شیخ حسینہ اور طاقت کا اژدھا
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251121-03-6
مطلق اور بے محابا طاقت کا شوق جنون میں ڈھل کر ایک ایسے پالتو اژدھے کی شکل اختیار کرتا ہے جو ایک روز پلٹ کر اپنے مالک ہی کو ہضم کرتا ہے۔ طاقت کے جنون میں طاقتور حماقتیں کرتا جاتا ہے۔ اس کے کان مخالف آوازوں کو سننے اور اس کی آنکھیں مخالفت میں بلند ہاتھوں کو دیکھنے کی روادار نہیں رہتیں۔ آئینہ خانے کے مکین کی طرح اسے چارں طرف اپنا ہی عکس نظر آتا ہے اور اس مسحور کن کیفیت میں وہ خالق کے قانون مکافات عمل کو یا مخلوق کے جذبات اور بگڑ جانے کی خو کو بھول بیٹھتا ہے۔ کچھ مخالف آوازوں کو جیلوں میں ڈال دیتا ہے کچھ ناپسندیدہ چہروں کو شہر خموشاں کا مکین بنا دیتا ہے۔ کچھ کے لب طاقت کی سوئی سے سی لیے جاتے ہیں اور باقی ماندہ زندہ لاشوں میں ڈھل کر رہ جاتے ہیں اور یوں آئینہ خانے کے مکین کو ہر طرف اپنا ہی عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس عالم ِ مستی میں ہونے والا ہر فیصلہ حماقت ثابت ہوتا ہے۔ بنگلا دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کا اقتدار بھی مطلق طاقت کے اژدھے نے چاٹ کھایا اور اب وہ بھارت میں اس عالم میں جلاوطنی کے دن گزار رہی ہیں کہ ملک کی ہوائیں اور فضائیں انہیں بلارہی ہیں نہ عوام ان کی آمد کی راہ تک رہے ہیں بلکہ ملک کی عدالتیں قانون اور انصاف ان کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہیں۔ ملک میں قتل وغارت کی بنا پر عدالت نے انہیں سزائے موت سنا دی ہے۔ شیخ حسینہ وطن سے بہت دور بھی نہیں بلکہ بنگلا دیش کے پہلو میں بھارت کے ایک مہمان خانے میں براجمان ہیں۔ ابھی مودی حکومت ایک اثاثہ سمجھ کر ان کی میزبانی کررہی ہے مگر وقت بدلتے دیر نہیں لگتی بنگلا دیش نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو حسینہ کی حوالگی کے ساتھ مشروط کیا تو یہی شیخ حسینہ بھارت کے لیے بوجھ بن جائیں گی۔
بھارت نے ستر سال قبل تبت کے لیڈر دلائی لامہ کو اپنے ہاں پناہ دے کر چین کے ساتھ مستقل مخاصمت کی بنیاد رکھی تھی۔ اب وہ شیخ حسینہ کی اسی انداز سے میزبانی پر مْصر رہا تو بنگلا دیش کے ساتھ اس کے تعلقات میں مستقل خرابی کا ایک خودکار نظام وجود میں آئے گا۔ بین الاقوامی اور بین الممالک تعلقات میں یوں بھی ایک وقت آتا ہے جب ملکوں کوافراد کے مقابلے میں ریاستی سطح کے تعلقات کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو عراق، لیبیا اور یاسر عرفات کی جلاوطن حکومت سمیت کئی ملکوں نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا مگر بعد میں وہ حالات کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرتے چلے گئے۔ یہی معاملہ بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان شیخ حسینہ کیس کا ہے۔ اس لیے اب پھانسی کا پھندہ جھول جھول کر شیخ حسینہ کا انتظار کرتا رہے گا۔ شیخ حسینہ کے مظالم کا تعلق دو ادوار سے تھا۔ اس کا نیا پہلو یہ تھا کہ وہ اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھی جانے والی ہر قوت کو مٹا ڈالنا چاہتی تھی۔ اپنی قریب ترین حریف خالدہ ضیاء کو وہ جیل میں ڈال کر بھول ہی گئی تھیں۔ خالدہ ضیاء جیل گئی تھیں تو صحت اور توانائی کی اچھی حالت میں تھیں منظر اور موسم بدلا اور جیل کا پھاٹک اور طاقت کی پہنائی زنجیریں ٹوٹ گئیں تو وہ نحیف ونزار ویل چیئر کے ساتھ لگ چکی تھیں۔
