دنیا کی پہلی جین تھراپی سے نایاب مرض میں مبتلا تین سالہ بچے نے ڈاکٹروں کو حیران کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
لندن:
دنیا بھر کے طبی ماہرین اس وقت حیرت زدہ ہیں جب تین سالہ امریکی بچہ اولیور چو ایک انقلابی جین تھراپی حاصل کرنے والا دنیا کا پہلا مریض بن کر غیرمعمولی صحت یابی حاصل کر رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اولیور ایک نہایت نایاب موروثی بیماری ہنٹر سنڈروم (ایم پی ایس 2) کا شکار تھا جو جسم اور دماغ کو بتدریج متاثر کرتی ہے۔
اس مرض کے شدید ترین کیسز میں مریض عموماً 20 سال کی عمر سے قبل ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور اسے بعض ماہرین بچوں کی ڈیمینشیا سے بھی تشبیہ دیتے ہیں۔
جینیاتی نقص کی وجہ سے اولیور کا جسم وہ اہم انزائم تیار نہیں کر پا رہا تھا جو خلیوں کی صحت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
برطانیہ کے شہر مانچسٹر کے طبی ماہرین نے دنیا میں پہلی مرتبہ اس بیماری کی پیش رفت روکنے کے لیے جین تھراپی کے ذریعے اس کے خلیوں میں تبدیلی کی۔
رائل مانچسٹر چلڈرنز ہاسپٹل میں جاری اس تاریخی تجربے کی نگرانی پر مامور پروفیسر سائمن جونز نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ میں 20 سال سے اس لمحے کا انتظار کر رہا تھا کہ ہنٹر سنڈروم کا کوئی بچہ اتنی تیزی سے بہتر ہوتا دکھائی دے یہ ناقابلِ یقین ہے۔
اولیور اس تجرباتی علاج کے لیے منتخب ہونے والے دنیا کے صرف پانچ بچوں میں سے پہلا ہے۔
کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے اس بچے کے خاندان نے امید کے ساتھ اس انقلابی علاج پر بھروسہ کیا اور آج ایک سال بعد اولیور کی نشوونما تقریباً عام بچوں کی طرح دکھائی دے رہی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نتائج اسی رفتار سے برقرار رہے تو یہ علاج مستقبل میں ہنٹر سنڈروم سمیت متعدد موروثی بیماریوں کے علاج میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ٹائی ٹینک کے مسافر کی نایاب گھڑی ریکارڈ قیمت پر نیلام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیسویں صدی کی ایک عظیم تخلیق بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے سے ملنے والی ایک نایاب سنہری گھڑی تاریخ کی قیمتی ترین یادگار کے طور پر سامنے آگئی ہے، جو حالیہ نیلامی میں غیر معمولی رقم پر فروخت ہوکر عالمی توجہ کا مرکز بن گئی۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق 112 برس قبل بحرِ اوقیانوس کی منجمد تہہ میں اتر جانے والے بدنصیب ٹائی ٹینک کے ایک مسافر کی جیب میں موجود سونے کی نایاب گھڑی، ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد آج دنیا کی مہنگی ترین یادگار کے طور پر تاریخ رقم کر گئی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں منعقدہ ایک خصوصی نیلامی میں یہ 14 قیراط خالص سونے کی جیبی گھڑی غیر معمولی قیمت پر فروخت ہوئی۔ یہ گھڑی ٹائی ٹینک کے ممتاز اور صاحبِ ثروت مسافر ایسڈور اسٹراس کی ملکیت تھی—وہی اسٹراس جو باویریا میں پیدا ہوئے، آگے چل کر امریکہ کے نمایاں تاجر اور سیاست دان بنے، اور نیویارک کے معروف میسیز ڈیپارٹمنٹ اسٹور کے شریک مالک کی حیثیت سے شہرت پائی۔
ایسڈور اسٹراس اور ان کی اہلیہ آئڈا 14 اپریل 1912 کو ٹائی ٹینک کے بدقسمت سفر پر ساؤتھمپٹن سے نیویارک روانہ ہوئے تھے۔ قسمت نے انہیں واپسی کا موقع نہ دیا اور یہ پہلا سفر ہی ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔
نیلامی میں اس تاریخی گھڑی نے 3.61 ملین آسٹریلوی ڈالر کی حیران کن قیمت حاصل کی، یوں یہ ٹائی ٹینک سے وابستہ یادگاروں میں سب سے قیمتی حیثیت اختیار کر گئی۔
عالمی میڈیا کے مطابق اگرچہ اس سے قبل بھی ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کے بعد سمندر سے ملنے والی بے شمار اشیاء نیلام ہوتی رہی ہیں، مگر اس گھڑی کی قیمت نے تمام سابقہ تخمینوں اور توقعات کو پیچھے چھوڑ دیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس سے پہلے ٹائی ٹینک کی کسی بھی یادگار کی سب سے زیادہ قیمت ایک اور گھڑی کی فروخت نے قائم کی تھی—وہ گھڑی جہاز کے بہادر کپتان آرتھر راسٹران کی تھی، جنہوں نے سانحے کی رات 700 سے زائد مسافروں کو بچانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
کپتان راسٹران کی گھڑی 3.16 ملین آسٹریلوی ڈالر میں نیلام ہوئی تھی، مگر ایسڈور اسٹراس اور ان کی اہلیہ سے منسوب یہ سنہری گھڑی اس ریکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے ٹائی ٹینک کی سب سے مہنگی یادگار بن گئی ہے۔