ملک میں 480 جینڈر بیسڈ کورٹس قائم ہیں لیکن نتائج صفر ہیں؛ شیری رحمان
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
سٹی 42 : سابق وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمان نے کہا ہے کہ ملک میں 480 جینڈر بیسڈ کورٹس قائم ہیں لیکن نتائج صفر ہیں، جینڈر بیسڈ کورٹس موجود ہیں، قوانین بھی بن چکے، پھر بھی کنوکشن ریٹ انتہائی کم ہے ۔
ثمینہ زہری کی زیر صدارت سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا ۔ 70 فیصد جینڈر بیسڈ وائلنس کیسز رپورٹ نہ ہونے کا انکشاف شیری رحمان کی جانب سے کیا گیا، انہوں نے بتایا کہ ملک میں جینڈر بیسڈ وائلنس کی صرف 5 فیصد کنوکشن ریٹ ہے، چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے اعداد و شمار کے پانچ فیصد کنوکشن ریٹ شرمناک ہے۔
کاغان کے بازار میں آگ بھڑک اٹھی،50 کمروں پر مشتمل ہوٹل جل کر راکھ
شیری رحمان نے بتایا کہ رپورٹ تک پہنچنے میں خواتین کو شدید دباؤ اور رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے، متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین کو رپورٹ درج کرانے نہیں دیا جاتا۔ خواتین کیس درج کرائیں تو پوری پولیس اور جسٹس سسٹم کی کارروائی متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ ہونے کے باوجود سزا کیوں نہیں ہوتی؟ یہ اہم سوال ہے۔ پراسیکیوشن کمزور ہے، ٹریننگ نہ ہونے سے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں 480 جینڈر بیسڈ کورٹس قائم ہیں لیکن نتائج صفر ہیں، جینڈر بیسڈ کورٹس موجود ہیں، قوانین بھی بن چکے، پھر بھی کنوکشن ریٹ انتہائی کم ہے ۔ریپ کیسز میں کنوکشن ریٹ 0.
نیپال کرکٹ لیگ میں سٹہ، 9 بھارتی جواری گرفتار
شیری رحمان نے کہا کہ پورے ملک میں 64 فیصد کیسز میں ملزمان بری ہو جاتے ہیں، میرے سامنے پنجاب میں ملزمان کو ڈھول بجا کر ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، ایسے ماحول میں پولیس کیا شواہد دے گی اور عدالت کیسے سزا دے گی؟ ۔ انہوں نے کہا کہ ججز کی ٹریننگز ہو رہی ہیں لیکن نتائج سامنے نہیں آ رہے۔ جینڈر بیسڈ وائلنس کیسز میں ہائی کورٹس میں کچھ بہتری نظر آتی ہے۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: جینڈر بیسڈ کورٹس ہیں لیکن نتائج کنوکشن ریٹ نے کہا کہ انہوں نے کیسز میں ملک میں
پڑھیں:
یہ دعائیں یا بد دعائیں ؟
کچھ دعائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو بظاہر تو بددعائیں لگتی ہیں لیکن اصل میں دعائیں ہوتی ہیں یا بن جاتی ہیں۔جب افغان مہاجر یہاں آئے تھے بلکہ تشریف لائے تھے اور پھر جب ان کی تعداد میں بہت زیادہ برکت ہوگئی تو ہم اکثر تنگ آکر ان کو دعائیں دیتے تھے کہ خدا تم سب کو وہاں ’’بادشاہ‘‘ بنائے لیکن ہم غریبوں کی جان چھوڑ دو۔ہمارے محلے میں ایک خالہ’’دعاجان‘‘ رہتی تھی، نام تو اس کا بخت آور تھا لیکن اپنی مخصوص دعا کے باعث خالہ دعاجان مشہور ہوگئی تھی۔
