WE News:
2025-11-21@05:52:44 GMT

آزادی رائے کو بھونکنے دو

اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT

سلیم احمد نے 80 کی دہائی میں لکھا تھا: آزادی رائے کو بھونکنے دو۔

سوچتا ہوں سلیم احمد زندہ ہوتے اور آزادی رائے کے لچھن دیکھتے تو ان کا رد عمل کیا ہوتا۔  یقیناً وہ ہاتھ جوڑ دیتے اور  التجا کرتے: کوئی ہے جو اسے تھوڑی دیر چُپ کروا دے۔

خبر اب خبر نہیں رہی، یہ خواہش بن چکی ہے۔ تجزیہ اب عصبیت کا دیوان ہے۔ سر شام ٹاک شوز کا میلہ لگتا ہے پھر  کسی کی دستار سلامت نہیں رہتی۔ سطحی موضوعات اور پست انداز گفتگو۔ ہیجان اور ہذیان۔ گاہے پطرس بخاری کے مضامین یاد آ جاتے ہیں اور آدمی حیران ہوتا ہے کہ جنہیں کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے وہ بھی اب سینیئر تجزیہ کار کہلاتے ہیں۔

سماج میں صحت سے تعلیم تک کتنے ہی سنجیدہ موضوعات توجہ کے طالب ہیں لیکن میڈیا کے لیے صرف سیاست ہی حالات حاضرہ ہیں اور سیاست میں بھی اس کی چاند ماری کی کل استعداد صرف ’اِ س نے یہ کہا اور اُس نے وہ کہا‘ تک محدود ہے۔

الگوردم کے ڈنڈے سے ہانکے جانے والے سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ سنجیدہ اور تعمیری گفتگو کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اب صرف ویوز چاہییں۔ چنانچہ معتبر اخبارات کے سوشل میڈیا پیجز دیکھ لیے جائیں تو تھم نیل دیکھ کر کراہت آنے لگتی ہے۔ جھوٹ، مبالغے اور دھوکے پر مبنی ان تھم نیلز کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ بس کسی طرح لوگ خبر کو کلک کریں۔ چاہے اخبار کا عشروں کا اعتبار جاتا رہے اس کی اب کوئی پرواہ نہیں۔

پہلے پہل بد تمیزی کی گئی تب لوگ متوجہ ہوئے، پھر یہ معمول بن گیا۔ پھر لکھنے اور بولنے والوں نے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے مزید بد تمیزی کی،  گالم گلوچ شروع ہو گئی، منہ سے جھاگ اڑنے لگی، ہاتھا پائی ہونا شروع ہو گئی، جگت بازی علم و حکمت قرار پائی۔ دلاور اب وہ ہے جو اپنی اور دوسروں کی عزت سے یکساں بے نیاز ہو، جو اچھی ڈگڈگی بجا کر مجمع لگا لے۔ کوئی ہے جو سوچے کہ اس سلسلے کا انجام کیا ہو گا؟

 دیکھنے اور پڑھنے والے کو ہر دم ’مزید‘ چاہیے ہوتا ہے۔ مزید کے اس مطالبے میں صحافت کہاں تک گرے گی؟ گالیاں دے لیں، پگڑیاں اچھال لیں، مہمان لڑا لیے، اب ریٹنگ کے لیے کیا ناظرین سے یہ کہا جائے گا کہ پروگرام کے آخر میں محترم اینکر صاحب اپنے کیمرا مین کے ساتھ مل کر بیلے ڈانس کریں گے اس لیے ہمارے ساتھ رہیے گا۔

یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دہشتگردی ہو تو تجزیہ کار دہشتگردوں کی ٹائمنگ کی تعریف کرتے ہیں۔ یہاں سر شام اپنی ہی ریاست کو گالیاں بکی جاتی ہیں۔ یہاں صبح سے شام تک اپنے ہی ملک پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔ ہیجان اور نفرت اور گالم گلوچ حکمت عملی کے طور پر اختیار کر لیے گئے ہیں۔ یہی حالت رہی تو وہ وقت دور نہیں جب سماج شعوری طور پر طے کر لے کہ اس میڈیا کے ہوتے ہوئے ہیجان اور عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔ اور یہ وقت اب زیادہ دور نہیں۔

اس پر بے نیازی یہ کہ ناز و ادا سے ارشاد ہوتا ہے کہ ہم صحافیوں کو آئین اور قانون کے مطابق آزادی رائے دی جائے۔ انہیں شاید معلوم ہی نہیں کہ جس روز قانون کے مطابق آزادی رائے کی حدود طے ہو گئیں، اس دن آدھا میڈیا اڈیالہ جیل میں چکی پیس رہا ہو گا۔

مثال کے طور پر پیمرا ریگولیشنز 2012  کو دیکھ لیجیے، اس کے باب پنجم میں سیکشن 18میں ٹاک شوز کے کچھ معیارات دیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی روز پیمرا نے سچ مچ قانون کے مطابق ان معیارات کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہا تو ہمارے ٹاک شوز کا مستقبل کیا ہوگا جہاں معیار ہی ریٹنگ بن چکا ہے اور مہمانوں کو آپس میں لڑا کر میزبان سرخرو ہو جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ کسی دن پیمرا نے ’پیمرا کانٹینٹ ریگولیشنز 2012‘ کو ان کی روح کے مطابق نافذ کر دیا تو آزادی رائے کس دیوار سے سر پھوڑے گی؟

