فائدہ افغانستان کو راہداری لینے کی صورت میں بھی رہا ہے۔ پاکستانی تاجر اپنا مال سنٹرل ایشیائی ممالک تک پہنچانے کے لیے افغان راستہ استعمال کرتے ہیں۔ سینکڑوں ٹرک پاکستانی مال تاجکستان، ازبکستان وغیرہ لے کر جاتے رہے، افغان حکومت ان پر راہداری ٹیکس لیتی رہی۔ جبکہ سنٹرل ایشین ممالک سے مال بذریعہ افغانستان اور پاکستان انڈیا تک پہنچانے کے لیے پراجیکٹس پر بھی بات ہوتی رہی ہے جیسے تاپی گیس لائن پراجیکٹ یا ازبکستان ریلوے پراجیکٹ۔ ان سب سے بھی افغان حکومت کو آمدنی ہوگی، مگر سردست تو یہ سب پس پشت جا چکا ہے۔

پاکستانی پراڈکٹس کی افغانستان میں اہمیت

بطور صحافی افغانستان میں کئی بار جانے کا موقعہ ملا۔ حامد کرزئی، اشرف غنی ادوار میں اور موجودہ طالبان حکومت کے دور میں بھی وہاں کے سفر کیے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اشرف غنی دور میں پاکستانی سفیر صادق خان تھے۔ انہوں نے ہمیں ایک تفصیلی بریفنگ میں بتایا کہ افغان عوام چونکہ طویل عرصہ پاکستان رہ چکے ہیں، آتے جاتے بھی رہتے ہیں اس لیے پاکستانی چیزیں انہیں زیادہ پسند ہیں۔ ان کا پاکستانی پراڈکٹس کے لیے ٹیسٹ ڈویلپ ہوچکا ہے۔

صادق خان نے مثال دی کہ پاکستانی ڈبے والا دہی افغانستان میں بہت مقبول اور مشہور ہے، ایرانی دہی اس سے سستا ہے، مگر افغان عوام پاکستانی دہی اچھا سمجھ کر کھاتے ہیں۔ یہی رویہ افغانوں کا پاکستانی میڈیسن کے بارے میں بھی ہے، وہ اسے انڈین ادویات سے بہتر سمجھتے ہیں۔

صادق خان نے بتایا کہ وہ ایک وزیر کے پاس ملنے گئے تو اس نے شکایت کی کہ میرے سر میں شدید درد ہے، میں نے بھارتی پیراسیٹامول منگوا کر کھائی تو کچھ فرق نہیں پڑا۔ اب پاکستانی پیراسیٹا مول منگوائی ہے کیونکہ یہ اچھی ہے، اس سے فوری آرام آ جاتا ہے۔ افغانستان میں تعمیرات کے حوالے سے بھی پاکستانی سیمنٹ پسند کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ زیادہ تر مزدور مستری بھی باجوڑ وغیرہ سے منگوائے جاتےہیں۔

اب طالبان حکومت نے دکانداروں سے کہا ہے کہ وہ پاکستان مال ہٹا دیں۔ کہاجارہا ہے کہ قندھار وغیرہ میں اس حوالے سے حکومتی سختی بھی شروع ہوچکی ہے۔

افغان بھارت تجارت اور عملی مشکلات

افغانستان کی سابق حکومتوں نے بھی بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانےکی بہت کوششیں کیں، مگر کچھ زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ افغانستان کی بھارت سے براہ راست رسائی نہیں۔ افغان ٹرک پاکستان سے گزر کر ہی بھارت جا سکتے ہیں۔ چاہے پشاور سے یا پھر کوئٹہ سے افغان مال واہگہ بارڈر کراس کر کے ہی بھارت جا سکتا ہے۔ یہ نسبتاً سستا آپشن ہے، تاہم حالیہ پاک افغان کشیدگی کے باعث یہ بہت مشکل ہوچکا ہے۔

