پاکستان اور سعودی عرب کی مشترکہ فوجی مشق البتارٹو اختتام پذیر
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
سٹی 42: پاکستان اور سعودی عرب کی مشترکہ فوجی مشق البتارٹو 18 تا 26 نومبر 2025 اختتام پذیر ہوگئی ۔
ترجمان آئی ایس پی آر کے مطابق مشق البتار-ٹو کا اختتامی پروگرام تبوک، سعودی عرب میں منعقد کیا گیا تھا ۔ جی او سی اسپیشل سروسز گروپ نے بطور چیف گیسٹ شرکت کی ۔ سعودی عرب کے سینئر فوجی حکام نے بھی تقریب میں شرکت کی۔
پاکستان آرمی ایس ایس جی اور سعودی آرمی کے دستوں نے شرکت کی ۔ شرکا نے پیشہ ورانہ مہارت اور آپریشنل قابلیت کا اعلیٰ مظاہرہ کیا۔
لاہور فضائی آلودگی کے اعتبار سے پانچویں نمبر پرآگیا
مشق میں شہری علاقوں میں کارروائی، بم ناکارہ بنانے اور تاکتیکی ڈرلز پر خصوصی توجہ دی گئی ۔
آئی ایس پی ار نے بتایا کہ پاکستان اورسعودی عسکری تعاون کے تاریخی تعلقات مزید مضبوط ہونگے،تمام تربیتی اہداف کامیابی سے حاصل کر لیے گئے۔دونوں ممالک کا علاقائی امن و سلامتی کے لیے عزم کا اعادہ کیا گیا.
ذریعہ: City 42
پڑھیں:
اجتماع عام کا اختتام پر روڈ میپ کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251124-03-2
جماعت اسلامی کا لاہور کے تاریخی مینارِ پاکستان کے سائے تلے منعقد ہونے والا اجتماع ختم ہوگیا یہ محض ایک جلسہ نہیں تھا؛ یہ ایک فکری بیداری، نظریاتی استقامت اور اجتماعی شعور کا وہ عظیم مظہر تھا جس نے پاکستان کی سیاسی ماحول میں ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ ’’بدل دو نظام‘‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا یہ روڈ میپ اس حقیقت کو مزید نمایاں کرتا ہے کہ قوم اب روایتی سیاست، موروثی قیادت اور استحصالی نظام سے تنگ آچکی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ طویل عرصے سے اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کرتا رہا ہے کہ قوموں کی تباہی کی جڑ صرف معاشی بدحالی یا انتظامی بے ترتیبی نہیں، بلکہ اخلاقی طور پر کھوکھلی، مفاد پرست اور کرپٹ قیادت ہوتی ہے۔ جب قیادت کا تعین کردار کے بجائے تعلقات، اصولوں کے بجائے مفادات اور اہلیت کے بجائے نسب کے ذریعے ہونے لگے تو ریاست کے تمام ستون آہستہ آہستہ کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔ اسی پس منظر میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی آواز ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح محسوس ہوئی۔ اْنہوں نے ’’بدل دو نظام‘‘ کا ایسا جامع اور مربوط لائحۂ عمل پیش کیا جس نے نہ صرف سیاسی ٹھیراؤ کو چیلنج کیا بلکہ قوم کے اندر امید کی نئی کرن روشن کی۔ مینارِ پاکستان کے وسیع میدان لاکھوں افراد سے اس قدر بھر گئے کہ فضا خود گواہی دینے لگی کہ عوام اس فرسودہ، طبقاتی اور استحصالی نظام سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ اجتماع کا جوش و خروش اس بات کا ثبوت تھا کہ لوگ اب محض باتیں نہیں چاہتے بلکہ ایک واضح سمت، ایک مضبوط نظریہ اور اس پر عملدرآمد کا عملی منصوبہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ شہر کے گرد و نواح سے لے کر بادشاہی مسجد تک، ہر جانب پھیلتے ہوئے انسانی سمندر نے یہ ثابت کیا کہ قوم اب کسی عارضی تبدیلی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر انقلاب کی طلب گار ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کی تقریر نے اس اجتماع کو فکری طور پر نئی جہت عطا کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا اصل نظریہ اللہ کی حاکمیت اور انسان کی نیابت پر مبنی ہے۔ جب اسلام میں فاطمہ بنتِ محمدؐ جیسی مقدس ہستی کو بھی قانون میں کوئی استثنا حاصل نہیں، تو پھر ملک کا کوئی صدر، وزیر اعظم، آرمی چیف یا بااختیار شخصیت قانون سے بالاتر کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ سوال محض ایک جملہ نہیں بلکہ پوری سیاسی تہذیب کے لیے آئینہ ہے۔ آج کا حکمران طبقہ امریکی مفادات کی تکمیل کو قومی مفاد پر ترجیح دیتا ہے۔ 27 ویں ترمیم جیسے فیصلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلے اسلام کے مطابق نہیں بلکہ مراعات یافتہ طبقوں اور بیرونی طاقتوں کی خواہشات کے تحت کیے جاتے ہیں۔ مینارِ پاکستان کا یہ اجتماع اس غلامانہ ذہنیت کے خلاف اجتماعی اعلانِ بغاوت تھا۔ اس اجتماع کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ حافظ نعیم نے تبدیلی کا صرف نعرہ نہیں لگایا بلکہ تبدیلی کا عملی روڈمیپ بھی دیا۔ اْنہوں نے جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی اور کارپوریٹ مافیا کے کردار کو بے نقاب کیا۔ وہ مافیا جو کبھی زمینوں کا مالک تھا اور اب آٹا، چینی، تیل اور زرعی اجناس پر قبضہ کر کے قوم کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ روڈمیپ میں واضح کیا گیا کہ کسان کو اْس کی محنت کا پورا حصہ دینا ہوگا، زرعی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا، اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یقینی بنائی جائے گی۔ آرٹیکل 140-A کا مکمل نفاذ دراصل حقیقی جمہوریت کی پہلی شرط ہے، جبکہ پنجاب کا موجودہ بلدیاتی ایکٹ عوامی نہیں بلکہ سیاسی قبضے کا نمونہ ہے۔ اسی طرح یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے حافظ نعیم نے دو ٹوک موقف اپنایا۔ 2 کروڑ 62 لاکھ بچوں کا اسکول سے باہر ہونا صرف حکومتی ناکامی نہیں، بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔ سرکاری اسکولوں کی بحالی، نجی اجارہ داری کے خاتمے اور معیاری مفت تعلیم تک رسائی کو اْنہوں نے قومی ترجیحات میں شامل کیا۔ یہ وہ نکات ہیں جن پر آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے اتنی صراحت اور جرأت کے ساتھ بات نہیں کی۔ روڈ میپ میں پسماندہ طبقات کی بحالی، خواتین کے حقوق، مزدور کی حفاظت، کسان کی عزت اور نچلے طبقے کے وقار جیسے نکات شامل ہیں۔ ’’بنو قابل‘‘ پروگرام کے تحت بارہ لاکھ نوجوانوں کا رجسٹر ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ نوجوان اس ملک کی تعمیر میں کردار ادا کرنے کے لیے بے چین ہیں، مگر ریاست اْن کے راستے مسدود کر رہی ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر جماعتیں خاندانوں کی ذاتی میراث بن چکی ہیں۔ قیادت نظریاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ وراثت میں منتقل ہوتی ہے۔ فیصلے عوامی مفاد کے بجائے خاندان کی پسند و ناپسند سے جنم لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی منفرد ہے، یہ واحد جماعت ہے جہاں قیادت کارکنان کے ووٹوں سے آتی ہے، جہاں کسی خاندان کا اجارہ نہیں، اور جہاں تبدیلی کسی ایک فرد کی خواہش نہیں بلکہ اجتماعی فیصلے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ سندھ اور پنجاب دونوں جگہ سرمایہ دارانہ ذہنیت نے عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ سندھ میں ہاریوں کی حالت آج بھی غلامی سے مشابہ ہے، جبکہ پنجاب میں اختیارات سلب کر کے ایک ایسا مصنوعی نظام کھڑا کیا جا رہا ہے جس میں عوام کی کوئی آواز نہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں ’’بدل دو نظام‘‘ کا نعرہ پوری قوت کے ساتھ گونجا۔ یہ اجتماع عام ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ اس میں ایک مکمل روڈمیپ بھی موجود تھا جس نے ثابت کیا کہ پاکستان عملی تبدیلی کے لیے تیار ہو چکا ہے۔ معروف صنعتی ماہرین کی گفتگو اور لاکھوں افراد کا اجتماعی ردعمل بتا رہا تھا کہ قوم صرف تنقید نہیں چاہتی، حل چاہتی ہے، اور وہ حل سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کے ان الفاظ نے اجتماع کی روح کو مزید جلا بخشی کہ: ’’کارکنان اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے سب کو اپنے ساتھ لے کر چلیں گے، اور بہت جلد انقلاب آپ کے دروازے پر دستک دے گا‘‘۔ یہ دراصل ایک واضح پیغام ہے کہ اختلاف سیاسی جماعتوں سے نہیں، بلکہ اْس فرسودہ نظام سے ہے جو عوام کو جاہل رکھتا ہے، وسائل پر قبضہ کرتا ہے اور طاقت کو چند خاندانوں تک محدود رکھتا ہے۔ مینارِ پاکستان کے اس تاریخی اجتماع نے ثابت کر دیا کہ عوام تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ مگر تبدیلی صرف نعروں سے نہیں آتی، اس کے لیے نظریاتی قیادت، جمہوری مزاج، اجتماعی جدوجہد اور مسلسل استقامت درکار ہوتی ہے۔ بدل دو نظام‘ کا روڈمیپ قوم کے سامنے ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ تبدیلی ممکن ہے یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ قوم اس تبدیلی کا حصہ کب بنتی ہے؟ ملک ایک نئے موڑ پر کھڑا ہے۔ ممکن ہے کہ مینارِ پاکستان سے اٹھنے والی یہ تحریک اْس روشنی کی طرح ثابت ہو جو اندھیروں میں ڈوبے اس وطن کو منزل تک پہنچا دے۔ اب فیصلہ قوم کا ہے کہ وہ اس روشنی کا ساتھ دیتی ہے یا ایک بار پھر تاریخ کے اندھیروں میں کھو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم کو اس بدل دو نظام تحریک میں گلی محلوں اور ہر ہر سطح پر منظم ہو کر تحریک چلانے یوگی یہی قومی ضرورت اور اجتماع عام کا پیغام ہے۔