وہ کسی بچے کو دیکھتی تھی تو کہتی ،کتنا اچھا بچہ ہے، خدا اس کی عمر دراز کرے۔ میرے جیسے کسی حضرت اللہ،نعمت اللہ،رحمت اللہ اور برکت اللہ کے کسی بچے کی عیادت کو جاتی تو اس کی ماں سے کہتی خدا کچھ نہ کرے اسے۔ کوئی بچہ اس کا کچھ کام کردیتا تو کہتی کہ خدا تجھے بڑا کرے، مطلب یہ کہ دعائیں طرح طرح کی ہوتی ہیں ۔ ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی آدھے گھنٹے کی وہ دعا تو آپ کو یاد ہوگی جو ہر روز کی جاتی تھی بلکہ شاید اب بھی نشر ہوتی ہو اور اس میں خدا سے ہر وہ کام کرانے کے لیے کہا جاتا تھا جو اس دنیا اور اگلی دنیا دونوں میں ممکن ہوسکتا تھا۔
لیکن آج ہم آپ کو دو ایسی دعاوں کے بارے میں بتائیں گے جو معاشرے میں عام اور ہر جگہ کثیرالاستعمال ہیں۔ ان دونوں کے بارے میں سننے والا فیصلہ نہیں کرپاتا کہ یہ دعا ہے یا بد دعا۔اور ان دونوں دعاوں یا بددعاوں کا تعلق پاکستان سے ہے اور خاص طور پر آج کل کے حالات سے بہت گہرا تعلق ہے یا پاکستان کو لگ چکی ہیں۔ان میں ایک دعا یا بددعا تو ایسے وقت دی جاتی جب کسی پر کوئی بڑی مصیبت آپڑی ہو۔ دردناک موت ہوئی ہو ،گہرا صدمہ پہنچا ہو تو عذرخواہی کے لیے جانے والے دعائے مغفرت کے بعد اہل خانہ سے کہتا ہے کہ ’’خدا تجھے کبھی یہ غم نہ بھلائے‘‘ یعنی تم یہ غم کبھی نہ بھولو۔ یہ صوفی تبسم کے شعر سے ملتی جلتی دعا ہے۔
اللہ کرے دنیا کو میری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کرسکو
بات ہی عجیب ہے۔ لوگ تو غمزدوں کو غم بھولنے کے لیے کہتے ہیں اور وہ بھی بھولنے کی کوشش کرتا ہے۔اور یہاں حضرت کہہ رہے ہیں کہ خدا کرے تم یہ غم کبھی نہ بھولو۔یہ زخم ہمیشہ ہرا رہے۔ یہ تو بددعا لگتی ہے لیکن اصل میں دعا ہے کہ تم پر اور کوئی ایسا غم نہ آئے جو اس سے بڑا ہو اور یہی غم آخری رہے کیونکہ ہمیشہ تازہ غم پرانے کو اور بڑا غم چھوٹے کو بھلا دیتا ہے۔ بڑی اچھی دعا ہے کہ اگر کسی نے ’’قائد عوام‘‘ اور مردحق ضیاالحق کے صدمات پر پاکستانیوں کو یہ دعا دی ہوتی تو آج ہمیں ان سے بھی بڑے صدمے عرف ’’بانی‘‘ عرف تبدیلی سے دوچار نہ ہونا پڑتا ۔ چلو! اگر اب ہی کوئی خدا کا نیک بندہ ہمیں یہ دعا دے ڈالے، تو کچھ زیادہ بگڑا نہیں ہے۔