افغان بھارت تجارت کی دوسری آپشن ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے ہے۔ افغان مال زمینی راستے سے ایرانی بندرگاہ تک پہنچے اور پھر کارگو بحری جہازوں کے ذریعے بھارت پہنچے۔ اس پراسیس میں ایک تو دن خاصے لگ جاتے ہیں اور پھر ظاہر ہے کاسٹ بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔

تیسرا طریقہ فضائی ہے۔ کابل یا قندھار سے ہوائی جہازوں کے ذریعے مال بھارت بھیجا جائے۔ یہ سب سے مہنگا طریقہ ہے۔ چند سال پہلے امریکی دباؤ پر شاید بھارت افغان ائیر کاریڈور بنانے کی کوشش کی گئی۔ کابل دہلی ائیر فریٹ کاریڈور کے نام سے یہ انیشیٹو کیا گیا۔ کوشش کے باوجود آٹھ، دس ٹن ماہانہ سے زیادہ ساماں نہیں جا سکا۔ یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا کیونکہ فی کلومیٹر لاگت دیگر آپشنز سے پانچ چھ گنا زیادہ مہنگا تھا۔

دراصل کرزئی اور غنی حکومتوں نے بھارت کے ساتھ سیاسی اور امدادی شراکت ضرور قائم کی، مگر تجارتی تعاون ہمیشہ جغرافیائی حقیقتوں کا اسیر رہا۔ بھارت سرمایہ کاری کر سکتا تھا، تجارت نہیں بڑھا سکتا تھا، کیونکہ افغانستان کے لیے رسائی کا حقیقی راستہ اسلام آباد سے گزرتا تھا، نئی دہلی سے نہیں۔ طالبان بھی یہی حقیقت بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر عملاً وہی جغرافیہ آج بھی غالب ہے۔ اگرچہ افغان طالبان کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی، وہ اپنے ماضی سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔

افغان طالبان کو یہ بات بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کا ستر پچھتر فی صد انحصار غیر ملکی امداد پر تھا۔ امریکی اور نیٹو فورسز تب افغانستان میں موجود تھیں۔ ان کی مدد سے ملک چل رہا تھا۔ تجارت تب افغان حکومتوں کی پہلی ترجیح نہیں تھی۔ افغان طالبان حکومت کا البتہ سرواوئیل ہی معیشت پر ہے، اپنے ہمسائیوں خاص کر پاکستان سے تجارت ان کے لیے بہت اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت چاہے تو بھارت سے تعلقات ضرور بڑھا سکتی ہے، لیکن اگر معیشت بچانی ہے تو اسے پاکستان کا دروازہ کھٹکھٹانا ہی ہوگا۔

افغانستان بھارت ممکنہ تجارت

افغان وزیر تجارت کا حالیہ بھارتی دورہ بظاہر کابل کی نئی سفارتی سمت کا اشارہ ہے، مگر تجارتی نقطہ نظر سے اس کا قابلِ عمل ہونا ابھی سوالیہ نشان ہے۔ افغانستان جغرافیائی طور پر جس خطے میں واقع ہے، وہاں سے بڑے پیمانے پر تجارتی سرگرمی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو سفارتی اشارے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، مگر معاشی سہارا پھر بھی اسی راستے سے مل سکتا ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے کابل کی بنیادی تجارتی شاہراہ رہا ہے یعنی پاکستان۔ افغانستان کی تجارتی نبض بدستور پاکستان کے راستے دھڑکتی ہے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت سے افغانستان چیزیں منگوا تو لے گا، مگر افغان ایکسپورٹس وہاں بہرحال نہیں چل پائیں گی کہ بھارتی صعنت کاروں کو مہنگا افغان مال وارے نہیں کھاتا۔

پاکستان افغانستان تجارت ختم ہونے سے پاکستان کو بھی کچھ نقصان تو ہے، مگر بہرحال افغان معیشت زیادہ بری طرح سے متاثر ہوگی۔ چند ماہ تک ایسا ہوتا رہا تو افغان کرنسی بھی نیچے گرے گی۔ اس سے مزید مہنگائی بڑھے گی۔

