اسلام آباد(نیوزڈیسک) وزیرتوانائی اویس لغاری کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر میں اہم اصلاحات کرچکے ہیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ ماضی میں ہونے والے معاہدے شفاف نہیں تھے۔ پاکستان میں صاف انرجی کے فروغ کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔

اسلام آباد میں پاکستان بزنس کونسل کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر توانائی اویس لغاری کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت مضبوط ہورہی ہے۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں وسیع مواقع موجود ہیں۔توانائی کے شعبے میں پہلی بار مکمل منصوبہ بندی کےساتھ اصلاحات کیں۔

اویس لغاری نے کہا کہ گردشی قرضوں کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت عوام کو سہولت فراہم کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ملک میں متبادل توانائی کے ذرائع میں اضافہ ہو رہا ہے جو کم قیمت بھی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملک میں 19 ہزار میگاواٹ سولر بجلی بن رہی ہے۔ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں پہلی دفعہ مستقبل کیلئے پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ نیٹ میٹرنگ کے نطام میں بہتری کی ضرورت ہے۔ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جارہا ہے۔ توانائی کے شعبے میں نجکاری کا عمل بھی اصلاحات کا حصہ ہے۔ وزارت توانائی نے اٹھائیس اہم اصلاحات کی نشاندہی کی ہے۔ مقابلہ جاتی توانائی مارکیٹ آئندہ چند ماہ میں شروع ہوگی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پاکستان میں سونے کی مارکیٹ کی شفافیت کے مسائل اور اصلاحات کی ضرورت

اسلام آباد (صغیر چوہدری) – پاکستان میں سونے کی سالانہ کھپت تقریباً 60 سے 90 ٹن کے درمیان ہے، لیکن ملک میں سونے کی قیمتیں غیر شفاف ہیں اور مارکیٹ میں واضح ریگولیشنز نہ ہونے کی وجہ سے معاملات زیادہ تر غیر رسمی چینلز سے چلتے ہیں۔ یہ انکشاف کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان (CCP) کی تازہ اسسمنٹ اسٹڈی میں سامنے آیا ہے۔
اس اسٹڈی کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد سے زائد سونے کی تجارت غیر رسمی ذرائع سے ہوتی ہے، جبکہ مالی سال 2024 میں 17 ملین ڈالر مالیت کا سونا درآمد کیا گیا۔ اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ گولڈ مارکیٹ کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ایک جامع اتھارٹی کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ وقت میں سونے کی قیمتوں کا کوئی شفاف مارکیٹ میکانزم موجود نہیں۔ مختلف شہروں کی ایسوسی ایشنز روزانہ بنیاد پر قیمتیں طے کرتی ہیں، جبکہ سونے کی خرید و فروخت، درآمدات اور ریفائننگ کے متعلق قابل اعتماد ڈیٹا بھی دستیاب نہیں۔
کمیشن نے مزید کہا کہ ملک میں سونے کی ریفائننگ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اور ہال مارکنگ کی ناکافی سہولتوں کی وجہ سے ملاوٹ اور صارفین کے ساتھ دھوکہ دہی کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ سونے سے متعلق پیچیدہ ٹیکس سسٹم، اسمگلنگ اور انڈر انوائسنگ جیسے غیر قانونی اقدامات کو فروغ دیتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی اسٹڈی میں ریکو ڈیک گولڈ منصوبے کا ذکر بھی شامل ہے، جو 37 سال میں تقریباً 74 ارب ڈالر مالیت کا سونا پیدا کرے گا۔ اس منصوبے کی کامیابی سونے کی سپلائی چین میں تبدیلی لا سکتی ہے، مگر غیر دستاویزی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لین دین نقد ہوتا ہے اور تاجروں کے گروہ قیمتوں اور سپلائی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
کمیشن نے واضح کیا کہ سونے کی مارکیٹ کو منظم کرنے کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے، جن میں شامل ہیں:
پاکستان گولڈ اینڈ جیم اسٹون اتھارٹی کی تشکیل
سونے کی لائسنسنگ، درآمدات اور اینٹی منی لانڈرنگ ریگولیشنز کا نفاذ
سونے کے معیار کی جانچ اور درجہ بندی کو لازمی قرار دینا
سونے کی خرید و فروخت کو ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم سے منسلک کرنا
ترکی کے ماڈل پر گولڈ بنک سسٹم قائم کرنا
کمیشن نے زور دیا کہ ریکو ڈیک منصوبے کے کمرشل آغاز سے پہلے سونے کی مارکیٹ کے لیے یہ ریگولیشنز متعارف کروانا انتہائی ضروری ہیں تاکہ مارکیٹ شفاف، منظم اور صارف دوست بن سکے۔
یہ اسٹڈی پاکستانی سونے کی مارکیٹ میں اصلاحات کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرتی ہے، اور واضح کرتی ہے کہ شفافیت اور دستاویزی نظام کے بغیر موثر پالیسی سازی ممکن نہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • حکومت کی نیٹ میٹرنگ قوانین میں ترمیم کی تیاری
  • حکومت مستقبل میں براہِ راست بجلی کی خریداری نہیں کرے گی، اویس لغاری
  • آلٹرن انرجی کی حکومت اور CPPA کیساتھ اہم معاہدے ختم کرنے کی تیاریاں
  • پاکستان میں سونے کی مارکیٹ کی شفافیت کے مسائل اور اصلاحات کی ضرورت
  • دہشتگردوں کیخلاف رواں برس ہونیوالے آپریشنز کی تفصیلات جاری ،سب سے زیادہ انٹیلی جینس بیسڈ آپریشن کس صوبے میں کیے گئے؟ جانیے
  • بھارت نے پاکستان کیساتھ دریاؤں کے پانی سے متعلق اعداد و شمار شیئر کرنا بند کر دیا
  • چین اور روس کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کی بنیادیں مضبوط ہیں، چینی صدر
  • 2600ارب گردشی قرضے کا بوجھ غریب طبقے پر ڈالا گیا
  • ضمنی انتخابات شفاف، کوئی دھاندلی نہیں ہوئی، طلال چوہدری