 یہاں آزادی صحافت کا مطلب یہ ہے کہ آدھی ادھوری ناقص اور جھوٹی خبر کی بنیاد پر حکومت کو  ذلیل کر دیا جائے اور اداروں کی کردار کشی کی جائے۔ ’قانون‘ کے تحت آزادی رائے مانگنے والے احباب کو شاید معلوم نہیں، اگر آپ اپنی تحریر یا تقریر سے حکومت کے بارے میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا حکومت کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے کے تحت آپ کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ تو کیا خیال ہے آزادی رائے کو ایک بار دفعہ 124 اے کے سارے ’حقوق‘  فراہم کر دیے جائیں۔

حریت فکر اور آزادی رائے کا پرچم  اب بعض مفرور اور نومولود چی گویروں کے ہاتھ میں ہے۔ جو ریاست کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو الگوردم اسے وائرل کر دیتا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ریاستی اداروں اور فوج کے خلاف انہیں قانون کے مطابق آزادی رائے کا حق حاصل ہے۔ انہیں شاید یاد نہیں رہا کہ تحریک انصاف کے جناب امجد علی خان نے ایک پرائیویٹ بل (کرمنل لا امنڈمنٹ بل) کے ذریعے اس قماش کی آزادی رائے کے لیے 2 سال قید اور 5 لاکھ جرمانے کی سزا تجویز کی تھی، تو اگر  ان سب پر تعزیرات پاکستان کی اسی مجوزہ دفعہ 500 اے کا اطلاق  ہو گیا تو آزادی صحافت کا نیکسٹ سٹاپ اڈیالہ بھی ہو سکتا ہے۔

ہمارے ہاں آزادی صحافت کے حوالے سے آئین پاکستان  کے آرٹیکل 19 کی بہت بات کی جاتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 19 جہاں آزادی رائے کا حق دیتا ہے وہیں وہ کچھ پابندیوں کی بھی بات کرتا ہے۔ یہ پابندیاں جس روز نافذ ہو گئیں، آزادی رائے کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔

کوئی ریاست اس طرح کی آزادی رائے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: قانون کے مطابق رائے کے ہوتا ہے کے لیے

پڑھیں:

صوبے بنانے کے قانون میں بھی آئینی ترمیم ہو سکتی ہے، مصطفیٰ کمال  

کراچی(آئی این پی ) ایم کیو ایم پاکستان کے  رہنما اور  وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے کہا ہے کہ صوبے بنانے کے قانون میں بھی آئینی ترمیم ہوسکتی ہے،ہ پیپلز پارٹی کہتی تھی زرعی ٹیکس نہیں لگنا چاہیے، آئی ایم ایف نے کان پکڑ کر زرعی ٹیکس لگانے کا کہا تو زرداری صاحب نے اس کا اعلان کیا۔ایک انٹرویو میں  مصطفی کمال نے کہا کہ اس سال سندھ کو  این ایف سی ایوارڈ کے 2400 ارب روپے ملے ہیں جس میں سے کراچی کو  800  ارب روپے ملنے چاہیے تھے مگر 100 ارب بھی نہیں ملے،  وفاق کہتا ہے سارے پیسے وزیراعلی کو دے دئیے، جائیں وزیراعلی سے لیں۔ا نہوں نے کہا کہ کیا پیپلز پارٹی کہتی تھی زرعی ٹیکس نہیں لگنا چاہیے، آئی ایم ایف نیکان پکڑ کر زرعی ٹیکس لگانے کاکہا تو زرداری صاحب نے پھر  اعلان کیا۔ مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ صوبے بنانے کے قانون میں آئینی ترمیم  بالکل ہوسکتی ہے اور نئے صوبے کی بات اس وقت کرتے ہیں جب ہمیں حقوق نہیں دیتے۔

متعلقہ مضامین

  • ججز کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں، غلط تاثر پھیلایا جا رہا ہے: وزیرِ قانون
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے انجینئر محمد علی مرزا سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے 4 دسمبر تک معطل کردی
  • عمران خان سے ملاقات: تین ججز کے حکم پر ایس ایچ او کہتا ہے میں نے آرڈر نہیں دیکھا، وزیراعلیٰ کے پی
  • عمران خان سے ملاقات، تین ججز کے حکم پر ایس ایچ او کہتا ہے میں نے آرڈر نہیں دیکھا، وزیراعلیٰ کے پی
  • پارلیمان کی ترمیم کو کسی عدالت کے سامنے چیلنج نہیں کیا جا سکتا: وزیر قانون
  • ریڑھی بانوں کے حقوق کی قانونی ضمانت: احساس ریڑھی بان روزگار تحفظ بل 2025 تیار
  • صوبے بنانے کے قانون میں بھی آئینی ترمیم ہو سکتی ہے، مصطفیٰ کمال  
  • جاپان : ریچھوں سے بچاؤ کے لیے بھونکنے والے ڈرون تعینات
  • جاپان میں بھالوؤں کو آبادی سے دور رکھنے کیلئے ’بھونکنے والے ڈرونز‘ تعینات