آئی ایم ایف رپورٹ یا چوروں کی چارج شیٹ
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251125-03-5
(1)
جس طرح مچھروں کو پتا چل جاتا ہے کہ ہمیں کب نیند آرہی ہے اسی طرح آئی ایم ایف کو پتا چل جاتا ہے دنیا میں کہاں چوری ہورہی ہے اور کتنی ہورہی ہے کیونکہ وہ اس نظام کی خالق ہے جو خود چوری کو فروغ دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کا کام ہے مسائل کو برقرار رکھنے کے لیے مسائل کی نشاندہی کرنا۔ چوری ڈھونڈ کر اس کو چور نظروں سے دیکھنا اور پھر چوروں جیسے حل پیش کرنے کے فن کار آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کہلاتے ہیں۔ چوری کو پہلے دیانت داری سے چوری کہا جاتا تھا پھر چوری کرنے والے زور آور ہوئے تو رشوت کہی جانے لگی۔ رشوت میں سیاست آئی تو بدعنوانی اور جب آئی ایم ایف آئی تو چوری کو رکھنے اور چلانے کے لیے دھیمے سے کرپشن کہا جانے لگا تاکہ ضمیر باضمیر رہے اور اسے چوری کی گراں باری زیادہ اذیت نہ دے۔
دنیا کو پتا ہے کہ کمینوں کو منہ نہیں لگانا چاہیے پھر بھی 19 نومبر 2025 کو آئی ایم ایف نے چوروں اور راشیوں کے بارے میں تحقیق اور تفتیش کرنے کے بعد پاکستان کے معاشی اور حکومتی ڈھانچے کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے IMF Governance & Corruption Diagnostic Assessment-Pakistan کے نام سے ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی پیداوار کا 5 سے 6 فی صد کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے جس کی روک تھام نہ کی گئی تو اس میں اضافہ یقینی ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ نے معیشت اور سوسائٹی کو یرغمال بنارکھا ہے۔ رپورٹ پانچ بڑے شعبوں میں کرپشن، خراب حکمرانی، سیاسی مداخلت اور اشرافیہ کے قبضے کے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے۔ پانچ بڑے شعبے ہیں: پہلا: مالیاتی نظم ونسق Fiscal Governance، دوسرا: مارکیٹ ریگو لیشن، تیسرا: مالیاتی سیکٹر (بینکنگ، نگرانی)، چوتھا: منی لانڈرنگ ؍ٹیررفنانسنگ، پانچواں: قانون کی حکمرانی، عدلیہ، احتساب کے ادارے۔
رپورٹ قرار دیتی ہے کہ پاکستان میں معیشت کا بہت بڑا حصہ حکومت اور ریاست کے ہاتھ میں ہے جہاں پیچیدہ قوانین، کمزور ادارے، تقسیم شدہ نگرانی، غیر موثر احتساب اور قانون کی محدودیت کی وجہ سے کرپشن بہت گہرے اور وسیع طور پر سرایت کرچکی ہے جس کی وجہ سے معاشی کارکردگی کمزور اور اصلاحات غیر موثر ثابت ہورہی ہیں۔ کرپشن پاکستان کی گورننس کا ایک مستقل اور کھا جانے والا روگ ہے جہاں سیاسی اور معاشی اشرافیہ اپنے فائدے کے لیے پالیسیاں بناتی ہے۔ ٹیکس سسٹم پیچیدہ اور غیر شفاف ہے جس کی وجہ سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب کم ہورہا ہے۔
ٹیکس آفیسر رشوت لیتے ہیں۔ سرکاری خریداری میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ سیاستدان وزراء اور سیکرٹری اپنے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ اربوں روپے ضائع ہوتے ہیں۔ طاقتور لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا کیونکہ بیوروکریسی خوفزدہ ہے۔ نکاح نامہ، ڈومیسائل، زمین کا ٹرانسفر، پو لیس، بلڈنگ پلان جیسے روزمرہ کے کاموں کے لیے بھی شہریوں کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ عام آدمی جب بھی ریاست کے کسی ادارے کے دروازے پر جاتا ہے تو اسے ایک پوشیدہ رقم کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے جسے قانون نہیں مانتا لیکن نظام لازماً تقاضا کرتا ہے جو سفارش، رشوت، چائے پانی یا کام کرنے کی وہ قیمت ہے جسے شہریوں کو لازماً ادا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ کا یہ حصہ سب سے دلچسپ اور ہمک ہمک کر پڑھنے والا ہے جس میں آئی ایم ایف کے مطابق جنوری 2023 سے دسمبر 2024 کے دوران نیب نے تقریباً 5.