یہ تو موجودہ حریفوں سے ان کا انتقام تھا ماضی کے زخم مندل کرنے کے لیے انہوں نے معاشرے کو نئے زخم لگانا ضروری سمجھا اور مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کے حق میں بلند ہونے والی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے پھانسیوں کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ حالانکہ ان کے والد شیخ مجیب الرحمن ایک غیر تحریری معاہدے کے تحت ماضی کو دفن کرنے اور کسی سے انتقام نہ لینے کی یقین دہانی کر چکے تھے مگر شیخ حسینہ نے اپنے والد کی محبت سے سرشار ہو کر اپنے والد کے وعدوں کو ہی خلیج بنگال میں ڈبونے کا راستہ اختیار کیا۔ یوں اکہتر میں متحدہ پاکستان کی حمایت میں وزن ڈالنے والے جماعت اسلامی مسلم لیگ اور بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈروں کو پھانسیاں دے کر اپنی انا کی تسکین کا راستہ چن لیا گیا۔ جس سے بنگلا دیش میں حالات کے تالاب کا پانی مزید گدلا ہو کر رہ گیا۔ انہوں نے آخری وار کے طور پر اپوزیشن کی تمام آوازوں کو خاموش کرنے کے بعد انتخابات میں کامیابی کا سہرہ بھی اپنی جماعت عوامی لیگ کے سر سجالیا اور یوں وہ تاحیات حکمرانی کی راہوں پر تیزی سے بڑھتی چلی گئیں۔ وہ کسی وقت کی دیوار اور شاہراہ یا کسی گاڑی پر لکھی ہوئی یہ عبارت اور جملہ تو نہ پڑھ بھی سکیں کہ ’’تیز رفتاری باعث ہلاکت ہے‘‘ مگر عملی طور پر وہ اس حقیقت کا شکار ہوگئیں۔ انہوں نے بنگلا دیش کے عوام کی مزاحمانہ خْو بْو اور ماضی کو قطعی نظر انداز کیا۔ بنگال برصغیر کا وہی خطہ تھا جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف تاریخی اور یادگار مزاحمت کی۔ یہی وہ علاقہ تھا جس کی مٹی سے آل انڈیا مسلم لیگ کی صورت میں ایسی جماعت نے جنم لیا جو قائم تو ایک سماجی اور تاج برطانیہ کی وفادار کے طور پر ہوئی تھی مگر آگے چل کر اس نے بر صغیر کے وجود کے اندر سے ایک نیا وجود تراشنے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ وہ یہ بات بھول گئیں کہ جس بنگال نے مغربی پاکستان کے غلبے کو قبول نہ کر کے اندھے کنویں میں چھلانگ لگانا پسند کیا وہ آزادیوں کا مزہ چکھنے کے بعد بھارت کی بالادستی اور غلامی کیونکر قبول کر سکتا ہے؟
بنگلا دیش کے عوام کا جمہوری شعور بھی جنوبی ایشیا میں سب سے مضبوط رہا۔ جس دور میں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا ڈنکا بجتا تھا۔ انہی دنوں بنگلا دیش کے منظر پر جنرل حسین محمد ارشاد کی آمریت کا سورج بھی نصف النہار پر تھا۔ حسین محمد ارشاد باغیانہ مزاج کے حامل بنگالیوں پر تاحیات حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے۔ بنگلا دیش جاتیہ پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنا کر وہ اپنے تاحیات اقتدار کو سیاسی چھتری فراہم کرنے اور اس کے ذریعے پارلیمانی تحفظ دینے کا سامان کرچکے تھے۔ جب جمہوریت کے لیے بنگلا دیشی عوام کی طلب کا پیمانہ چھلک پڑا تو حسین محمد ارشاد جیل میں تھے اور ان کی سیاسی شناخت جاتیہ پارٹی تاش کے پتوں کی مانند بکھر چکی تھی۔ یوں وہ جنوبی ایشیا کے پہلے طاقتور آمر تھے جنہیں بنگلا دیش کے عوام کے جذبہ ٔ جمہوریت اور حریت نے قانون کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا۔ یہ اعزاز بھی بنگلا دیش کے عوام نے اپنے نام کیا اور جب مغربی پاکستان کے غلبے اور غلامی کے نام پر بنگلا دیشی عوام کو بھڑکانے اور اْکسانے والے شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ نے حسین محمد ارشاد بننا شروع کیا تو طاقت کے ٹائی ٹینک کے آگے طلبہ نے اپنی نقد جاں کا آئس برگ سجادیا۔ پھر وہی ہوا جو ایسے کھیل کا ابدی انجام ہوتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بنگلا دیش کے عوام ا وازوں کو کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
بنگلادیشی عدالت کی شیخ حسینہ کو سزائے موت؛ چین کا ردعمل سامنے آگیا
بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو ملکی عدالت نے سزائے موت سنا دی جس پر چین کا ردعمل بھی سامنے آگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بنگلادیش کی عدالت نے سابق وزیراعظم 78 سالہ شیخ حسینہ واجد کو وزیر داخلہ اسد الزماں سمیت سزائے موت سنادی۔
شیخ حسینہ واجد اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد انڈیا فرار ہوگئی تھیں اور تاحال بھارت میں ہی مقیم ہیں۔ سزائے موت سناتے وقت وہ عدالت میں موجود نہیں تھیں۔
چین کی وزارت خارجہ کی معمول کی پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے شیخ حسینہ واجد کی سزائے موت سے متعلق بھی سوال کیا۔
جس پر ترجمان چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو موت کی سزا سنانا بنگلا دیش کا اندرونی اور قانونی معاملہ ہے۔
چینی ترجمان نے شیخ حسینہ کی سزائے موت پر کوئی تفصیلی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک کے قانون اور عدالت کا احترام واجب ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ چین نے ہمیشہ بنگلادیش اور اس کے عوام کے ساتھ دوستی اور اچھے تعلقات استوار رکھے ہیں اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ بنگلا دیش مستقبل میں بھی متحد، مستحکم اور ترقی کرتا ملک رہے گا۔
سزائے موت سناتے وقت جج غلام مرتضیٰ نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو تین سنگین مقدمات میں مجرم قرار دیا۔
جن میں مظاہرین پر تشدد کی حوصلہ افزائی، ایسے احکامات دینا جو ان کی ہلاکتوں کا باعث بنے اور اس کے بعد ہونے والے وحشیانہ اقدامات کو روکنے میں ناکامی شامل ہیں۔
پہلے تو ٹریبونل نے شیخ حسینہ کے لیے عمر قید کی سزا پر غور کیا تھا تاہم عدالت نے تمام الزامات کا جائزہ لینے کے بعد سزائے موت دینے کا فیصلہ دیا۔
اس حوالے سے جج کا کہنا تھا کہ ہم نے ان (سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ) کے لیے صرف ایک سزا یعنی ’’موت‘‘ دینے کا انتخاب کیا ہے۔
شیخ حسینہ نے عدالتی فیصلے کو سیاسی، پہلے سے طے شدہ اور کینگرو کورٹ کا جبر قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ گزشتہ سال 5 اگست سے بھارت میں مقیم ہیں جب کہ ملک میں ان کے خلاف حکومت مخالف مظاہروں کو طاقت سے کچلنے اور قتل عام پر مقدمات چل رہے ہیں۔