افغان طالبان حکومت کو یہ سب باتیں سمجھنا چاہییں۔ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ دہشتگرد گروہوں سے خود کو الگ کریں اور پاک افغان تعلقات نارملائز کریں۔ اس سے انہیں بہت زیادہ معاشی فوائد میسر ہوسکتے ہیں۔ یہ بات جتنا جلد افغان طالبان قیادت کو سمجھ آ جائے اتنا ہی ان کے لیے اچھا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان طالبان حکومت پاکستان افغان افغانستان میں کہ افغانستان افغانستان سے افغانستان کی افغانستان کے افغان حکومت بھارت تجارت میں پاکستان پاکستان سے پاکستان کے پاکستان کی افغان مال ان کے لیے سے زیادہ زیادہ تر کہ افغان کے ساتھ سکتا ہے رہا ہے یہ بات

پڑھیں:

پاکستان اور طالبان رجیم مذاکرات کے دروازے بند یا کوئی کھڑکی کھلی ہے؟

6  نومبر کو استنبول میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں تعطل آ گیا ہے جس میں دہشتگرد ٹی ٹی پی کے حوالے سے افغان طالبان رجیم کی ہٹ دھرمی اہم رکاوٹ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام

مذاکرات میں تعطل کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے لیے علاقائی ممالک خصوصاً ایران متحرک ہے جس کی وزارت خارجہ کی جانب سے علاقائی ممالک کا اجلاس بلائے کی اعلان اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت ہے۔

اسی طرح سے برادر اسلامی ملک ترکیہ بھی اس حوالے سے سرگرم اور اس کے اعلیٰ سطحی وفد کی آمد کا امکان ہے۔

علاقائی ممالک افغانستان میں موجود دہشتگردی کے خطرے سے آگاہ اور پاکستان کے مؤقف سے ہم آہنگ ہیں۔

26  ستمبر کو نیویارک جنرل اسمبلی اجلاس کے موقعے پر روس کی جانب سے افغانستان پر 4 علاقائی ممالک چین، پاکستان، ایران اور روس کا اجلاس طلب کیا گیا جس نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشتگردی کے خطرے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور داعش، القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، تحریک طالبان پاکستان، جیش العدل اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروہوں کو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔

ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام دہشتگرد تنظیموں کے خاتمے کے لیے قابل تصدیق اقدامات کریں، بھرتی اور مالی معاونت کو روکیں، اور تربیتی کیمپوں اور انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر بند کریں۔

مزید پڑھیں: کچھ پتا نہیں طالبان سے مذاکرات پھر کب ہوں گے، عطا تارڑ

اسی طرح گزشہ ماہ افغانستان کے حوالے سے گزشتہ ماہ روس میں منعقد ہونے والے ماسکو فارمیٹ ڈائیلاگ کے اعلامیے میں بھی افغانستان پر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کرنے اور افغان سرزمین کو ہمسایوں کے خلاف استعمال نہ کرنے پر زور دیا گیا۔

مذاکرات کا تعطل اور افغان عوام کی مشکلات

جس چیز پر سب سے زیادہ گفتگو ہو رہی ہے وہ افغان تجارت کی بندش ہے اور اس کے ساتھ افغان عوام کو پاکستان کی جانب سے علاج اور تعلیم کی سہولیات بھی تعطل کا شکار ہیں جہاں ایک طرف افغان طالبان رجیم کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تجارت مکمل طور پر ختم کر کے متبادل تجارت کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہیں افغان تاجروں کی جانب سے کئی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راستے کھلنے چاہییں کیونکہ پاکستان کے ساتھ تجارتی راستے سب سے زیادہ کم وقت اور کم لاگت ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان سامان کی ترسیل ایک دن میں مکمل ہو جاتی ہے جب کہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں سامان پہنچنے اور وصول کرنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان سے مذاکرات ختم ہوگئے، ثالثوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے، خواجہ آصف