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
آئی ایم ایف کو بھی مزہ آگیا ہوگا کہ کن سے واسطہ پڑاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چوروں کا چوروں سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ چور، چوروں کو چارج شیٹ کررہے ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کہتی ہے ٹیکس کا نظام درست نہیں ہے۔ دوسری طرف ہر سال کہتی ہے ٹیکس میں اضافہ کرو۔ سال تو کجا ہر تین چار مہینے بعد نیا بجٹ آجاتا ہے۔ دولت مند کار ٹیلز، جاگیردار، بیوروکریسی، ریئل اسٹیٹ، شوگر مافیا، بڑے بڑے تاجر سب کے لیے ٹیکس چھوٹ، خصوصی زون، ایمنسٹی اسکیمیں لیکن غریبوں اور تنخواہ دار طبقے پر نئے نئے ٹیکس۔ اصول یہ ہے کہ ایک مرتبہ سوچ سمجھ کرٹیکس لگا دیا جائے پھر اسے چھیڑا نہ جائے۔ روز روز ٹیکس میں اضافے کو ظلم باور کیا جاتا ہے۔ اسلامی مالیات کو دیکھیے! آدمی عش عش کر اٹھتا ہے۔ 1500 سال سے زکواۃ کی شرح 2.5 فی صد ہے عشر 10 فی صد یا 5 فی صد اسے دنیا کی کوئی حکومت کم وبیش کرسکتی ہے اور نہ نجی طور پر ٹیمپرنگ کی جاسکتی ہے۔ اسلام ٹیکس کے نظام کو بے یقینی سے پاک رکھتا ہے۔ ہر سال یا پانچ چھے مہینے بعد کوئی نئی فائل، نئی لیوی نہ نیا بجٹ۔ ثمرات دیکھ لیجیے۔ لوگ کس طرح خوشی خوشی ادا کرتے ہیں۔
حالیہ رپورٹ میں توانائی کے بحران کا کہیں ذکر نہیں کیونکہ اس سے عالمی مالیاتی اداروں کے نسخوں اور فارمولوں کی ناکامی عیاں ہوجاتی ہے۔ 1994 کی توانائی پالیسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کو تیار کرکے دی تھی جس میں نجی بجلی گھر (IPP,s) بنانے کو نسخہ کیمیا ثابت کیا گیا تھا جس میں کمپنی بجلی بنائے یا نہ بنائے حکومت کو ڈالروں میں کیپیسٹی پیمنٹ اداکرنا لازم تھا۔ یہ بھی ان اداروں کی ڈکٹیٹڈ شرط تھی کہ گردشی قرضہ عوام پر منتقل کرو یعنی بجلی مہنگی کرو تاکہ پرائیوٹ کمپنیاں منافع کما سکیں۔ جس سے ایک ایسا نظام وجود میں آیا جس سے ریاست خسارے میں عوام برباد اور نجی کمپنیوں کی کمائی ڈالروں میں۔ کیپیسٹی پیمنٹ ختم کرنا کبھی آئی ایم ایف کی ترجیح کیوں نہیں رہی؟
یہ بھی حقیقت ہے، بڑی اور بنیادی حقیقت ہے کہ کرپشن صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام جہاں جہاں بھی جاتا ہے وہاں کرپشن صرف پیدا نہیں ہوئی بلکہ نظام کا حصہ بن جاتی ہے۔ مغربی مفکرین خود اسے Crony Capitalism یعنی اقرپا پرور سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں جس میں حکمران طبقہ، بیوروکریسی اور چند طاقتور سرمایہ دار مل کر منڈی، قوانین اور ریاستی وسائل کا رُخ اپنے مفاد میں موڑ لیتے ہیں۔ یہ نظام عام شہریوں کے لیے نہیں بلکہ دولت مندوں اور سرمایہ داروں کے لیے کام کرتا ہے۔ اس نظام میں کرپشن حادثاتی نہیں بلکہ نظام کے اندراس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ مخصوص افراد یا گروہ با آسانی فائدہ اٹھا سکیں۔ قانون، پالیسی اور اختیارات اس طرح تشکیل دیے گئے ہیں کہ کچھ لوگ لوٹ مار کرسکیں اور پکڑ میں بھی نہ آسکیں۔ (جاری ہے)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف یہ ہے کہ جاتا ہے ہے اور کے لیے ا جاتا
پڑھیں:
آئی ایم ایف رپورٹ: سرکاری ملکیتی ادارے کرپشن کی وجہ قرار، عدالتی اصلاحات پر زور
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی نئی ’گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ‘ میں پاکستان میں کرپشن کو گورننس سسٹم کی بنیادی خامی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سرکاری ملکیتی اداروں میں بدعنوانی، کمزور حکومتی کنٹرول اور غیر مؤثر عدالتی و احتسابی نظام ملک کی معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی عوام دوست عدالتی اصلاحات پر پیش رفت رپورٹ جاری
