Express News:
2025-11-27@15:38:22 GMT

حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور بڑی شرط پوری کردی

اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT

اسلام آباد:

وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)کی ایک اور بڑی شرط پوری کردی ہے، اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران کے اثاثہ جات ظاہر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 237 کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے شیئرنگ آف ڈیکلیریشن آف ایسیٹس آف سول سرونٹس رولز 2023 میں اہم ترامیم متعارف کرا دی ہیں۔

مذکورہ ترامیم اس سے قبل 7 اکتوبر 2025 کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن  1912(I)/2025 کے تحت شائع کی گئی تھیں جنہیں قانون کے مطابق عوامی رائے کے بعد حتمی شکل دی گئی ہے۔

ایف بی آر کےجاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق نئے قواعد میں متعدد تبدیلیاں کی گئی ہیں، سب سے اہم ترمیم یہ ہے کہ قواعد میں جہاں کہیں بھی لفظ سول  استعمال ہوا ہے وہاں پبلک کا لفظ شامل کر دیا گیا ہے اور ایک کی ذیلی شق (1) میں بھی یہی تبدیلی منظور کی گئی ہے۔

ایف بی آر کی جانب سے رول 2 میں ایک نئی شق(ii-a)  شامل کی  گئی ہے جس کے مطابق پبلک سرونٹ سے مراد وفاقی یا صوبائی حکومتوں، خود مختار اداروں، سرکاری کارپوریشنز یا حکومتی ملکیتی کمپنیوں کے ایسے افسران ہوں گے جن کا پے اسکیل 17 یا اس سے اوپر ہو اور اس تعریف میں وہ ملازمین بھی شامل ہوں گے جو سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے تحت آتے ہیں۔

اس شق میں ایسے افراد شامل نہیں ہوں گے جنہیں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 5 کے کلاز (n) کی ذیلی شق (iv) میں استثنیٰ دیا گیا ہے۔

ایف بی آر کے مطابق ان ترامیم کا مقصد قواعد کو زیادہ جامع اور ہم آہنگ بنانا ہے، تاکہ سرکاری و نیم سرکاری افسران کے اثاثوں کی معلومات کے تبادلے کا نظام مزید واضح، مؤثر اور شفاف بنایا جا سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایف بی آر کے مطابق

پڑھیں:

آئی ایم ایف کا پاکستان سے ٹیکس کے استعمال میں شفافیت بڑھانے کا مطالبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

آئی ایم ایف نے ایک بار پھر پاکستان کے مالیاتی نظام میں پائی جانے والی کمزوریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں کے غلط اور غیر شفاف استعمال کو روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے جاری ہونے والی گورننس اور بدعنوانی سے متعلق رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سنگل ٹریژری اکاؤنٹ (ٹی ایس اے) کے تحت مالی نظم و ضبط ناکافی ہے، جبکہ بجٹ کے نفاذ میں مسلسل کمزوریاں بڑے انتظامی اور گورننس مسائل کو جنم دے رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ 2 برس میں کچھ بہتری ضرور ہوئی ہے مگر بجٹ کی ساکھ اب بھی اتنی کمزور ہے کہ پالیسی کی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں کا عملی میدان میں مؤثر انعقاد ممکن نہیں ہو پاتا۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ سرکاری ترقیاتی منصوبوں میں بارہا سامنے آنے والی تاخیر، لاگت میں غیر معمولی اضافہ اور فنڈنگ کا تسلسل برقرار نہ رہنا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کا پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ ایک منظم اور مربوط نظام سے محروم ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف ترقیاتی رفتار کو متاثر کیا ہے بلکہ منصوبہ سازی اور فنڈنگ کے درمیان عدم مطابقت بڑھا دی ہے، جو بڑے پیمانے پر وسائل کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق سرکاری اخراجات کو شفاف اور جوابدہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ منصوبوں کے انتخاب، فنڈنگ کے بہاؤ اور عمل درآمد کے تمام مراحل میں سخت مانیٹرنگ کی جائے تاکہ عوامی سرمایہ کاری سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں 3 سے 6 ماہ کے اندر فوری اقدامات کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ایس اے فریم ورک کو جدید تقاضوں کے مطابق ازسرنو ترتیب دیا جائے ادارہ جاتی حدود واضح کی جائیں اور حکومتی نقدی کے بہاؤ کا ٹھوس انداز میں مؤثر کنٹرول قائم کیا جائے۔

رپورٹ کے مطابق فی الحال صورتحال اس قدر پیچیدہ ہے کہ نہ صرف ادارہ جاتی ذمہ داریاں مبہم ہیں بلکہ مختلف سرکاری ادارے بجٹ سے وسائل تو استعمال کرتے ہیں مگر روایتی احتسابی دائرے سے باہر ہونے کی وجہ سے ان کی سرگرمیوں پر مناسب نگرانی ممکن ہی نہیں ہو پاتی۔ یہ خلا ریاستی اداروں کو کمزور کرتا ہے اور بدعنوانی کے خطرات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔

علاوہ ازیں  آئی ایم ایف نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ پاکستان میں پارلیمانی نگرانی کمزور پڑ چکی ہے کیونکہ منظور شدہ بجٹ اور حقیقی سرکاری اخراجات کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جب پالیسی اور عمل درآمد کے درمیان فرق بڑھ جائے تو سرکاری اختیارات کے ذاتی یا سیاسی مفاد میں استعمال ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جو بدعنوانی کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مالیاتی گورننس کو بہتر بنانے، شفافیت بڑھانے، بدعنوانی کے خطرات کم کرنے اور عوام کے وسائل کے درست اور مؤثر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط اصلاحات نافذ کرے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ مالیاتی نظم و ضبط میں موجود کمزوریوں کو دور کرے، بجٹ کی شفافیت بہتر بنائے اور ایسے نظام کی تشکیل کرے جس میں سرکاری اداروں کے درمیان ذمہ داریاں واضح ہوں، احتساب یقینی ہو اور ٹیکس دہندگان کا پیسہ کسی بھی صورت ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہونے پائے۔

متعلقہ مضامین

  • IMF حکم،FBR افسران کے اثاثہ جات ڈیکلریشن کا نوٹیفکیشن جاری
  • آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پور ی ہو گئی، ایف بی آر نے نے گریڈ 17اور اس سے اوپر ک افسران کے اثاثہ جات ظاہر کرنے کا نو ٹی فیکیشن جاری کر دیا
  • وائٹ ہاوس پر فائرنگ، افغان طالبان رجیم پوری دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئی
  • وائٹ ہاؤس پر فائرنگ کا واقعہ؛ افغان طالبان رجیم  پوری دنیا کے امن کےلیے سنگین خطرہ
  • آئی ایم ایف کا پاکستان سے ٹیکس کے استعمال میں شفافیت بڑھانے کا مطالبہ
  • نائیجیریا میں طلبہ و اساتذہ کا اغوا؛ ملک میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی
  • وزارتِ ہاوسنگ نے سرکاری مکانات کی الاٹمنٹ سے متعلق قواعد میں اہم ترمیم کی منظوری دیدی
  • پانچ سال کی آئینی مدت پوری، گلگت بلتستان اسمبلی تحلیل
  • ’کھویا اور پالیا‘ : عاصم اظہر نے نئی ابلم ریلیز کردی، ہانیہ عامر کا کلپ بھی شامل