اسی طرح سے افغانستان سے لوگ علاج کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی مُشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ افغان بالب علموں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان، افغانستان کے لیے ایسا ملک ہے جہاں زیادہ تر افغان آبادی سہولت کے ساتھ چند گھنٹوں کی مسافت طے کر کے پہنچ سکتی اور پاکستان میں تجارت، تعلیم اور علاج کی سہولیات حاصل کر سکتی ہے۔

دوست ممالک کی کوششیں

9  نومبر کو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ ترک وزیرخارجہ خاقان فیدان، وزیردفاع اور انٹیلی جنس چیف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اور مذاکرات کے لیے اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ لیکن تاحال ترک وفد اسلام آباد نہیں پہنچا جس کی بظاہر وجہ ترک فوجی طیارے کو پیش آنے والا حادثہ بیان کی جا رہی ہے جو آذربائیجان سے اڑان بھرنے کے بعد جارجیا میں گر کر تباہ ہو گیا تھا تاہم اطلاعات کے مطابق یہ وفد کسی بھی وقت اسلام آباد پہنچ سکتا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی گزشتہ دنوں میں 2 بار افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان مُتقی سے ٹیلی فون بات چیت کر چکے ہیں جس میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

خطے کے ممالک کو افغانستان کے رویے پر تشویش ہے، صحافی افضل رضا ایرانی

ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے اسلام آباد میں موجود نمائندے افضل رضا نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قیادت افغان طالبان رجیم کے رویے کو بخوبی جانتی ہے کیونکہ افغانستان، ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بعد برادر اسلامی ممالک بطور ثالث کردار کے لیے متحرک ہوئے لیکن ان ملکوں کی سرحدیں پاکستان یا افغانستان کے ساتھ مُتصل نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے ایران بھی متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں ممالک افغانستان کے پڑوسی ہیں اور ان دونوں ملکوں نے گزشتہ 45 برس افغان باشندوں کو اپنے ملکوں میں پناہ دی ہے جبکہ مغربی ایشیا کے ممالک اِس صورتحال سے دوچار نہیں ہوئے۔ لہٰذا ایران نے یہ محسوس کیا کہ افغان طالبان رجیم کے رویے کے باعث دونوں ملکوں کے مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے۔ اب ایران نے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟

گزشتہ روز ایرانی وزارت خارجہ کے ماتحت ادارے انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے تہران میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس کے حاشیے پر ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے لیے کوشش کر رہے ہیں، ہم نے دونوں ملکوں سے رابطے کیے ہیں اور ایک علاقائی حل کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

اسی طرح ایرانی نائب وزیر خارجہ سعید خطیب زادہ نے روسی خبر رساں ادارے اِسپُتنِک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگلے ماہ ہم ایک اِجلاس بلانے جا رہے ہیں جِس کا مقصد پاکستان اور ایران کے درمیان ثالثی ہے اور اس کانفرنس میں روس اور چین کو بھی مدعو کیا جائے گا۔

افضل رضا نے کہا کہ اِس معاملے میں ایران کے کردار کے مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مزید کشیدگی اب نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایران اور دیگر علاقائی ممالک اس کشیدگی کے باعث تشویش کا شکار ہیں اور اُنہیں پاکستان سے زیادہ افغانستان کے رویے پر تشویش ہے۔ کیونکہ افغان طالبان رجیم کے افغانستان میں استحکام لانے سے متعلق دعوے کھوکھلے اور فرضی ہیں۔ پاکستان کے پاس اِتنی طاقت ہے کہ وہ افغان طالبان رجیم کے غیر ذمے دارانہ بیانات کا جواب دے سکتا ہے لیکن چونکہ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ وہ برادار ممالک کو اس سلسلے میں اپنے کردار کی ادائیگی کا موقع فراہم کرے۔

