’’حکومت ناکام، عدلیہ پر سوالات‘‘ آئی ایم ایف رپورٹ عوام سے چھپائی گئی، شاہد خاقان
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)عوام پاکستان پارٹی کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومت گورننس اور کرپشن کنٹرول میں ناکام ہو چکی ہے، آئی ایم ایف رپورٹ میں عدلیہ پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ حکومت نے رپورٹ عوام سے چھپائی ہے۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں پارٹی رہنما مفتاح اسماعیل کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے کنوینر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال اور کرپشن کے حوالے سے آئی ایم ایف نے رپورٹ شائع کی ہے، جس میں ان باتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ملک کی معیشت پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔
ٹرائی سیریز:پاکستانی ٹیم میں اہم تبدیلیوں کے امکانات ،آج کون ہو گا ’’اِن ایکشن‘‘ ؟ جانیے
انہوں نے کہا کہ یہ انہی باتوں کا نچوڑ ہے جو ہم باتیں ہم کافی عرصے سے کر رہے ہیں ۔ آئی ایم ایف رپورٹ میں کوئی نئی باتیں نہیں تھیں۔ حکومت گورننس کو بہتر نہیں کر سکی نہ ہی کرپشن کو کنٹرول کر سکی ہے۔ آئی ایم کی رپورٹ میں عدلیہ پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کو ہمیں سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
شاہد خاقان عباسی نے سوال اٹھایا کہ حکومت نے کیوں عوام سے یہ رپورٹ چھپائی؟۔ یہ رپورٹ عوام کے سامنے پہلے ہی 6 ماہ بعد آئی ہے۔ ملک میں اس وقت بےروزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، جس کی شرح 7.
’’ اگر میری زندگی پر کبھی کوئی فلم بنی تو ‘‘۔۔۔دھرمیندر نے کس بھارتی اداکار کو اپنے جیسا کہا تھا ؟
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف رپورٹ صرف وفاقی حکومت کے حوالے سے ہے جب کہ صوبوں کی حکومت کو بھی شامل کریں گے تو کرپشن کی رقم بڑھ جائے گی۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ حکومت ان خرابیوں کو دور کرنے سے کیوں قاصر ہے؟۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ کرپشن پر کنٹرول نہیں کریں گے تو یہ معاملہ معیشت پر اثر انداز ہوگا۔ ریفارم نہیں کریں گے تو معیشت ترقی نہیں کرے گی۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف رپورٹ میں خاص طور پر رول آف لا کی بات کی گئی ہے۔ عدلیہ کی پرفامنس پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ہر حکومت وقت کے ساتھ ریفامز لے کر آتی ہے۔ آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ احتساب کا نظام ہی ناکام ہے۔ ملک کے معاملات میں سب کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان میں ڈائیلاگ کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے ۔ آپ ملک چلائیں گے یا احتساب کرتے رہیں گے؟۔
قطر اور پاکستان میں تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ کے شعبوں میں تعاون مزید مضبوط کرنے پر اتفاق
انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف سیاسی رہنما ہیں، ان کی مرضی ہے جو بات کریں ۔ جو پاکستان کے مفاد کی کی بات کرے گا ہم اس سے بات کریں گے۔ آئینی ترمیم میں پاکستان کے عوام یا ملک کا کوئی مفاد نہیں ہے۔ مجھے سارا پاکستان عزیز ہے۔ آئین کے لیے جو کام کرے گا ہم اس کے ساتھ ہیں ۔ ہمارا مقصد بالکل واضح ہے کہ ملک آئین کے بغیر نہیں چل سکتا۔
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف رپورٹ شاہد خاقان رپورٹ میں نے کہا کہ کریں گے نہیں کر
پڑھیں:
آئی ایم ایف رپورٹ یا چوروں کی چارج شیٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251125-03-5
(1)
