دماغ کی بلوغت کب تک جاری رہتی ہے، دماغی عمر کے 5 مراحل کونسے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
کیمرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک تحقیق کے مطابق انسانی دماغ زندگی میں 5 مختلف مراحل سے گزرتا ہے جن کے اہم موڑ 9، 32، 66 اور 83 سال پر آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پہلی بار انسانی دماغ کے خلیوں کا جامع نقشہ تیار، کونسی بیماریوں پر قابو پایا جاسکے گا؟
تقریباً 4,000 افراد کے دماغ کے اسکین کیے گئے تاکہ دماغی خلیات کے درمیان روابط کا جائزہ لیا جا سکے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ دماغ کی بلوغت کی مدت 30 کی دہائی تک جاری رہتی ہے اور اس دوران دماغ کی کارکردگی اپنی بلند ترین سطح تک پہنچتی ہے۔
دماغ کے 5 مراحل کچھ اس طرح ہیں۔
بچپنپیدائش سے 9 سال تک: اس دوران دماغ تیزی سے بڑھتا ہے لیکن زائد رابطے کو کم کرنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔
بلوغت9 سے 32 سال تک: یہ وہ مرحلہ ہے جب دماغی نیورونز زیادہ مؤثر ہو جاتے ہیں اور کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس دوران ذہنی صحت کے مسائل کے آغاز کا سب سے زیادہ خطرہ بھی ہوتا ہے۔
اڈلٹ ہڈ، اگلا سفر32 سے 66 سال تک: اس دوران دماغ نسبتا مستحکم ہوتا ہے لیکن دماغی کارکردگی میں آہستہ آہستہ کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔
66 سے 83 سال تک: دماغ کے علاقے زیادہ الگ الگ کام کرنے لگتے ہیں اور اس دوران ڈیمینشیا اور بلند فشار خون کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔
دیرینہ بڑھاپا83 سال کے بعد: دماغی تبدیلیاں ابتدائی بڑھاپے کی طرح ہیں لیکن زیادہ نمایاں اور صحت مند دماغ تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
تحقیق کے اہم نکاتدماغ زندگی بھر جاری تبدیلیوں سے گزرتا ہے لیکن یہ عمل یکساں نہیں بلکہ مختلف مراحل اور اتار چڑھاؤ کے ساتھ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کام کرنا ممکن بنالیا گیا
تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ دماغی مراحل اہم زندگی کے سنگ میل جیسے بلوغت، والدین بننا اور صحت کے مسائل کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔
یہ تحقیق مرد اور خواتین کو الگ نہیں دیکھتی مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین میں مینوپاز دماغی مراحل پر اثر ڈال سکتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ دماغ کی وائرنگ کا فرق توجہ، زبان، یادداشت اور مختلف رویوں میں مسائل کی پیش گوئی کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: ڈراؤنی فلمیں دماغ پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں؟
یونیورسٹی آف ایڈنبرگ کے پروفیسر تارا اسپائرز جونز کہتے ہیں کہ ایک دلچسپ تحقیق ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ ہمارا دماغ زندگی بھر کتنی تبدیلیوں سے گزرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوغت کی عمر دماغ دماغ کی بلوغت دماغی صحت دماغی عمر کے 5 مراحل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوغت کی عمر دماغ کی بلوغت دماغی عمر کے 5 مراحل ہوتا ہے دماغ کے کہ دماغ دماغ کی سال تک
پڑھیں:
ڈیجیٹل کریئٹرز میں سنگین ذہنی امراض کا خطرہ تشویشناک حد تک بڑھ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا پر ویڈیوز بنانا اور انہیں مختلف پلیٹ فارمز پر شیئر کرنا لاکھوں افراد کے لیے معمول بن چکا ہے۔
