ایک نئی تحقیق نے نوجوان نسل کو والدین کے لعن طعن سے بچالیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سڈنی :ایک تازہ ترین تحقیق نے عام تاثر کی نفی کی ہے کہ بچوں کا زیادہ اسکرین ٹائم صحت کے لیے نقصان دہ ہے، آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کے محققین نے 18 سال سے کم عمر تقریباً 1 لاکھ 33 ہزار بچوں اور نوجوانوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا، جس سے حیران کن نتائج سامنے آئے۔
تحقیق کے مطابق ہیلتھ ایپس، فٹنس ٹریکرز اور دیگر آن لائن پروگرامز بچوں اور نوجوانوں کی جسمانی صحت پر مثبت اثرات مرتب کر رہے ہیں، ڈیجیٹل ٹولز استعمال کرنے والے بچے روزانہ 10 سے 20 منٹ اضافی جسمانی سرگرمی کرتے ہیں جبکہ کچھ پروگرامز کے استعمال سے بچوں کی بیٹھنے کی عادت میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آئی اور وہ روزانہ اوسطاً 20 سے 25 منٹ کم بیٹھے۔
مزید یہ کہ تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ڈیجیٹل پروگرامز استعمال کرنے والے بچوں کی غذائی عادات میں بہتری آئی، خاص طور پر پھل، سبزیاں اور کم چکنائی والی غذائیں زیادہ استعمال کی گئیں، جس کے نتیجے میں جسمانی وزن اور چربی میں مستقل بہتری دیکھی گئی، البتہ نیند کے معیار پر ان پروگرامز کے کوئی خاص اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔
محققین نے کہا کہ یہ نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بچوں کے اسکرین ٹائم کو مکمل منفی نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ موزوں اور صحت مند ڈیجیٹل ٹولز بچوں کی جسمانی سرگرمی اور غذائی عادات میں بہتری کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
انہوں نے والدین اور اساتذہ کو مشورہ دیا کہ بچوں کو مثبت ڈیجیٹل پروگرامز کی طرف راغب کیا جائے تاکہ وہ صحت مند طرز زندگی اپنا سکیں۔
یہ تحقیق بچوں کی صحت اور ٹیکنالوجی کے تعلق پر نئے انداز میں روشنی ڈالتی ہے اور والدین کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ کس طرح اسکرین ٹائم کو فائدہ مند بنایا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بچوں کی
پڑھیں:
کراچی کا ٹریفک بے احتیاطی، بے حسی، بے بسی اور لاپروائی کی دردناک داستان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251124-03-5
اختر شیخ
پاکستان میں ٹریفک کا بگڑتا ہوا نظام ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ کسی بھی ریاست کا نظم و نسق عوامی تعاون کے بغیر موثر نہیں چل سکتا مگر ہمارے ہاں ٹریفک کے معاملے میں یہ تعاون نہایت کمزور ہے۔ قوانین موجود ہیں، ٹریفک پولیس بھی اپنے دائرۂ کار میں چالان اور جرمانے کرتی ہے، گو کے ان کی بھی بہت کمزوریاں ہیں، مگر مجموعی طور پر عوامی رویہ ایسا ہے کہ گویا قانون ان کے لیے بنا ہی نہ ہو۔ سڑکوں پر ایک عجیب سا ازدحام ہر ایک کی جلدی ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جنون اور نتیجہ یہ کہ قانون پر چلنے والا ہی اپنے آپ کو مشکل میں پاتا ہے۔ شاہراہوں پر غلط پارکنگ بنا ہیلمٹ موٹر سائیکل بغیر سیٹ بیلٹ گاڑیاں، اور دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال اتنا عام ہو چکا ہے کہ شاید اب کوئی اسے خلاف ورزی سمجھتا بھی نہیں۔ یہی رویے ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہیں اور ان حادثات کی قیمت جانوں کی صورت میں ادا ہوتی ہے۔ کتنی ہی مائیں آج بھی اپنے نوجوان بچوں کی اچانک موت کا دکھ اٹھائے بیٹھی ہیں، کتنے بچے کم عمری ہی میں اپنے والدین کو کھو کر زندگی بھر کے صدمے کا شکار ہو جاتے ہیں، اور بہت سے لوگ معذوری اور نفسیاتی تکالیف کے ساتھ عمر گزارتے ہیں۔ افسوس ہمیں متعلقہ اداروں کی کمزوری تو دکھائی دیتی ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان حادثات میں ہماری اپنی غلطیاں سب سے زیادہ شامل ہوتی ہیں۔
کراچی کی سڑکوں پر پیش آنے والے حادثات کی ایک بڑی وجہ ڈرائیورز کا وہ خطرناک رجحان ہے جس میں وہ بائیں جانب سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ہمارا نظام رائٹ ہینڈ ڈرائیونگ ہے۔ سامنے والی گاڑی اگر بائیں طرف مڑنے کا اشارہ بھی دے رہی ہو تب بھی پیچھے آنے والا نوجوان اسی طرف سے گھسنے کی کوشش کرتا ہے، اور یہی حرکت کئی جان لیوا حادثات کا سبب بنتی ہے۔ خصوصاً نوجوانوں میں یہ بے احتیاطی بہت زیادہ ہے جو نہ صرف قانون شکنی ہے بلکہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
رات کے اوقات میں یہ صورتحال مزید خطرناک ہو جاتی ہے۔ کراچی میں ستر فی صد موٹر سائیکلوں کی ہیڈ لائٹ تک صحیح کام نہیں کرتی۔ اندھیرے میں تیز رفتار بائیکیں، سڑکوں پر چلتے بزرگوں اور بچوں کی پروا کیے بغیر، نہ صرف حادثات کا باعث بنتی ہیں بلکہ خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں۔ مگر ایک اور لمحہ ٔ فکر یہ ہے کہ آج والدین خود اپنی اولاد کو حادثوں کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے بچوں کو جن کی عمر ابھی شناختی کارڈ کے قابل بھی نہیں نہ قوانین کا علم ہے، نہ سڑک کا شعور انہیں والدین باقاعدہ اپنی بائیکیں پکڑا دیتے ہیں۔ وہ بچے نہ رفتار سمجھتے ہیں نہ ٹریفک کا بہاؤ، اور والدین اسے معمول کی بات سمجھتے ہیں۔ جب حادثہ ہو جائے تو اپنی غلطی ماننے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں، مگر بعد میں یہی لوگ اپنے ہی رویے کے ذریعہ تربیت پانے والے بچوں کو روتے بھی ہیں۔ اولاد والدین کا سہارا ہوتی ہے اور اگر کسی مجبوری میں بچہ بائیک لے کر جا رہا ہو تو والدین کی ذمے داری ہے کہ کم از کم اسے سمجھا کر بھیجیں کہ مین شاہراہ پر نہ جائے، گھر کے قریب سے ضرورت کی چیز لے آئے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ کم عمر بچوں کو بائیک دینا دراصل اپنے آپ پر اور اپنی اولاد پر ظلم ہے۔
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی، سڑکوں کی خستہ حالی، قوانین سے لاعلمی اور روڈ سب سے زیادہ سیفٹی کی تعلیم کا فقدان یہ سب مسائل مل کر حادثات کو جنم دیتے ہیں۔ مگر ان سب سے بڑا مسئلہ ہمارا اجتماعی رویہ ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ ٹریفک حادثات قدرت کا نہیں بلکہ ہماری اپنی غلطیوں اور جلد بازی کا نتیجہ ہوتے ہیں تو بہت سے دکھ ٹل سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب، ادارے بھی اور عوام بھی اپنی ذمے داری محسوس کریں تاکہ ہماری سڑکیں بھی محفوظ ہوں اور ہماری زندگیاں بھی۔