دوسری دعا یا بددعا یہ ہے کہ ’’خدا تیرے گھر زیادہ’’بڑے‘‘ پیدا نہ کرے‘‘ یہ کیا بات ہوئی، لوگ تو دعائیں مانگتے ہیں کہ ہمارے گھر کے لوگ بڑے آدمی بن جائیں۔ بچوں کو بھی دعا دیتے ہیں کہ خدا تمہیں بڑا آدمی بنائے، بچے بھی اکثر کہتے ہیں، پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنوں، میں بڑا ہوکر چیف منسٹر بنوں گا اور یہاں یہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ تمہارے گھر کبھی بڑے نہ بڑھیں۔اور ہم سامنے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں آج ہر طرف، ہر جگہ ، ہرکوئی بڑا بن چکا ہے، چھوٹے تو جیسے پیدا ہونا بند ہوگئے ہوں۔ ہمیں لگتا ہے کہ کسی نے یا ہمارے خفیہ دشمن نے ہمیں چوری چھپے یہ بددعا دی ہوگی کہ اس گھر میں بڑے ہی بڑے پیدا ہوں اور وہ دعا قبول ہوئی ہوگی کہ ہر سیاسی قائد کے بعد اس کا بیٹا یا بیٹی سامنے آگئے کیونکہ اب یہی اس گھر کے بڑے ہیں۔
دعاؤں، بد دعاؤں کے سلسلے میں ایک اور بات بھی اہم ہے۔ اگر کسی کی کھوپڑی خالی ہو تو اس کی دعا قبول ہو کر بد دعا بن جاتی ہے۔ایک مشہور حکایت ہے کہ ایک گھرانے میں تین لوگ تھے۔ ماں، باپ اور ان کی ایک بیٹی۔انتہا کی غریب اور بری حالت میں تھے۔ بھیک مانگ کر ایک جھونپڑی میں پڑے رہتے تھے اور ہر وقت خدا سے اپنی حالت بہتر کرنے کی دعائیں کرتے تھے۔ آخر ان کی دعائیں کام کرگئیں۔ ایک فرشتہ ان کے سامنے حاضر ہوکر بولا،کہ تمہاری ایک ایک خواہش پوری ہونے کی منظوری ہوئی ہے، مانگو۔ جو کچھ مانگوگے قبول ہوگا لیکن صرف ایک فرد ایک سوال۔اس پر بیٹی نے بے صبری ہوکر مانگا کہ میں دنیا کی حسین ترین لڑکی بن جاؤں۔
دعا قبول ہوئی اور لڑکی آفتاب چند مہتاب بن گئی،اتفاق سے اس وقت ایک شہزادہ راستے سے گزر رہا تھا۔ اس نے دیکھا تو اس پر لٹو ہوگیا اور اسے اپنے پیچھے گھوڑے پر بٹھا کر لے گیا۔بیٹی نے ماں باپ کی طرف پلٹ کر دیکھا تک نہیں، چند روز گزرے تو ماں باپ نے بیٹی سے ملنا چاہا لیکن اس نے پہچاننے سے بھی انکار کردیا اور ملازموں سے دھکے دلواکر بھگایا۔ اس پر باپ کو غصہ آیا ، اس نے اپنے حصے کی خواہش کی کہ کم ظرف لڑکی بندریا بن جائے اور وہ بن گئی۔ شہزادے نے اس کو محل سے بھگادیا اور وہ ماں کے جھونپڑے میں روتے ہوئے لوٹ کر آگئی۔ ماں سے اس کا دکھ دیکھا نہ گیا۔
اس نے اپنے حصے کی دعا کی کہ اسے پہلے جیسی کردے ۔ یوں تینوں کارتوس چل گئے لیکن گھر کی حالت وہی رہی۔ اس طرح ایک اور نوجوان بھی دعائیں مانگتا تھا۔ اسے ایک صرف ایک دعا قبول ہونے کا مژدہ ملا۔ نوجوان پریشان ہوگیا، وہ انتہائی مفلس بھی تھا، شادی بھی کرنا چاہتا تھا اور اپنی قریب المرگ ماں کو صحت یاب بھی کرنا چاہتا تھا لیکن کھوپڑی خالی نہیں تھی۔ سوچ بچار کے بعد اس نے کہا، میں چاہتا ہوں کہ میری ماںاپنے پوتے کو سونے کے پیالے میں تین سونے کے چمچے سے کھلائے۔