کیا پاکستان ’لیو ان ریلیشن شپس‘ پُرتشدد جرائم کو بڑھاوا دے رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
پاکستان میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی نے نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی اپیل پر 7 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ اس نوٹ میں جسٹس علی باقر نے 3 رکنی بینچ کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ظاہر جعفر کو سنائی گئی سزائے موت قانون اور شواہد کے مطابق ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی لکھا کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان لیو اِن ریلیشن شپ نہ صرف معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی سراسر منافی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نور مقدم کیس: مجرم کی سزا موت برقرار، دوسرے کیس میں سزا عمر قید میں تبدیل
جسٹس علی باقر نجفی کے مطابق ’لیونگ (لیو اِن) ریلیشن شپ‘ کا تصور معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور نوجوان نسل کو نور مقدم قتل جیسے واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
اس اضافی نوٹ کے بعد ایک نیا سوال شدت سے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا واقعی لیو اِن ریلیشن شپ جرائم میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، یا پھر یہ ایک سماجی و اخلاقی رائے ہے جسے جرم کے ساتھ براہِ راست نہیں جوڑا جا سکتا؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ حافظ احسان احمد کھوکھر نے کہا کہ اس کیس میں جو جرم کیا گیا ہے، وہ اپنی جگہ ایک واضح اور مکمل جرم ہے، اور اسے قانون کے مطابق ہی دیکھا جانا چاہیے۔ کسی بھی طرح کی دوستی، رہائش، تعلق یا میل جول چاہے وہ اچھا سمجھا جائے یا برا جرم کی نوعیت کو کم نہیں کرتا اور نہ ہی ملزم کی ذمہ داری کم ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی اپیل مسترد، جسٹس باقر نجفی کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا
ان کا کہنا تھا کہ ہر فرد پر اخلاقی ذمہ داری ضرور ہوتی ہے کہ وہ ایسے حالات سے بچیں جو بگاڑ یا غلط راستے کی طرف لے جائیں، خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں جو اسلامی اصولوں کے مطابق چلتا ہو۔
حافظ احسان احمد کھوکھر نے مزید کہا کہ عدالت 2 افراد کے آپس کے تعلق یا پس منظر کا ذکر تو کر سکتی ہے، لیکن ایسے عوامل کو استعمال کر کے جرم کو ہلکا نہیں کیا جا سکتا۔ جرم کی ذمہ داری صرف اس عمل اور نیت سے پیدا ہوتی ہے جس کے ساتھ جرم کیا گیا ہو، کسی کے طرزِ زندگی یا ذاتی فیصلوں سے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی نوٹ، رائے یا مشاہدہ جو یہ تاثر دے کہ متاثرہ لڑکی کا تعلق جرم کی نوعیت پر اثر ڈالتا ہے، انتہائی احتیاط سے دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ نہ یہ جرم کی سنگینی کو کم کرتا ہے اور نہ ہی سزا کو بدل سکتا ہے۔
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی سماجی کارکن فرزانہ باری کا کا کہنا تھا کہ خواتین پر تشدد کا تعلق تعلقات کی نوعیت سے نہیں بلکہ اس ذہنیت سے ہے جس میں مرد خود کو عورت پر مکمل اختیار رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اسے اپنے تشدد پر جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں:نور مقدم قتل کیس میں کب کیا ہوا؟
سائیکولوجسٹ سحرش افتخار کہتی ہیں کہ انسانی رویے اور جرائم کے اسباب بہت پیچیدہ ہوتے ہیں اور انہیں صرف ذاتی تعلقات یا طرزِ زندگی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ نوجوانوں کے تعلقات کی نوعیت میں ثقافتی، سماجی اور نفسیاتی عوامل شامل ہوتے ہیں، اور ہر تعلق کو جرم کی طرف مائل کرنے والا نہیں سمجھا جا سکتا۔
سحرش افتخار کے مطابق معاشرتی اور اخلاقی تربیت اہم ہے، مگر قانونی اور نفسیاتی اعتبار سے یہ ضروری ہے کہ جرم کے ارتکاب کو سائیکولوجیکل اور قانونی بنیادوں پر سمجھا جائے۔
انہوں نے زور دیا کہ جرائم کے اسباب میں خاندانی ماحول، ذہنی صحت، سماجی دباؤ، اور فرد کی شخصی خصوصیات زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہیں، نہ کہ صرف کسی لیونگ ریلیشن شپ کا ہونا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے مقدمات میں یہ اہم ہے کہ معاشرہ اور میڈیا ذاتی تعلقات کو جرم کے مترادف نہ سمجھیں، کیونکہ اس سے نوجوانوں میں خوف، شرمندگی اور غیر ضروری دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ قانون کی ذمہ داری یہ ہے کہ جرم کو اس کی سنگینی کے مطابق دیکھا جائے، اور نفسیاتی پہلوؤں سے یہ سمجھا جائے کہ فرد نے کیوں ایسا عمل کیا، جبکہ کسی نجی تعلق کو جرم کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس علی باقر نجفی سحرش افتخار لیونگ ریلیشن شپ نور مقدم کیس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس علی باقر نجفی سحرش افتخار لیونگ ریلیشن شپ نور مقدم کیس جسٹس علی باقر نور مقدم قتل ریلیشن شپ باقر نجفی کی نوعیت کے مطابق سمجھا جا انہوں نے جا سکتا کیس میں کہا کہ جرم کی یہ بھی
پڑھیں:
شہریوں کا تحفظ پولیس کی اولین ترجیح ہے، آئی جی بلوچستان
اپنے بیان میں آئی جی بلوچستان محمد طاہر نے کہا کہ بلوچستان پولیس عوام کو پرامن اور جرائم سے پاک ماحول فراہم کرنے کیلیے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آئی جی پولیس بلوچستان محمد طاہر نے کہا کہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ پولیس کی اولین ترجیح ہے۔ اس مقصد کے تحت صوبے بھر میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف موثر اور منظم کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں صوبے کی تمام رینجز میں بلوچستان پولیس نے گزشتہ ہفتے دوران کارروائی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ٹارگٹڈ آپریشنز کیے گئے، جن میں مطلوب اور مفرور ملزمان، اشتہاریوں، موٹر سائیکل چور، منشیات فروشوں اور اسلحہ و ایمونیشن ذخیرہ کرنے والے عناصر کے خلاف کامیاب کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔ متعدد وارداتوں میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کارروائیوں کے دوران مختلف مقدمات میں نامزد افراد سمیت قتل اور اندھے قتل کے واقعات میں ملوث اہم ملزمان اور ان سے برآمد ہونے والے اسلحہ و دیگر ممنوعہ سامان کو بھی قبضے میں لے لیا گیا۔ آئی جی پولیس بلوچستان محمد طاہر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بلوچستان پولیس عوام کو پرامن اور جرائم سے پاک ماحول فراہم کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہی ہے اور یہ سلسلہ جرائم کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گا۔