مزید پڑھیں: طالبان رجیم دہشتگردی پر پردہ ڈال رہی ہے، ترجمان دفتر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایران کا کردار ادا کرنا روس سے بھی زیادہ بہتر ہے کیونکہ ایران دونوں ملکوں ہمسایہ اور افغان طالبان رجیم کو اِس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

افضل رضا نے بتایا پانی کے حقوق کے حوالے سے افغانستان ایران کو بھی تنگ کرتا ہے اور افغان طالبان رجیم اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتے اور ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے کیونکہ پاکستان اپنے بردارانہ ممالک کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو ہمیشہ اچھی نظر سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایران کی جانب سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے کے بعد کابل اور اسلام آباد کے درمیان امن معاہدے پر پیشرفت کا اِمکان ہے کیونکہ ایرانی قیادت پاکستان کے جائز سکیورٹی مفادات کو سمجھتی ہے اور کابل کو سمجھانے کی کوشش کرے گی۔

ترک اعلیٰ سطحی وفد کبھی بھی آ سکتا ہے، طاہر خان

افغان امور کے ماہر، معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات پر ڈیڈ لاک تو جاری ہے اور بظاہر کوئی ایسی کوشش نظر نہیں آتی جس سے اندازہ ہو کو اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے جو اعلٰی سطحی وفد پاکستان بھجوانے کا اعلان کیا تھا وہ ترکیہ کا فوجی طیارہ گرنے کے حادثے کے بعد سے تاخیر کا شکار ہے۔ وفد نے آنا تو ضرور ہے کیونکہ اس کا اعلان ترک صدر نے خود اُس وقت کیا تھا جب وہ اور وزیراعظم شہباز شریف آذربائیجان میں اکٹھے تھے۔ پاکستان نے ترک اعلیٰ سطحی وفد کی آمد کا خیر مقدم کیا تھا اور افغان سائیڈ بھی اس بات سے خوش ہے۔

طاہر خان نے کہا کہ پاک افغان کشیدگی ختم کرانے کے لیے ایران کا کردار بھی اہم ہے۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک علاقائی ملکوں پر مشتمعل کانفرنس بلانا چاہتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کم ہو۔ یہ بھی ایک اہم پیشرفت ہے اور پاکستان نے اس کو بھی خوش آئند قرار دیا ہے۔ اگر علاقائی سطح پر اس طرح کی کاوش ہوتی ہے تو یہ اس لیے بھی اچھا ہے کہ اس سے یہ تاثر نہیں رہے گا کہ کوئی ایک ملک یعنی ترکی یا قطر یا روس اس میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ علاقائی ممالک کی سطح پر بات ہو گی تو اس میں تمام ممالک شامل ہو جائیں گے اور اس کا اثر بھی ہوگا اور وہ دونوں ملکوں کو کسی نہ کسی طرح قائل کریں گے کہ ان کی موجودہ صورتحال ان کے لیے بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور

طاہر خان نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب بنتا ہے لیکن سب سے بہتر حل دوطرفہ مذاکرات سے نکلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب دیگر ممالک اس مسئلے میں بات کریں گے تو دونوں ملکوں کو کچھ نہ کچھ ماننا ہی پڑے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایران پاکستان اور افغان طالبان پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات پاکستان اور افغانستان ترکیہ ٹی ٹی پی

متعلقہ مضامین

  • بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے افغان وزیر نئی دہلی پہنچ گئے
  • افغانستان کی بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے کی کوششیں
  • افغانستان کی بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کی کوششیں
  • بھارت سے تجارتی روابط بڑھانے کی کوششیں، افغان وزیر تجارت نئی دہلی پہنچ گئے
  • بھارت سے تجارت: افغان وزیر نورالدین عزیزی نئی دہلی پہنچ گئے
  • پاکستان اور طالبان رجیم مذاکرات کے دروازے بند یا کوئی کھڑکی کھلی ہے؟
  • پاکستان سے تجارت کم کرنا طالبان رجیم کو کتنا مہنگا پڑے گا؟
  • واویلا کیوں؟
  • بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