جس طرح مچھروں کو پتا چل جاتا ہے کہ ہمیں کب نیند آرہی ہے اسی طرح آئی ایم ایف کو پتا چل جاتا ہے دنیا میں کہاں چوری ہورہی ہے اور کتنی ہورہی ہے کیونکہ وہ اس نظام کی خالق ہے جو خود چوری کو فروغ دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کا کام ہے مسائل کو برقرار رکھنے کے لیے مسائل کی نشاندہی کرنا۔ چوری ڈھونڈ کر اس کو چور نظروں سے دیکھنا اور پھر چوروں جیسے حل پیش کرنے کے فن کار آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کہلاتے ہیں۔ چوری کو پہلے دیانت داری سے چوری کہا جاتا تھا پھر چوری کرنے والے زور آور ہوئے تو رشوت کہی جانے لگی۔ رشوت میں سیاست آئی تو بدعنوانی اور جب آئی ایم ایف آئی تو چوری کو رکھنے اور چلانے کے لیے دھیمے سے کرپشن کہا جانے لگا تاکہ ضمیر باضمیر رہے اور اسے چوری کی گراں باری زیادہ اذیت نہ دے۔
دنیا کو پتا ہے کہ کمینوں کو منہ نہیں لگانا چاہیے پھر بھی 19 نومبر 2025 کو آئی ایم ایف نے چوروں اور راشیوں کے بارے میں تحقیق اور تفتیش کرنے کے بعد پاکستان کے معاشی اور حکومتی ڈھانچے کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے IMF Governance & Corruption Diagnostic Assessment-Pakistan کے نام سے ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی پیداوار کا 5 سے 6 فی صد کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے جس کی روک تھام نہ کی گئی تو اس میں اضافہ یقینی ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ نے معیشت اور سوسائٹی کو یرغمال بنارکھا ہے۔ رپورٹ پانچ بڑے شعبوں میں کرپشن، خراب حکمرانی، سیاسی مداخلت اور اشرافیہ کے قبضے کے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے۔ پانچ بڑے شعبے ہیں: پہلا: مالیاتی نظم ونسق Fiscal Governance، دوسرا: مارکیٹ ریگو لیشن، تیسرا: مالیاتی سیکٹر (بینکنگ، نگرانی)، چوتھا: منی لانڈرنگ ؍ٹیررفنانسنگ، پانچواں: قانون کی حکمرانی، عدلیہ، احتساب کے ادارے۔
رپورٹ قرار دیتی ہے کہ پاکستان میں معیشت کا بہت بڑا حصہ حکومت اور ریاست کے ہاتھ میں ہے جہاں پیچیدہ قوانین، کمزور ادارے، تقسیم شدہ نگرانی، غیر موثر احتساب اور قانون کی محدودیت کی وجہ سے کرپشن بہت گہرے اور وسیع طور پر سرایت کرچکی ہے جس کی وجہ سے معاشی کارکردگی کمزور اور اصلاحات غیر موثر ثابت ہورہی ہیں۔ کرپشن پاکستان کی گورننس کا ایک مستقل اور کھا جانے والا روگ ہے جہاں سیاسی اور معاشی اشرافیہ اپنے فائدے کے لیے پالیسیاں بناتی ہے۔ ٹیکس سسٹم پیچیدہ اور غیر شفاف ہے جس کی وجہ سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب کم ہورہا ہے۔
ٹیکس آفیسر رشوت لیتے ہیں۔ سرکاری خریداری میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ سیاستدان وزراء اور سیکرٹری اپنے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ اربوں روپے ضائع ہوتے ہیں۔ طاقتور لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا کیونکہ بیوروکریسی خوفزدہ ہے۔ نکاح نامہ، ڈومیسائل، زمین کا ٹرانسفر، پو لیس، بلڈنگ پلان جیسے روزمرہ کے کاموں کے لیے بھی شہریوں کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ عام آدمی جب بھی ریاست کے کسی ادارے کے دروازے پر جاتا ہے تو اسے ایک پوشیدہ رقم کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے جسے قانون نہیں مانتا لیکن نظام لازماً تقاضا کرتا ہے جو سفارش، رشوت، چائے پانی یا کام کرنے کی وہ قیمت ہے جسے شہریوں کو لازماً ادا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ کا یہ حصہ سب سے دلچسپ اور ہمک ہمک کر پڑھنے والا ہے جس میں آئی ایم ایف کے مطابق جنوری 2023 سے دسمبر 2024 کے دوران نیب نے تقریباً 5.3 ٹریلین روپے کے اثاثوں کی بازیابی کی ہے۔ اس عظیم بازیابی کو آئی ایم ایف کرپشن کا ایک معمولی سا حصہ قراردے رہی ہے۔ پاکستان میں کتنی کرپشن ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ یہ بازیابی محض ایک جھلک ہے۔ کوئی معتبر پیمانہ نہیں جو ناپ کر بتاسکے پاکستان میں کتنی کرپشن ہے۔ پاکستانی اداروں میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ مکمل کرپشن کو پکڑ سکیں۔ اگر یہ حقیقت ہے اور یقینا ہے تو یہ بہت سنگین معاملہ ہے جس کا مطلب ہے ریاستی وسائل بڑے پیمانے پر غیر موثر استعمال یا غیرشفاف طور پر تقسیم ہورہے ہیں۔ اب آئیے ’’ہمک ہمک‘‘ پر وہ یہ ہے کہ جب نیب سے سوال کیا جاتا ہے کہ یہ بازیاب شدہ رقم کہاں ہے؟ تو وہ کہتی ہے ’’ہمارے پاس تو نہیں ہے‘‘ حکومت اور اس کے دیگر ادارے بھی ایسا ہی ارشاد فرمارہے ہیں۔ پھر کس سے فریاد کریں؟ کس سے منصفی چاہیں؟ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نیب کا دعویٰ ہی غلط ہے۔ نیب نے یہ رقم بازیاب نہیں کرائی ہے۔ زیادہ تر رقم ’’ریکوری آن پیپر‘‘ ہے۔ ریکوری کاغذی ہے یا تکنیکی۔ اصل میں کچھ نہیں۔ غالب نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
آئی ایم ایف کو بھی مزہ آگیا ہوگا کہ کن سے واسطہ پڑاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چوروں کا چوروں سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ چور، چوروں کو چارج شیٹ کررہے ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کہتی ہے ٹیکس کا نظام درست نہیں ہے۔ دوسری طرف ہر سال کہتی ہے ٹیکس میں اضافہ کرو۔ سال تو کجا ہر تین چار مہینے بعد نیا بجٹ آجاتا ہے۔ دولت مند کار ٹیلز، جاگیردار، بیوروکریسی، ریئل اسٹیٹ، شوگر مافیا، بڑے بڑے تاجر سب کے لیے ٹیکس چھوٹ، خصوصی زون، ایمنسٹی اسکیمیں لیکن غریبوں اور تنخواہ دار طبقے پر نئے نئے ٹیکس۔ اصول یہ ہے کہ ایک مرتبہ سوچ سمجھ کرٹیکس لگا دیا جائے پھر اسے چھیڑا نہ جائے۔ روز روز ٹیکس میں اضافے کو ظلم باور کیا جاتا ہے۔ اسلامی مالیات کو دیکھیے! آدمی عش عش کر اٹھتا ہے۔ 1500 سال سے زکواۃ کی شرح 2.5 فی صد ہے عشر 10 فی صد یا 5 فی صد اسے دنیا کی کوئی حکومت کم وبیش کرسکتی ہے اور نہ نجی طور پر ٹیمپرنگ کی جاسکتی ہے۔ اسلام ٹیکس کے نظام کو بے یقینی سے پاک رکھتا ہے۔ ہر سال یا پانچ چھے مہینے بعد کوئی نئی فائل، نئی لیوی نہ نیا بجٹ۔ ثمرات دیکھ لیجیے۔ لوگ کس طرح خوشی خوشی ادا کرتے ہیں۔
حالیہ رپورٹ میں توانائی کے بحران کا کہیں ذکر نہیں کیونکہ اس سے عالمی مالیاتی اداروں کے نسخوں اور فارمولوں کی ناکامی عیاں ہوجاتی ہے۔ 1994 کی توانائی پالیسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کو تیار کرکے دی تھی جس میں نجی بجلی گھر (IPP,s) بنانے کو نسخہ کیمیا ثابت کیا گیا تھا جس میں کمپنی بجلی بنائے یا نہ بنائے حکومت کو ڈالروں میں کیپیسٹی پیمنٹ اداکرنا لازم تھا۔ یہ بھی ان اداروں کی ڈکٹیٹڈ شرط تھی کہ گردشی قرضہ عوام پر منتقل کرو یعنی بجلی مہنگی کرو تاکہ پرائیوٹ کمپنیاں منافع کما سکیں۔ جس سے ایک ایسا نظام وجود میں آیا جس سے ریاست خسارے میں عوام برباد اور نجی کمپنیوں کی کمائی ڈالروں میں۔ کیپیسٹی پیمنٹ ختم کرنا کبھی آئی ایم ایف کی ترجیح کیوں نہیں رہی؟
یہ بھی حقیقت ہے، بڑی اور بنیادی حقیقت ہے کہ کرپشن صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام جہاں جہاں بھی جاتا ہے وہاں کرپشن صرف پیدا نہیں ہوئی بلکہ نظام کا حصہ بن جاتی ہے۔ مغربی مفکرین خود اسے Crony Capitalism یعنی اقرپا پرور سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں جس میں حکمران طبقہ، بیوروکریسی اور چند طاقتور سرمایہ دار مل کر منڈی، قوانین اور ریاستی وسائل کا رُخ اپنے مفاد میں موڑ لیتے ہیں۔ یہ نظام عام شہریوں کے لیے نہیں بلکہ دولت مندوں اور سرمایہ داروں کے لیے کام کرتا ہے۔ اس نظام میں کرپشن حادثاتی نہیں بلکہ نظام کے اندراس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ مخصوص افراد یا گروہ با آسانی فائدہ اٹھا سکیں۔ قانون، پالیسی اور اختیارات اس طرح تشکیل دیے گئے ہیں کہ کچھ لوگ لوٹ مار کرسکیں اور پکڑ میں بھی نہ آسکیں۔ (جاری ہے)