data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے دلوں کی چار قسمیں بیان کی ہیں: 1۔قلب اجرد، یعنی صاف شفاف دل۔ یہ مومن کا دل ہوتا ہے، اس سے چراغ کی طرح روشنی پھوٹتی ہے۔ 2۔قلب اغلف، یعنی ڈھکا ہوا دل۔ یہ کافر کا دل ہوتا ہے۔ 3۔قلب منکوس، یعنی اوندھا دل۔ یہ منافق کا دل ہوتا ہے۔ وہ حق کو جان پہچان کر اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔ 4۔قلب مُصْفَح، یعنی مخلوط دل۔ اس میں ایمان اور نفاق دونوں پایا جاتا ہے۔ اس میں ایمان کی مثال اس پودے کی ہوتی ہے جو اچھے پانی سے سیراب ہوکر پروان چڑھتا ہے اور نفاق کی مثال اس زخم کی سی ہوتی ہے جس میں پیپ اور گندے خون کی وجہ سے تعفن پیدا ہوتا رہتا ہے (احمد)۔
بارگاہ الٰہی میں ’قلب سلیم‘ مطلوب ہے، یعنی وہ دل جو ہر طرح کی آلائشوں اور گندگیوں سے پاک ہو، جس میں کفر و شرک، نفاق، معصیت اور فسق و فجور کا شائبہ نہ ہو۔ روزِ قیامت ایسے ہی دل کی قدر ہوگی۔ اس دن نہ آل و اولاد کام آئیں گے اور نہ مال و دولت سے کچھ نفع پہنچے گا۔ اس دن صرف ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے یہاں باریابی ملے گی جو ’قلب سلیم‘ کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ قرآن مجید میں ہے:
’’اس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بہ جز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘ (الشعراء: 89)۔
ہم میں سے ہر ایک نے کبھی نہ کبھی اپنے گھر کی صفائی ضرور کی ہوگی۔ دوچار سال کے بعد گھر کے تمام سامان نکال کر صفائی کی جائے تو کیسا کوڑا کرکٹ نکلتا ہے؟ ردی کاغذ، خالی ڈبے، ٹوٹی چپلیں، پھٹے ہوئے جوتے، ٹوٹے ہوئے بلب کی کرچیاں، رسّی کے ٹکڑے، پلاسٹک اور شیشے کی شیشیاں۔ یہ سب چیزیں نکال دی جائیں تو گھر صاف ستھرا ہوجاتا ہے اور اسے دیکھ کر بڑی راحت، سکون اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔
اللہ کے رسولؐ نے دل کی پاکیزگی کو ایسی ہی صفائی سے تشبیہ دی ہے۔ ایک مجلس میں ایک شخص نے آپؐ سے دریافت کیا: سب سے اچھا انسان کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: کل مخموم القلب صدوق اللسان۔ خُمامۃ عربی زبان میں جھاڑو سے نکالے گئے کوڑا، مٹی، کنکر پتھر کو کہتے ہیں۔ گھر میں جھاڑو لگانے کے بعد جو کوڑا کرکٹ اکٹھا ہوتا ہے اسے خمامۃ البیت اور کنویں کی صفائی کرنے پر اس کے اندر سے جو کوڑا، کچڑا، کنکر، پتھر، لکڑی وغیرہ کے ٹکڑے نکلتے ہیں انھیں خُمَامۃ البئر کہا جاتا ہے۔ مخموم سے مراد وہ جگہ ہے جو ہر طرح کی گندگی سے پاک ہو۔ اس حدیث میں آگے ہے کہ صحابۂ کرام نے دریافت کیا: صدوق اللسان کا مطلب تو ہم جانتے ہیں، یعنی وہ شخص جو ہمیشہ سچ بولتا ہو۔ یہ مخموم القلب کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا:
اس سے مراد وہ متقی، پاکیزہ شخص ہے جس کے دل میں نہ گناہ ہو، نہ باغیانہ رویّہ، نہ کینہ کپٹ، نہ بغض وحسد (ابن ماجہ)۔
گناہ، باغیانہ رویہ، بدگمانی، کینہ، بغض، حسد وغیرہ کی وہی حیثیت ہے جو کنکر پتھر، کیچڑ، کیل، کانٹے وغیرہ کی ہوتی ہے۔ جس طرح یہ چیزیں فرش کو گندا کردیتی ہیں اسی طرح یہ رذائل اخلاق دل کو پراگندہ کرتے ہیں۔ جو شخص اپنے دل کو ان چیزوں سے پاک کرلے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بہترین انسان ہے۔
دل میں مختلف طرح کے امراض پیدا ہوتے ہیں اور اسے مختلف عوارض لاحق ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے دلوں کو ان امراض و عوارض سے بچانا ہے اور ان کی پاکیزگی اور طہارت قائم رکھنی ہے۔
مولانا رضی الاسلام ندوی
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مدار س دینیہ کے نصاب میں تبدیلی کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا‘راشد سومرو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( اسٹاف رپورٹر) جمعیت علمائے اسلام سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو نے کہا ہے کہ ملک میں نظریاتی، خاندانی اور تہذیبی بنیادوں پر حملے پہلے سے کہیں زیادہ شدت اختیار کر چکے ہیں۔ختم نبوتؐ کے قانون، اسلامی سزاوں، نصابِ تعلیم اور مدارس کے کردار کو متنازع بنانے کی عالمی کوششیں جاری ہیں، مگر مدارسِ دینیہ کا فیضان تا روزِ قیامت جاری رہے گا، ان کے نصاب کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دینی مدارس امت کی فکری، روحانی اور علمی چھائونیاں ہیں اور یہ ماضی کی طرح آج بھی تحفظِ دین کے قلعے ہیں۔وہ جمعیت علمااسلام مومن آباد ٹائون ضلع غربی کے زیراہتمام مرحوم رہنما حافظ حبیب الرحمٰن خاطرکی یاد میں منعقدہ عظیم الشان تعزیتی سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔27ویں آئینی ترمیم عجلت میں پاس کردی گئی لیکن 26 وین آئینی ترمیم پر عمل درآمد میں تاخیر اس بات کا ثبوت ہے کہ حکمران طبقے کی توجہ وطن عزیز کے نظریاتی سرحدات کے تحفظ سے ہٹ چکی ہے۔