بنیادی طور پر کہا جائے تو آئی ایم ایف کی جاری کردہ رپورٹ کا خلاصہ یہی ہے کہ کرپشن پاکستان کے گورننس نظام کا بنیادی جزو ہے جبکہ کمزور عدالتی نظام میں احتساب کا عمل مکمل طور پر آزاد نہیں۔
رواں برس فروری میں آئی ایم وفد نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی اور اس کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے 2 ملاقاتیں کیں جن میں پاکستان کے عدالتی نظام پر بات چیت کی گئی۔
گزشتہ سے پیوستہ روز آئی ایم ایف کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے اور قانون کی حکمرانی پر انحصار اس وقت بہتر ہوگا جب پرانے اور فرسودہ قانونی ڈھانچے کو جدید بنایا جائے، مقدمات کے بیک لاگ کو ختم کیا جائے، عدالتوں کی کارکردگی کی عوامی نگرانی پر زیادہ توجہ دی جائے، اور اُن رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو عدالتی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں۔
مزید پڑھیے: ’ایلیٹ کیپچر‘ پاکستانی معیشت کو کھربوں روپوں کا نقصان پہنچا رہا ہے، آئی ایم ایف
رپورٹ میں بتایا گیا کہ عدالتی نظام پر اعتماد مضبوط کرنے کے لیے عدلیہ کے اداروں کی آزادی اور دیانت کو تقویت دینا ضروری ہے جس کے لیے ججز کی تقرری کے عمل، ملازمت کی شرائط اور نگرانی کے طریقہ کار میں بہتری لانا ہوگی۔
اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ کے اقدامات کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ اس وقت بہتر نتائج دیں گے جب بدعنوانی سے متعلق خطرات کو ترجیح دی جائے، جیسا کہ شناخت کردہ کمزوریوں کے مطابق وسائل کا تعین، بینیفیشل اونرشپ میں شفافیت کو بہتر بنانا، اداروں کے درمیان ہم آہنگی کو بڑھانا اور تفتیش و پیروی مقدمہ کی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا۔قانونی اصلاحات میں ان ابہامات کو دور کرنا چاہیے جو بغیر بنیادی جرم کی سزا کے منی لانڈرنگ کے مقدمات پر کارروائی میں رکاوٹ بنتے ہیں اور غیر ملکی اثاثوں کی واپسی کے لیے بین الاقوامی تعاون کو بہتر بنانا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمزور گورننس، کمزور حکومتی کنٹرول، فیصلہ سازی کی عدم صلاحیت کہ معیشت میں حکومت نے کب مداخلت کرنی ہے، پیچیدہ ٹیکس نظام، احتساب کا کمزور نظام جو مکمل طور پر آزاد نہیں یہ وہ رُکاوٹیں ہیں جو پاکستان کی سالانہ 5 سے 6.5 فیصد ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔
مزید پڑھیں: عدالتی اصلاحات کے ثمرات ، سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات میں نمایاں کمی
عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے گزشتہ سے پیوستہ روز پاکستان کے بارے میں گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ شائع کی جو پاکستان کی درخواست پر تیار کی گئی تھی۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ریاست کے زیر اثر معیشت میں مسلسل اور وسیع پیمانے پر کرپشن کے خطرات موجود ہیں جو پیچیدہ ریگولیٹری ڈھانچوں، کمزور ادارہ جاتی صلاحیتوں، بکھری ہوئی نگرانی، غیر مؤثر اور غیر مستقل احتساب اور کمزور قانون کی حکمرانی کے ساتھ کام کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ بار کی عدالتی اصلاحات کے لیے تجاویز کیا ہیں؟
آئی ایم ایف اِس سے قبل بھی سرکاری افسران و دیگر عہدیداران کے اثاثے جات پبلک کرنے کا مطالبہ کر چکا ہے اور اِس رپورٹ میں ایک بار پھر یہ کہا گیا ہے اثاثہ جات کے ڈکلیریشن سے کرپشن میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی ایم ایف چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی سپریم کورٹ عالمی مالیاتی ادارہ عدالتی اصلاحات