ہر بار جب کوئی صارف اپنے فون پر کوئی ایپ کھولتا ہے تو مختصر ویڈیوز کی نہ ختم ہونے والی قطار اس کے سامنے آ جاتی ہے۔ یہی رجحان اب آمدنی کا ایک نیا ذریعہ بھی بن چکا ہے، جسے کچھ لوگ کل وقتی روزگار کی صورت میں اختیار کر چکے ہیں جبکہ کئی افراد اسے پارٹ ٹائم طور پر استعمال کرتے ہیں۔
بظاہر یہ دنیا دلکش اور آسان دکھائی دیتی ہے، مگر حالیہ تحقیق نے اس پیشے کے پس پردہ ایک سنجیدہ پہلو کو بے نقاب کیا ہے۔
امریکا میں کی جانے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق وہ افراد جو سوشل میڈیا کے لیے باقاعدگی سے ویڈیوز، تصاویر یا دیگر مواد تیار کرتے ہیں، ذہنی امراض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی اس تحقیق نے واضح کیا کہ آن لائن کریٹرز کی ایک بڑی تعداد انزائٹی، ڈپریشن، برن آؤٹ اور جذباتی دباؤ جیسے مسائل سے گزر رہی ہے۔ یہ مطالعہ شمالی امریکا کے 500 ایسے افراد پر مشتمل تھا جو فل ٹائم یا پارٹ ٹائم کریٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
اس حوالے سے دستیاب اعداد و شمار کافی چونکا دینے والے ہیں۔ تحقیق کے مطابق 62 فیصد کریٹرز نے برن آؤٹ، یعنی شدید ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ کی شکایت کی۔ اسی طرح 65 فیصد افراد مسلسل اپنے مواد کی کامیابی کے دباؤ میں رہتے ہیں اور ہر ویڈیو یا پوسٹ کی کارکردگی اُن کی ذہنی کیفیت کو متاثر کرتی ہے۔
سب سے تشویشناک پہلو یہ سامنے آیا کہ تقریباً 69 فیصد کریٹرز مالی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جس کے باعث انہیں ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ اگلی ویڈیو یا آئندہ مواد ان کی آمدنی برقرار رکھنے کے لیے کافی ہوگا یا نہیں۔
اس تحقیق نے یہ بھی بتایا کہ کچھ افراد اپنے کام سے متعلقہ دباؤ کے باعث خودکشی کے خیالات بھی رکھتے ہیں، اگرچہ وہ عملی طور پر ایسا اقدام نہیں کرتے۔
محققین کے مطابق سوشل میڈیا پر اپنے آپ کو مسلسل پیش کرنا اور لاکھوں لوگوں کی رائے کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ وہاں تنقیدی تبصرے، نفرت آمیز رویے، تمسخر اور تحقیر کرنے والے جملے عام ہیں، جو کریٹرز کی ذہنی صحت کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل کریٹرز کو اپنے فالوورز سے جڑے رہنے کا مستقل دباؤ رہتا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے کچھ دن نیا مواد پوسٹ نہ کیا تو ان کی رسائی، مقبولیت اور آمدنی کم ہو سکتی ہے۔ یہی دباؤ انہیں بے چینی، ڈپریشن اور جذباتی تھکن میں مبتلا کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ذاتی زندگی اور آن لائن کام کے درمیان توازن رکھنا بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ انہیں ہر وقت نئے تصورات، نئے رجحانات اور نیا مواد تیار کرنے کی فکر ستاتی رہتی ہے۔
محققین نے واضح کیا کہ ایسے کریٹرز اکثر خود کو ناکافی سمجھنے لگتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ ان کا کام کمزور ہے یا وہ دوسرے کریٹرز جتنا موثر مواد نہیں بنا پا رہے۔ اس خود ساختہ موازنہ اور مثالی کارکردگی کے دباؤ سے ذہنی صحت بتدریج متاثر ہوتی ہے۔ جب لاکھوں صارفین مسلسل ایک شخص کے مواد پر اپنی رائے دیتے رہیں تو ہر تبصرہ، ہر ریویو اور ہر عددی نتیجہ اُس کی ذہنی کیفیت پر اثر چھوڑتا ہے۔
تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کی دنیا ایک جانب بے شمار مواقع فراہم کرتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ ذہنی اور جذباتی چیلنجز بھی ساتھ لے کر آتی ہے۔
ماہرین نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ آن لائن کریٹرز کے لیے ذہنی صحت کی سہولیات، آگاہی اور معاونت کے نظام کو بہتر بنائیں تاکہ اس صنعت کا بڑھتا ہوا دباؤ اُن کی زندگیوں پر کم منفی اثر ڈالے۔